خود احتسابی

پاکستان سے کینیڈا واپس آنے کے بعد جہاں مجھے اور بے شمار تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں ابا جی کی آنسو بھری سرخ آنکھوں نے مجھے شدید روحانی بے آرامی میں مبتلا کر دیا

Samina Tabassum ثمینہ تبسم پیر 19 جون 2017

Khud Ahtasabi
پاکستان سے کینیڈا واپس آنے کے بعد جہاں مجھے اور بے شمار تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں ابا جی کی آنسو بھری سرخ آنکھوں نے مجھے شدید روحانی بے آرامی میں مبتلا کر دیا۔ میرے پاس ایک منٹ کی فرصت نہیں تھی کہ میں کہیں بیٹھ کر جی بھر کر رو لیتی۔ نہ کوئی ایسا کندھا تھا کہ جس پہ سر ٹکا کر سب کچھ بھول کر بے فکر ہو جاتی۔ ان دنوں میں کینیڈا کے سب سے بڑے کپڑوں کے سٹور ”فیبرک لینڈ“ میں ایک کیشئر کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔

ایک دن میری اطالوی مینیجر ایلویرا نے مجھے لنچ روم میں کھانا سامنے رکھے سوچوں میں گم دیکھا تو میرے پاس آکر بیٹھتے ہوئے کہنے لگی کہ پاکستان سے واپس آ کر بجائے اس کے کہ فریش لگتیں تم حد سے زیادہ ڈپریسڈ لگ رہی ہو، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے چند لمحے سوچا اور پھر ایک غیر جانبدارانہ رائے لینے کے لیے اس سے اپنے ابا جی کی بات شیئر کی۔

(جاری ہے)

وہ بہت اداس ہو گئی اور بولی کہ بعض اوقات ہم ماں کی محبت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ باپ کا بھی ہم پہ اتنا ہی احسان اور حق ہے۔

پھر میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہنے لگی کہ آج کام پہ رش نہیں ہے، تم آدھے دن کی چھٹی لے لو اور تسلی سے بیٹھ کر اس بارے میں سوچو۔ ویسے بھی مجھے اور میرے کسٹمرز کو تمہارا یہ اُداس چہرہ پسند نہیں ہے۔ میں نے اپنی جیکٹ اور ہینڈ بیگ اٹھایا، کافی شاپ پہ جا کر ایک ایکسٹرا لارج بلیک کافی لی اور باہر نکل آئی۔ جنوری کا سرد مہینہ تھا، ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی، میں اپنی بلڈنگ کے چھوٹے سے پارک میں آ کر بیٹھ گئی۔

سردی کی وجہ سے وہاں کوئی نہیں تھا لہٰذا کافی دیر تک رونے اور سوچنے کے بعد مجھ پہ انکشاف ہوا کہ میرے اور میرے ابا جی کے درمیان پیدا ہونے والے اس فاصلے کی اصل وجہ میری امی جی ہیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں اپنی ماں کی محبت میں اس شدت سے مبتلا تھی کہ ایک تابعدار بیٹی ہونے کے باوجود میں اپنے ابا جی سے اپنی محبت محسوس ہی نہ کر سکی۔ بڑی بہنوں کی نسبت کہ سب نے امی کے ساتھ گھر کے کام سنبھالے ہوئے تھے، میرا واسطہ ابا جی سے اس لیے زیادہ پڑتا تھا کہ میں بہت بچپن میں ہی سلائی میں ماہر ہو چکی تھی، لہٰذا ابا جی کی پینٹوں کی بیلٹیں کھلی یا تنگ کرنی، ان کی لمبائی فکس کرنی، پرانی شلواروں پہ نیفے ڈال کر پرانے پائینچے کاٹ کر نئے پائینچے بنانے، بوشرٹوں کے کف اور کالر پرانے ہو جانے پہ ان کی اندر کی سائیڈ باہر کر کے پھر سے لگانا، قمیضوں کے ٹوٹے ہوئے بٹن لگانے کے کام وغیرہ میں تقریباً روزانہ ہی کرتی تھی۔

وہ بہت خوش ہوتے تو مجھے چار آنے انعام کے طور پر دیتے۔ جب میرے پاس بارہ آنے جمع ہو جاتے تو میں اپنے لاڈلے بھائی ٹیپو ( شہید ) سے واہ کینٹ کے مشہور ”سپنزر کیفے“ سے دو پیسٹریاں یا کریم رول منگواتی اور ہم دونوں گھر کے باغیچے میں بیٹھ کر مزے سے کھاتے۔ ٹیپو کو پیسٹری کی کریم بہت پسند تھی۔ میں اپنے حصے کی کریم اسے دے دیتی تو وہ شکریہ کے طور پہ مجھے دو تین بار ”باجی“ کہہ کر بلا لیتا۔

یہ کار خیر ایک آدھ گھنٹے سے زیادہ نہ چلتا تھا۔ ابا جی کو باقی بھائی بہنوں کی طرح میری پڑھائی کی بھی فکر رہتی تھی۔ وہ لکھائی پہ خاص توجہ دیتے تھے۔ ہر روز مغرب کی نماز کے بعد کھانے سے فارغ ہوتے تو عشاء کی اذان تک کسی ایک بچے سے کہتے کہ اپنا بستہ لے کر بیٹھک میں آؤ۔ جس کا نام لیتے اس کی سٹی گم ہو جاتی اور باقی سکھ کا سانس لے کر چپکے چپکے مسکرانے لگتے۔

مری باری آتی تو ساری نیٹ اور رف کاپیاں چیک کرتے، میری ”کوجی“ لکھائی پہ جھڑکیاں دیتے، تختی لکھواتے اور غلطیاں نکالتے۔ قلم کو کس طرح پکڑنا ہے، کیسے گھمانا ہے، کتنی سیاہی لگانی ہے یہ سب میں نے ابا جی سے ہی سیکھا۔ نیٹ کاپیوں پہ ٹیچر کے چیک کیے کام میں غلطیاں نکالتے اور ٹیچر کے نام ”ضروری نوٹ“ لکھ دیتے جس پہ مجھے کلاس میں ٹیچر سے بھی جھڑکیاں پڑتیں۔

سلیٹ پہ املاء کرواتے اور ہر غلطی دس مرتبہ لکھنے کی سزا دیتے۔ اگر کبھی وہی غلطی دہراتی تو زور سے جھڑکتے ”گل کناں اچ مارنی ایں، اک لانڑی اے میں تیریاں مغراں اچ۔“ ( آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ”مغراں“ کہتے کس کو ہیں) اُن کی خوفناک گھوری پہ میرے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف میری لکھائی بہتر ہوئی بلکہ اردو بھی باقی کلاس سے بہتر ہو گئی۔

یہ الگ بات ہے کہ جس ٹیسٹ میں مجھے دس بٹا دس ملتے اس میں سے بھی وہ کسی نقطے یا زیر زبر پیش کی غلطی نکال لیتے اور کہتے ، ”زیادہ دند نہ کڈھ، تیری اُستانی وی تیری طراں نکمی اے۔“ چھٹی کے دن سویرے سویرے ہماری شامت آ جاتی۔ حکم ہوتا باغیچے میں آؤ۔ سردی ہو یا گرمی ناشتے سے پہلے باغیچے کی صفائی کرنا لازم تھا۔ اس وقت ہمارے باغیچے میں پھلوں کے بڑے چھوٹے اُنیس درخت تھے، جن میں شہتوت، بیر، خوبانی، آلو بخارا، امرود، میٹھا، کھٹے، مالٹے، لوکاٹ اور ناشپاتی کے پیڑ شامل تھے، جن پہ بے شمار پھل لگتا اور اکثر ہم پکنے سے پہلے ہی کھا جاتے۔

صفائی کا کام درختوں کی کٹائی چھٹائی سے شروع ہوتا۔ شاخیں کاٹنے کے لئے آری یا کلہاڑی کیسے پکڑنی ہے اور کیسے چلانی ہے کہ درختوں کو بلاوجہ کٹ نہ لگیں میں نے ابا جی سے ہی سیکھا۔ ایک بار میں نے چڑ کرکہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے جہاں ایک شاخ کاٹی ہے وہاں دو اور کٹ جائیں، تو ڈانٹ کر بولے کہ نہیں درختوں کو بلاوجہ دکھ نہیں دیتے، ان میں بھی جان ہوتی ہے۔

اس کے بعد ساری بڑی شاخوں کو ”چھمکوں“ سے صاف کر کے ترتیب سے برآمدے کی چھت پہ رکھا جاتا تاکہ سوکھ جائیں اور تندور کے ”بالنڑ“ کے طور پہ استعمال ہو سکیں۔ ساری چھوٹی چھوٹی شاخوں سے سنتھے کی باڑھ کے سوراخوں کو بند کیا جاتا تاکہ مرغیاں وہاں سے اندر آ کر کیاریاں خراب نہ کریں۔ کیاریاں درست ہوتیں۔ ان میں سے جنگلی بُوٹیاں نکال کر اُن کی گوڈی کی جاتی۔

انگیٹھی اور تندور جلانا بھی میں نے ابا جی سے ہی سیکھا۔ کون سی لکڑیاں پہلے رکھنی ہیں کون سی بعد میں اور کن لکڑیوں سے آگ جلانی ہے یہ ترتیب وہ بڑے دھیان سے سمجھاتے۔ اور جب میں خود لکڑیاں رکھتی اور وہ غلط ترتیب سے ہوتیں تو سب باہر نکلوا کر پھر سے رکھواتے اور لکڑیوں سے پہلے میں جل بھن کر راکھ ہو جاتی۔ اُن دنوں ہمارے گھر فوم والے بیڈز نہیں ہوتے تھے۔

سرخ پائیوں والے نواڑی پلنگ تھے یا سُوتر کی بنی ہوئی چارپائیاں۔ سال میں ایک بار گرمیوں میں سارے پلنگ کھول کر اُن کی نواڑ دھوئی جاتی تھی، سب چارپائیوں کی ”بائیوں“ کو دھوپ میں رکھ کر ان پہ کھولتا ہوا پانی ڈالا جاتا تاکہ کوئی کھٹمل وغیرہ ہونے کا اندیشہ نہ رہے، ٹوٹی ہوئی چارپائیوں کو پھر سے بُنا جاتا، ڈھیلی ”ادوائین“ کسی جاتی، نواری پلنگ بنائے جاتے۔

گھر میں موجود نائیلن کی کرسیاں اور پیڑھیاں مرمت کی جاتیں۔ یہ سارے کام میں نے میٹرک سے پہلے پہلے ابا جی سے سیکھے۔ اس طرح ہر چیز کی دیکھ بھال کرنی اور ہر کام اپنے ہاتھ سے کرنا میرے مزاج کا حصہ بن گیا۔ پانچویں کلاس سے میں نے سکول میں ہونے والے تقریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ شروع میں ابا جی ہی مجھے تقریریں لکھ کر دیتے تھے اور خود پریکٹس کراتے۔

رفتہ رفتہ میں خود اپنی تقریر لکھنے لگی۔ جب تقریروں کا موسم آتا تو خصوصی وقت نکال کر ٹاپک ڈسکس کرتے اور بتاتے کہ اردو مباحثہ موافقت میں لکھو یا مخالفت میں اور اس کے اہم پواٹس لکھ کر دیتے۔ ایک بار کالج کے پنجابی ٹاکرے کے لیے ابا جی سے اچھی خاصی بحث ہوگئی۔ ٹاکرے کا موضوع تھا کہ “ویاہ ہوئے تے چاہ دا ہوئے“ ابا جی نے اُسی وقت کہا: ”بکواس، مخالفت اچ لکھیں۔

“ میں نے کہا نہیں یہ مجھے پسند ہے، میں موافقت میں لکھوں گی، وہ ہکا بکا میری شکل دیکھتے رہ گئے۔ پھر جھڑک کے بولے: ”تیرا دماغ تے نیئں خراب ہوگیا، پُٹھے کم نہ کریں۔“ لیکن میں نے پُٹھا کم ہی کیا۔ دل لگا کر تقریر لکھی کہ عزت کا سوال تھا۔ فیصل آباد میں ہونے والے اُس ٹاکرے میں مجھے پہلا انعام یہ بڑا سا کپ ملا۔ کپ دیکھ کر ابا جی بہت خوش ہوئے۔

لیکن ساتھ ہی بولے، ”تقریر اچ تے تُوں ایویں گیاریاں باریاں ماریاں ہوسن۔ انعام تینوں تیری پنجابی آواز دی وجہ تُوں ملیا اے۔“ اور اس بات پہ میں جل بھن کے رہ گئی۔ جب میں نے ابا جی کے بارے میں ایمانداری سے سوچنا شروع کیا تو مجھے بے حد خوشگوار احساس ہوا کہ ابا جی سے سیکھے ہوئے تمام کام میری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں اور میں نادانستہ طور پہ اپنے ابا جی کی کاپی بن چکی ہوں۔

وہی کتابیں پڑھنا،باغبانی کرنا، سبزیاں لگانا ،سردی گرمی واک پہ جانا، دودھ پتی پینا، گوشت شوق سے کھانا۔ اور تو اور میری تو بیماری بھی ابو والی ہی ہے یعنی ہائی کولیسٹرول ! میرے دل سے ابو کے خلاف جمع سارا غصہ اور کدورت ختم ہوگئی اور میرا دل ان کی محبت سے سرشار ہوگیا۔ گھر آنے کے بعد پہلی بار میں نے صرف ابو سے بات کرنے کے لیے پاکستان فون کیا۔

وہ بہت خوش ہوئے اور کافی دیر تک بات کرتے رہے۔ ان کی ایک بات پہ میں چونکی جب انہوں نے مجھے بہادری سے حالات کا مقابلہ کرنے کی نصیحت کی۔ فون بند کرنے کے بعد جہاں ایک طرف میری روح پہ رکھا بھاری بوجھ اتر گیا تھا وہیں یہ سوال مجھے بری طرح چبھنے لگا کہ انھیں میرے حالات کا کیا پتہ ہے؟ حالات ایسے بدل جایئں گے اسکا تو مجھے اندازہ ہی نہیں تھا !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Khud Ahtasabi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.