خواتین کا سیاسی رول

1918ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس نے خواتین کی حق رائے دہی کیلئے حمایت کی جس کے نتیجہ میں برصغیر کی خواتین کو ووٹ کا حق مل گیا اسکے بعد گورنمنٹ آف انڈیا کے 1935 ء کے ایکٹ کے تحت 66 لاکھ خواتین ووٹر بن گئیں۔ پہلی بار خواتین کو فیڈرل اسمبلی کی 250 میں سے 9 نشستیں اور کونسل آف سٹیٹ کی 150 میں سے 6 نشستیں الاٹ کی گئیں۔

منگل 25 اکتوبر 2016

Khawateen ka Siasi Roll
ماہ ناز رفیع:
1918ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس نے خواتین کی حق رائے دہی کیلئے حمایت کی جس کے نتیجہ میں برصغیر کی خواتین کو ووٹ کا حق مل گیا اسکے بعد گورنمنٹ آف انڈیا کے 1935 ء کے ایکٹ کے تحت 66 لاکھ خواتین ووٹر بن گئیں۔ پہلی بار خواتین کو فیڈرل اسمبلی کی 250 میں سے 9 نشستیں اور کونسل آف سٹیٹ کی 150 میں سے 6 نشستیں الاٹ کی گئیں۔

1947ء میں پاکستان بن جانے کے بعد 1935ء کے ایکٹ کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلی میں چند خواتین کو نمائندگی جن میں بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بیگم شائستہ اکرام اللہ مرکزی قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب ہوئیں۔ پاکستان کی خواتین کیلئے مرکزی سیاسی دھارے میں شمولیت ہمیشہ دشوار گزار رہی اسمبلی میں نمائندگی اتار چڑھاوٴ کا شکار رہی۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ پر جاگیرداروں اور قدامت پسند گروہوں کا قبضہ رہا جن کی سوچ تھی کہ خواتین کا سیاست میں آنے سے خاندانی نظام تباہ ہو جائیگا اسی لئے خواتین کو ترقی کے عمل میں شرکت سے روکا گیا۔

حالانکہ قائداعظم نے یہ کہا تھا کہ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کریں۔قیام پاکستان کے وقت ہی سے سیاست اور قانون ساز اداروں میں خواتین کی معمولی نمائندگی اور عدم شرکت کی وجہ سے انکے لئے مخصوص نشستوں کا نظام رائج رہا۔ پاکستان کے 1962 -1956ء اور 1973ء کے آئین میں خواتین کیلئے مخصوص نشستیں رکھی جاتی رہیں مگر یہ صرف آٹے میں نمک کے برابر تھیں۔

1962ء کا آئین جو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنایا تھا اس میں قومی اسمبلی میں دس فیصد اور صوبائی اسمبلی میں پانچ فیصد نشستیں خواتین کیلئے مخصوص کی گئیں۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہی طریقہ رکھا۔ جب ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا اور 1985ء کا الیکشن ہوا تو قومی اسمبلی میں خواتین کی نشستیں کر دی گئیں ڈبل یعنی بیس مگر چونکہ 1973ء کے آئین میں خواتین کی نشستیں دس سال یا دو الیکشن تک رکھی گئیں تھیں اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ 1988ء میں خواتین کی نشستیں خود بخود ختم ہو گئیں۔

بدقسمتی سے 1988ء میں پی پی پی حکومت تھی۔ انہوں نے کچھ نہیں کیا دو بار مسلم لیگ ن کو حکومت کا موقعق ملا۔ اسکے باوجود کہ خواتین کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے بار بار اسرار کے باوجود نشستیں بحال نہیں کی گئیں۔ 1995ء میں نواز شریف ٹو تھرڈ میجارٹی سے حکومت آئے اس وقت میں مسلم لیگ میں تھی میرے بار بار کہنے کے باوجود خواتین کو موقعہ نہیں دیا آج نواز شریف اور شہباز شریف بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں۔

انہوں نے بھی کچھ نہ کیا۔جنرل مشرف صاحب جب اقتدار میں آئے تو لوگوں کو یہ امید تھی کہ وہ چونکہ لبرل سوچ رکھتے ہیں تو خواتین کو بھی سیاست میں کام کا موقع ملے گا اور پھر ایسا ہی ہوا کہ خواتین کے حقوق کیلئے ”کمشن آن دی سٹیٹس آف وومین“ کا قیام ہوا جو مستقل اور آئینی ادارہ تھا۔ بیگم عطیہ عنایت اللہ صاحبہ جو اس وقت خواتین کی وزیر تھیں۔

انہوں نے مشرف صاحب کی خواہش پر سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں کی خواتین مشورے کئے کہ خواتین کی پارلیمنٹ کتنی نمائندگی اور کس طریقہ سے انتخاب کیا جائے، کچھ جماعتوں کی خواتین نے کہا کہ کم سے کم جتنی سیٹ پہلے تھیں اتنی کر دی جائیں اور پرانا انتخاب ہی ٹھیک ہے۔ میں نے مسلم لیگ کی طرف سے مشورہ دیا کہ 33 فیصد خواتین ممبر ہوں اور متناسب طریقہ انتخاب ہو۔

اسمبلی کے مرد ممبروں کے ووٹ کا طریقہ مناسب نہیں جبکہ این جی اوز کا خاص طور پر Waf کا کہنا تھا کہ عورتوں کی نشستوں میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے اور سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ جنرل سیٹ کیلئے خواتین کو 10 فیصد ٹکٹ دیں حکومت نے مشورے کے بعد نیشنل، پروفیشنل اسمبلیوں میں 17 فیصد خواتین کی نمائندگی مناسب طریقہ انتخاب کے ذریعہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلی بار سینٹ میں خواتین کی 17 فیصد نمائندگی دی گئی جن کی وجہ سے قومی اسمبلی میں 60 خواتین سینٹ میں 17 خواتین ممبر بنیں جو خواتین کی بہت بڑی کامیابی تھی۔

اس سے بڑی بات یہ ہوئی کہ مشرف حکومت مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جو اصل جمہوریت ہے وہاں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد کی خاص بات یہ تھی کہ خواتین کا مقابلہ براہ راست خواتین سے تھا مگر ووٹر مرد اور خواتین دونوں تھے اسکا مطلب یہ تھا کہ نمائندہ خاتون صرف خواتین کی نمائندہ نہیں بلکہ پورے علاقہ کی نمائندہ ہیں۔ مشرف صاحب اور ”ق“ لیگ نے خواتین کی خواہش پر کے ضیاء الحق کے دور میں خواتین کیخلاف قانون جیسے ”حدود آرڈیننس“ غیرت کے نام پر قتل ”جیسے قانون جس میں قاتل“ دیت اور قصاص“ کا سہارا لے کر بچ جاتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل میں ترمیم کی گئی کہ مقتول کا ولی اگر معاف کر دے تو معافی نہیں ہوگی جج صاحبان اسکو جرمانہ اور کم سے کم دس سال کی سزا دے سکتا ہے۔ چند دن پہلے ”جوائنٹ سیشن“ میں ایسے ظا ہر کیا گیا کہ غیرت کے نام پر قانون کیخلاف نیا قانون بنا جبکہ صرف یہ ترمیم ہوئی کہ دس سال کی سزا کو 25 سال کیا گیا ہے۔ اسی طرح ”حدود آرڈیننس“ کے حوالے سے ”زنا بل جبر“ میں تبدیلی کی گئی ہے۔

جبکہ یہ تبدیلی بھی 2006ء میں ہو چکی تھی اسکے علاوہ ”قذف“ وراثت میں عورتوں کے حصہ قرآن کریم سے شادی اور خواتین کیخلاف فرسودہ روایات کے خاتمے کے بل پاس ہو چکے تھے موجودہ حکومت لوگوں کو بیوقوف بنا رہی جھوٹے اشتہار لگا کر۔ ان تمام خواتین کے خلاف قوانین کو جب ہم نے ترمیم یا ختم کیا تو ”ن“ لیگ نے بائی کاٹ کیا اور آج غلط بیانی کر رہے ہیں۔

ہم نے خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے ایسے محکمہ جو خواتین کیلئے شجرہ ممنوں تھے جیسے کہ فوج‘ ائیر فورس‘ نیوی‘ پولیس‘ رینجرز میں موقع فراہم کیا یہ خوشی کی بات ہے کہ آج تمام سیاسی پارٹیوں کی خواتین پارلیمنٹ کی ممبر بن رہی ہیں تمام شعبوں میں خواتین اپنے ملک کی خدمت کر رہی ہیں۔ یہی تھی قائداعظم کی سوچ کہ خواتین اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ پاکستان کی خدمت کریں ”وہ ہماری حکومت نے پورا کیا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Khawateen ka Siasi Roll is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 October 2016 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.