جی رہے ہیں آپ کی جو گندگی

بھلوال سے بھیرہ تک فاصلہ پندرہ میل اور تب سفر ایک گھنٹے کا تھا لیکن گزر پل بھر میں جاتا۔ اصل سفر بھیرہ سے بھیرہ تک کا ہوتا۔ سرکلر روڈ پر تانگے کا سفر پل صراط کے سفر سے کم نہ محسوس ہوتا۔ بھیرہ بانہیں کھول کر استقبال کرتا۔ جتنے دن ملتے لمحوں میں گزر جاتے۔ دن کا آغاز والد مرحوم کی انگلی پکڑے ہوتا۔ منہ اندھیرے صبح کے اس پہلے سفر کا پہلا پڑائو گانگی والا ہوتا جو کھُوہ در کھُوہ ہوا خوری کے بعد دن چڑھے گھر پر ختم ہوتا۔ گانگی والا ہمارا خاندانی قبرستان تھا جس کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی والد مرحوم کو زبانی یاد تھا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ پیر 19 جون 2017

Jee rahay haiN aap ki jo gandagi
بھلوال سے بھیرہ تک فاصلہ پندرہ میل اور تب سفر ایک گھنٹے کا تھا لیکن گزر پل بھر میں جاتا۔ اصل سفر بھیرہ سے بھیرہ تک کا ہوتا۔ سرکلر روڈ پر تانگے کا سفر پل صراط کے سفر سے کم نہ محسوس ہوتا۔ بھیرہ بانہیں کھول کر استقبال کرتا۔ جتنے دن ملتے لمحوں میں گزر جاتے۔ دن کا آغاز والد مرحوم کی انگلی پکڑے ہوتا۔ منہ اندھیرے صبح کے اس پہلے سفر کا پہلا پڑائو گانگی والا ہوتا جو کھُوہ در کھُوہ ہوا خوری کے بعد دن چڑھے گھر پر ختم ہوتا۔

گانگی والا ہمارا خاندانی قبرستان تھا جس کی تاریخ ہی نہیں جغرافیہ بھی والد مرحوم کو زبانی یاد تھا۔ دور و نزدیک کے ہر رشتہ دار کی قبر پر طویل دعائوں کے بعد صاحبِ قبر کے تفصیلی حدود اربعہ کا سبق یاد کروایا جاتا۔ اتنی تفصیل ہمارے خاندان کے کسی اور رکن کے پاس نہیں تھی۔

(جاری ہے)

ایک طرح سے یہ میری ٹریننگ تھی جو بعد میں بھلوال کی ملازمت کے دور میں قبروں کی سالانہ دیکھ بھال کے لیے میرے کام آئی۔

واپسی پر کھُوہ در کھُوہ گھومنا مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا کہ کہیں پہ مزارعنیاں چھوٹے بیروں یا چِیرویں پالک کی پوٹلی تھما دیتیں اور کہیں پہ پونے گنوں کا گٹھا۔ نہ تو بھیرے کے گنوں کی مٹھاس بھولی نہ پالک کا ذائقہ۔ (بھلوال سے واپسی پر گنے، پالک، پتیسہ، مہندی اور پھینیاں سامان کا حصہ ہوتے)۔ واپسی دن چڑھے اور لدے پھندے ہوتی۔ ایسے ہی ایک سفر کے بعد پہلی بار چاچا حاجی سے ملاقات ہوئی۔

میراں صاحب کی خانقاہ کی نکڑ سے اپنی گلی کا موڑ مڑا تو ’سلامالیکم بھائیا جی‘ کی زوردار آواز آئی۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا، سوائے گلی کی صفائی کرنے والے کے، گلی میں خاک اُڑ رہی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب روزانہ صبح دم ہر گلی کی صفائی ہوتی تھی، پانی چھڑکا جاتا تھا، گلی کے بیچوں بیچ بنی نالیوں کی صفائی اور کناروں پر چونے کا چھڑکائو ہوتا تھا، شام کو ہر گلی کی نکڑ پر لگے لیمپوں میں تیل ڈال کر جلایا جاتا تھا۔

جھاڑو رکھ کر چاچا بانہیں پھیلائے پہلے یہ کہتا میری طرف لپکا ’اج تے ظہیر احمد ہوری بھی نال نیں‘۔ میں تلملایا، کسمسایا مگر کوئی بس نہ چلا۔ کتنی ہی دیر اس نے مجھے بانہوں کے نرغے میں رکھا۔ بعد میں والد صاحب سے گلے ملا اور حال چال پوچھنے لگے۔ گرد کی وجہ سے میں ذرا فاصلے پر کھڑا اُن کی باتیں سنتا رہا۔ دونوں یوں باتیں کر رہے تھے جیسے لنگوٹیے ہوں۔

گھر کی ڈیوڑھی میں پہنچے تو میری شامت آ گئی ’تمہیں شرم نہیں آئی، حاجی اتنی محبت سے تمہیں مل رہا تھا اور تم کیا ظاہر کر رہے تھے؟‘ میں نے اس کے جھاڑو والے ہاتھوں کا ذکر کیا تو جواب ملا ’تم گھر جا کر صابن سے ہاتھ دھو سکتے تھے، نہا سکتے تھے، کپڑے بدل سکتے تھے لیکن تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس طرح کا رویہ رکھو۔ تمہیں تو شکر گزار ہونا چاہیے اس کا کہ تمہارے ماحول کو صاف رکھنے کے لیے وہ خود گندگی کا حصہ بنا ہوا ہے۔

‘ چاچا حاجی کی لَم سلمّی بیوی ماسی بھاگی ہمارے گھر کی صفائی کرتی تھی۔ اس دور میں فلش سسٹم تو تھا نہیں۔ بیت الخلا چوتھی منزل پر ممٹی کے بھی اوپر تھا تاکہ اوپر کی ہوا اوپر ہی رہے۔ ماسی بھاگی ہمارے ناشتے کے وقت کے بعد ٹوکرا بہ سر آتی اور سیدھی اوپر چلی جاتی۔ ٹوکرا چھت پر چھوڑ کر آتی۔ نلکے سے ہاتھ دھوتی۔ سب کا حال پوچھتی۔ کوئی نئی خبر شیئر کرتی اور دادی سے ناشتہ پکڑ کر اوپر چھت پر چلی جاتی۔

واپسی پر ٹوکرا اُٹھائے خموشی سے چلی جاتی۔ انہی دنوں کی بات ہے گھر سے واپسی کے سفر میں وہ ہمیں گلی میں مل گئی اور لگی والد صاحب سے حال چال کرنے۔ تعفن کی وجہ سے میں ذرا دور جا کر کھڑا ہو گیا لیکن والد صاحب ہر بات سے بے نیاز اس وقت تک اس سے بات چیت کرتے رہے جب تک وہ خود سے چلی نہ گئی۔ اُدھر وہ گئی اِدھر میری کلاس شروع ہو گئی۔ میں منمنایا ’بُو بہت آ رہی تھی‘۔

بات الٹا میرے گلے پڑ گئی ’گویا اسے بُو نہیں آتی جو تمہاری، میری اور ہم سب کی غلاظت کا ٹوکرا ہر روز اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتی ہے اور تمہیں اپنی ہی غلاظت سے بُو آ رہی تھی، بیٹے ہمیں تو اس کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ ہماری گندگی جی رہی ہے۔ وہ جو کچھ ہمارے لیے کر گزرتی ہے، ہم خود اپنے لیے بھی نہیں کر سکتے۔ مت بھولو وہ انسان بھی ہے اور مسلمان بھی۔‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jee rahay haiN aap ki jo gandagi is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.