جمہوری دور حکومت کے سیاسی قیدیوں پر کیا بیتی؟

ڈاکٹر عاصم سے جمشید دستی تک․․․․

ہفتہ 8 جولائی 2017

Jamhoori Daur e Hakoomat K Siyasi Waidion Par Kia Beeti
سالک مجید:
سابق صدر آصف علی زرداری ناسازی طبیعت کے باوجود سیاسی طور پر سرگرم ہیں عیدالفطر پر وطن واپس آکر انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو نیا جوش اور ولولہ عطا کیا ہے۔رمضان المبارک کے پورے مہینے میں وہ پاکستان سے باہر تھے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں قید کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ تو آزاد تھے اور بیرون ملک بھی اہم فیصلوں میں مصروف تھے۔

جانے سے پہلے وہ چیلنج دے کر گئے تھے کہ جس طرح کم عددی قوت ہونے کے باوجود انہوں نے ایک جیالا چیئر مین سینٹ منتخب کرایا تھا اسی طرح وہ اگلے مرحلے میں ایک جیالا وزیراعظم لاکر دکھائیں گے،اب عام تاثر یہ ہے کہ اپنے اس چیلنج کو درست ثابت کرنے کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں لابنگ کررہے ہیں ،ملکی اور غیر ملکی رابطوں کو استعمال کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

سیاسی بساط پر اپنی چالیں بڑی احتیاط اور ہوشیاری سے چل رہے ہیں ان کی نظریں پانامہ کیس پر بھی لگی ہوئی ہیں جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے گواہوں اور ان کے بیانات پر بھی ان کی نظر ہے اور سینٹ کے اگلے الیکشن سے قبل سیاسی صورتحال اور ڈرامائی تبدیلیوں پر بھی وہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن سندھ میں دوسروں کی وکٹیں گراتے گراتے پنجاب میں ان کی اپنی اہم وکٹیں گر گئی ہیں جس کے بعد پارٹی کے اندر بھی مایوسی پائی جاتی ہے۔

لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اب کون کون بچا ہے؟اگلا نمبر کس کا ہے۔سب نظریں قمرالزمان قائرہ پر لگی ہوئی ہیں جن کے قریبی دوست رشتہ دار پارٹی چھوڑ کر جارہے ہیں سب کو کسی ”چودھری اچانک“ نے کان میں بتا دیاہے کے اگلا ٹکٹ بنی گالہ سے لینا پڑے گا بلاول ہاؤس سے ملنے والا ٹکٹ کسی کام کا نہیں ہوگا،لہذا سب چھلانگیں لگا رہے ہیں یہ چھلانگیں بھی موسم برسات میں لگائی جا رہی ہیں جیسے برساتی مینڈک اچھل کود کرتے ہیں اسی طرح کی اچھل کود سیاست میں نظر آرہی ہے ،یہ سوال بھی اٹھا یا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی میں وزارت عظمیٰ کا اگلا امید وار تو خود بلاول ہے پھر آصف زرداری کہہ بھی چکے ہیں کہ جیالے کو وزیر اعظم بنا کر دکھاؤں گا تو کیا بلاول کو تسلی دے رہے ہیں یا سبز باغ دکھا رہے ہیں۔

اگر پیپلز پارٹی اگلا وزیر اعظم لانے کے قابل ہوگئی تو کیا بلاول کے علاوہ بھی کوئی امیدوار پارٹی میں ہوگا یا نہیں؟پارٹی چھوڑ کرجانے والوں میں اب تک صرف وہ لوگ نظر آرہے ہیں جو اگلی حکومت میں کم از کم وزرت عظمیٰ کے امیدوار نہیں ہوسکتے وہ زیادہ وزیر بننے کے خواب دیکھتے ہیں اور ماضی میں بھی ان کی یہی اوقات تھی۔جن شخصیات میں وزات عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کی صلاحیت تھی وہ تاحال پارٹی کے اندر ہی موجود ہیں اور وفادار بھی نظر آتے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف تو وزارت عظمیٰ کے مزے چکھ چکے ،چودھری اعتزاز احسن بھی خواہشمند ہو سکتے ہیں۔امین فہیم تو یہ حسرت لئے دنیا سے چلے گئے۔شاہ محمود قریشی پارٹی چھوڑ گئے۔سید خورشید شاہ بھی امیدوار ہوسکتے ہیں ان کی سیٹ بھی خطرے میں نہیں ہے جبکہ یوسف رضا گیلانی،راجہ پرویز اشرف اور چودھری اعتزاز احسن بارے میں تو یہ بات بھی یقین سے نہیں کی جاسکتی کہ وہ کس حلقے سے اور کون سے نشست سے کامیاب ہوں گے۔

ویسے گیلانی صاحب نااہلی کی معیاد تو ختم ہوچکی ہے۔نوشہرو فیروز میں عید کے اگلے روز آصف زرداری نے اپنی تقریر میں کہا کہ شریف خاندان کو مریم بی بی کی باری آنے پر تکلیف ہوتی ہو گی یاد کریں جب بے نظیر بھٹو کو جیلوں کے چکر لگوائے جاتے تھے۔آصف زرداری نے کہا کہ اگر کچھ بات ہے تو جواب دینا ہوگا۔ذاتی طور پر میں اس حق میں نہیں کے بچوں کو گھسیٹا جائے لیکن مریم بی بی کو بلایا گیا ہے تو اس کے قصور وار خود نواز شریف ہیں۔

خورشید شاہ نے بھی یہی بات کی کہ یہ سب کچھ میاں صاحب کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ہم نے ان کو نہیں پھنسایا ہے ہم نے نہیں کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں آکر جھوٹ بولو،دوسری طرف وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وہ باتیں سوشل میڈیا پر وائرل کر ہی دیں جو کافی دنوں سے مسلم لیگی حلقوں میں زیر بحث تھیں کہ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت کا تخت الٹ کر انہیں ایٹمی دھماکوں کی سزا دی گئی تھی اور آج سے پیک کی سزا دی جارہی ہے۔

جس کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہونے جارہا ہے اور 56 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری آرہی ہے اور پورے خطے کے لئے اس منصوبے کو ایک عہد ساز اور گیم چینجر قرار دیا جارہا ہے۔خواجہ سعد رفیق کے بیان کے ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ اگر جنرل مشرف سے لیکر جسٹس ارشاد تک سب کٹھ پتلیاں تھے تو پھر بچا کون؟پیپلز پارٹی بھی یہ کہتی رہی کہ بھٹو کوپھانسی دینے والے کردار مقامی تھے لیکن فیصلہ سمندر پار ہوا تھا۔

یہ بات پیپلز پارٹی کی سنیئر رہنما بھی کہتے ہیں۔کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد اور اسلامی دنیا کو ایک کرکے تیل اور کرنسی کی قوت استعمال کرنے کے جس راستے پر بھٹو چل نکلے تھے اس کی سزا امریکہ اور مغربی سامراج نے ان کو پھانسی دے کر دلائی جس کے کردار اس وقت کے سزا سنانے سے عملدرآمد کرانے تک سب نظر آتے ہیں۔آصف زرداری تو بھٹو کیس کو ری اوپن کرنے کے لئے ریفرنس بھی سپریم کورٹ میں بھیج چکے ہیں۔

سپریم کورٹ سے بھی لوگوں کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔عمران خان اور شیخ رشید کی سیاست کا دارو مدار ہی اب عدالتی فیصلوں پر ہے اس لئے وہ امید لگائے بیٹھے ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری پانامہ کیس اور پھر نہال ہاشمی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ سے توقعا ت لگائیں بیٹھے تھے کی ان کی توقعات پوری ہوگئیں ،اس پر قانونی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

اپوزیشن کو اب جمشید دستی کی فکر لاحق ہو گئی ہے جنہوں نے جیل وین سے میڈیا کو بتا یا کے ان پر جیل میں تشدد کیا جارہا ہے گھسیٹ گھسیٹ کر مارا جاتا ہے خدا کے لئے بچایا جائے۔اس پر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے نوٹس لیکر میڈیکل کرانے کی ہدایت کی اور پھر میڈیکل رپورٹ کو بنیاد بنا کر بتایا گیا کہ تشدد کے کوئی واضح نشان نہیں پائے گئے۔

اب یہ معاملہ بھی ایک درخواست کے ذریعے چلایاگیا ہے۔سپیکر قومی اسمبلی کا بھی کردار بنتا ہے کہ وہ جمشید دستی کو بلائیں اور خیریت یقینی بنائیں اپوزیشن کو یقین ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدارتی خطاب کے دوران نواز شریف کی موجودگی میں جمشید دستی نے اپوزیشن ارکان کے ساتھ مل کر جو زبردست احتجاج نعرے بازی کی تھی سیٹیاں بجائی تھیں اس کی سزا جمشید دستی کو دی جا رہی ہے۔جبکہ سوشل میڈیا پر جمشید دستی کی وہ تقریریں بھی وائرل ہوچکی ہیں جن میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف،رانا ثناء اللہ اور پنجاب پولیس پر لعنت بھیج کر انہیں للکار رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jamhoori Daur e Hakoomat K Siyasi Waidion Par Kia Beeti is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 July 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.