اللہ سے تجارت

وہ مطمئن تھا کہ آج کا دن اچھا گزر جائے گا، پھل والی ایک ریہڑی پر رک کر وہ جائزہ لینے لگا کہ یکایک اس کے سامنے والے میڈیکل سٹور سے ایک عورت روتی چلاتی برآمد ہوئی

Babur Javed بابر جاوید جمعہ 23 جون 2017

Allah se tijarat
اس کی شخصیت اس کے نام کی آئینہ دار تھی، وہ صرف نام کا ہی صابر نہیں تھا بلکہ ہر حال میں صبر شکر کرنے والا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کی آمدن اتنی زیادہ نہیں تھی پھر بھی وہ اتنے کما لیتا تھا کہ زندگی سہولت سے گزر رہی تھی۔ لیکن کچھ مہینوں سے غیر یقینی سیاسی صورت حال کی وجہ سے مجموعی طور پر کاروبار میں مندے کے رجحان کی وجہ سے اس کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا تھا، انہی دنوں اس کی بیوی کے عارضہٴ جگر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اخراجات میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گیا تھا، یہاں تک کہ فکر مندی اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی۔

رمضان کا مہینہ تھا اور وہ باقاعدگی کے ساتھ باجماعت نماز کیلئے مسجد جاتا تھا، ایک دن عصر کی نماز کے بعد امام صاحب نے اسے روک لیا، صابر نے استفہامیہ نظروں سے امام صاحب کی طرف دیکھا تو امام صاحب نے پوچھا: ”روزہ لگ رہا ہے یا کوئی پریشانی ہے؟“ صابر نے تمام حالات سے امام صاحب کو آگاہ کیا، امام صاحب نے اسے تسلی دی اور کہا کہ وہ صدقہ دیا کرے کیونکہ صدقہ بلاوٴں کو ٹالتا ہے اور مشکلات کو آسان کرتا ہے۔

(جاری ہے)

امام صاحب کی بات سن کر صابر کے چہرے پر مزید مردنی چھا گئی، امام صاحب صابر کی کیفیت بھانپ کر بولے: ”ضروری نہیں کہ بہت بڑی رقم صدقہ کرو، حدیث مبارکہ کے مطابق کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنے سے بھی برکت آتی ہے۔“ اگلے دن رمضان کی ستائیسویں تھی، صابر کی آٹھ سالہ بیٹی نے ضد کر کے روزہ رکھ لیا، صابر کے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بیٹی کیلئے اچھی سی افطاری کا اہتمام کرے لیکن اس کے پاس تو ایک دھیلہ بھی نہیں تھا۔

اس نے اللہ کا نام لیکر دکان کھولی اور دعا کرنے لگا کہ آج کم از کم اتنا کام آ جائے جس سے وہ بیٹی کی پسندیدہ افطاری خرید سکے۔ ظہر کا وقت قریب تھا اور کسی گاہک کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، پھر کسی خیال سے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، وہ اٹھا اور اس نے دکان میں پڑی پرانی ناکارہ چیزیں اکٹھی کرنا شروع کر دیں، جن میں دو پرانے پنکھے، ایک الیکٹرک موٹر، لوہے کی بہت سی ڈائیاں، روٹا مشین کی پلیٹیں اور کئی کلو ردی اخبار شامل تھے۔

اس کی دکان کے باہر ہی ریہڑی بان کھڑے ہوتے تھے، اس نے ان میں سے ایک کو وہ سب کچھ کباڑی بازار لے جانے کا کہا اور خود بھی روزے سے ہونے کے باوجود چلچلاتی دھوپ میں اس کے ساتھ چل پڑا، اس نے ایک کباڑئیے کو سارا سامان سولہ سو بیس روپے میں بیچ کر ریہڑی والے کو دو سو روپے دیئے اور خود پیدل ہی واپس ہو گیا حالانکہ وہ رکشا وغیرہ بھی کروا سکتا تھا لیکن اس نے بچت کو ترجیح دی۔

راستے میں پڑنے والی ایک مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے کے بعد اس نے ہسپتال روڈ کی طرف قدم بڑھائے کیونکہ ہسپتال چوک سے وہ افطاری کیلئے پھل خریدنا چاہتا تھا، وہ دل ہی دل میں بجٹ بنا رہا تھا، وہ اپنی بیٹی کو پہلا روزہ رکھنے پر کچھ نقد رقم بھی دینا چاہتا تھا تاکہ اس کا شوق بڑھے، امام صاحب کی نصیحت کے مطابق صدقہ کیلئے بھی کچھ بچانا تھا، عید بھی سر پر تھی لیکن وہ مطمئن تھا کہ آج کا دن اچھا گزر جائے گا، پھل والی ایک ریہڑی پر رک کر وہ جائزہ لینے لگا کہ یکایک اس کے سامنے والے میڈیکل سٹور سے ایک عورت روتی چلاتی برآمد ہوئی: ”میری بیٹی کو بچا لو، خدا کیلئے کوئی میری مدد کرو، میری بیٹی ہسپتال میں دم توڑ رہی ہے، میرے پاس دوائی کیلئے پیسے نہیں ہیں، کوئی مجھے دوائی لے دے۔

“ اور لوگ بھی وہاں سے گزر رہے تھے لیکن کسی نے عورت کی دہائی کی طرف توجہ نہ دی البتہ صابر کا دل پسیج گیا، وہ ریہڑی کو چھوڑ کر عورت کے پاس گیا اور ہمدردانہ لہجے میں مخاطب ہوا: ”آپ روئیں نہیں، مجھے بتائیں کیا ہوا؟“ ” مجھے نہیں پتہ کیا ہوا“، عورت نے بتانا شروع کیا ”میری دس سالہ بیٹی صبح سے چکر آنے کی شکایت کر رہی تھی، میں سمجھی گرمی کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہوگا لیکن کچھ دیر پہلے وہ بیہوش ہو کر گر پڑی، میں اکیلی جان جیسے تیسے اسے ہسپتال لے آئی ہوں، انہوں نے دوائیاں لکھ دیں، میرے پاس پانچ سو روپے ہیں جبکہ دوائیاں انیس سو روپے کی ہیں، آپ میری مدد کر دیں، اللہ آپ کے رزق میں برکت دے، آپ کے بچوں کو سلامت رکھے۔

” صابر نے ایک لمحے کیلئے کچھ سوچا پھر عورت کو میڈیکل سٹور کی طرف چلنے کو کہا۔ اس عورت کے پانچ سو ملا کر صابر کے پاس 2020 روپے ہو گئے، اس نے انیس سو کی دوائیاں لیں اور باقی ایک سو بیس روپے یہ سوچ کر اپنی جیب میں رکھنے لگا کہ اتنے میں ہی بیٹی کیلئے افطاری خرید لے گا، لیکن اگلے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ بیچاری عورت کے پاس تو کوئی پیسہ ہی نہیں بچا، اسے مزید کسی چیز کی ضرورت پڑی تو کیا کرے گی، اس نے یہ پرواہ کئے بغیر کہ اس کی اپنی جیب بالکل خالی ہو جائے گی وہ پیسے بھی عورت کو دے دیئے، عورت اسے دعائیں دیتی ہوئی ہسپتال کی طرف بھاگ گئی۔

صابر بھی آہستہ قدموں سے روانہ ہوا، اس نے ایک دکان پر لگے وال کلاک پر نظر ڈالی، عصر کی نماز میں ابھی کافی وقت تھا، صابر جانتا تھا کہ چوک سے مڑتے ہی ایک مسجد ہے جہاں روزہ داروں کی سہولت کیلئے سارا دن اے سی آن رکھا جاتا ہے، وہ کچھ دیر سستانے کی غرض سے مسجد میں جا کر دوسرے روزہ داروں کے ساتھ لیٹ گیا، شاید سارے دن کی تھکن کی وجہ سے جلد ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔

اذان کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی، اس نے وضو کر کے اسی مسجد میں نماز عصر ادا کی اور اپنی دکان کی طرف چل دیا، جیب خالی ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر بلا کا سکون اور اطمینان نظر آ رہا تھا۔ دکان پر کوئی اس کا منتظر تھا جس نے اسے دیکھتے ہی بے تکلّفانہ بولنا شروع کر دیا: ”او بھائی کہاں غائب ہو دکان کو لاوارث چھوڑ کر؟ تین گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں۔

“ ”آپ ---- کیا ہم پہلے کبھی مل چکے ہیں؟“ ” یہ بھی خوب رہی، یعنی آپ اس ناچیز کو بھول چکے ہیں۔“ ” جی معذرت چاہتا ہوں۔“ ”یاد کریں تین مہینے پہلے میں آپ سے کچھ سیمپل بنوا کر لے گیا تھا۔“ ”جی ہاں یاد آیا، شاید آپ کوئی نئی کاسمیٹکس لانج کرنا چاہتے تھے، اس کی پیکنگ اور پبلی سٹی سٹکرز کا کام کروانا چاہتے تھے۔“ ”شکر ہے آپ کو یاد آ گیا، بات یہ ہے کہ ہماری پراڈکٹ تیار ہے، اب ہم جلد از جلد مارکیٹ میں لانا چاہتے ہیں، آپ کے دیئے ہوئے سیمپلز کی ایم ڈی نے منظوری دے دی ہے، اب پہلی فرصت میں پیکنگ اور سٹیکر تیار کروا دیں۔

“ ”عید سر پر ہے، اب تو یہ کام عید کے بعد ہی ہو سکے گا۔“ ”عید کے بعد ہمارے پاس پندرہ دن کا وقت ہے، فکر نہ کرو، عید سے پہلے میرے آنے کا مقصد ہے کہ عید کے فوراً بعد ہمارا کام شروع ہو جائے۔“ ”ایک اور بات---- ”کہ آپ کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ آپ ایڈوانس لئے بغیر کام کر سکیں، یہ بات آپ نے پہلی ملاقات میں ہی بتا دی تھی اس لئے میں پوری تیاری کے ساتھ آیا ہوں۔

“ اس کے بعد اس نے مختلف سائز کی ڈبیوں اور سٹیکرز کا آرڈر لکھوا کر پچاس ہزار ایڈوانس دیئے اور گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر چلا گیا۔ صابر کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے، وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک لاچار عورت کی مدد کرنے کا صلہ اسے اتنی جلدی اور اتنا بڑا ملے گا کہ اس کی ساری مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔ اسے سب سے بڑھ کر خوشی اس بات کی تھی کہ وہ نا صرف بیٹی کیلئے اچھی افطاری خریدے گا بلکہ عید کیلئے اچھے کپڑے بھی خرید سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Allah se tijarat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.