ضمنی الیکشن ، آئندہ سیاسی نقشے میں رنگ بھرے گا!

جمیعت اہل حدیث یا عوام کی جماعت ملی مسلم لیگی قیادت کی سیاسی دانش کا امتحان شریف فیملی مخالف ووٹوں کی اکثریت یاسمین راشد کی جھولی میں گرے گی

ہفتہ 16 ستمبر 2017

Zimni Election Aainda Siyasi naqshay Me Rang
اسرار بخاری:
دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانی ملک کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں ۔ این اے 120 کے ضمنی الیکشن کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا مسلسل اس سوال کا سامنا ہے ویسے تو اندرون ملک بھی تمام نظریں اس الیکشن پر لگی ہیں اس الیکشن کی ایک خصوصی اہمیت یہ ہے کہ اس میں جمعیت علماء اسلام (ف) پارلیمانی پوزیشن کے حوالے سے سوا تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں (ن)لیگ وفاق، پنجاب ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں برسر اقتدار ہے پیپلز پارٹی سندھ میں اورتحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے۔

ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس ضمنی الیکشن سے ملک کے آئندہ سیاسی نقشے کے خدوخال تشکیل پائیں گے۔ جماعت اسلامی اگرچہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے لیکن اس حلقے میں مدمقابل ہے انتخابی نتائج سے اندازہ لگایا جاسکے گا کہ یہ اتحاد برقرار رہتا تو کس کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر کی کامیابی کے بظاہر کوئی امکانات نہیں ہیں البتہ(ن)لیگ پی ٹی آئی کے ووٹ ضرور خراب کئے جاسکتے ہیں۔

البتہ فیصل میر کو ان لوگوں کے ووٹ ضرور ملیں گے جو پیپلزپارٹی کے سوا کسی دوسری جماعت کو ووٹ دینے کا سوچ ہی نہیں سکتے اس الیکشن میں نئی انٹری ملی مسلم لیگ کی ہوئی ہے یہ کیونکہ ابھی الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ نہیں ہ اس لئے شیخ یعقوب اس کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں اسے جماعتہ الدعوة کا سیاسی روپ بھی کہا جاسکتا ہے اور اس جماعت سے اپنی اس شناخت لو چھپایا نہیں ہے شیخ یعقوب کے ہر فلیکس ، ہینگر پوسٹر،بینرز اور اشتہار پر ان کے ساتھ محترم حافظ سعید کی تصویر بھی ہے دلی ہمدردی کے باوجود اس امیدوار کی کامیابی کے امکانات نظر نہیں آرہے شیخ یعقوب کا اول تو اس حلقے بلکہ شہر سے بھی تعلق نظر نہیں ہے دستیاب معلومات کے مطابق ان کا تعلق غالباََ حمید پور شرقیہ سے دفاع پاکستان کونسل میں ان کٰ خدمات ضرور ہیں مگر یہ خدمات عوامی سطح پر معروف نہیں ہیں یہ امیدوار کو فائدہ ہو یا نہ ہو ملی مسلم لیگ کو یہ فائدہ ضرور ہوگا جماعت کی تشکیل کے فوراَ َ بعد اسے ایسے الیکشن کی صورت میں جس پر پورے ملک نہیں بیرونی دنیا کی بھی نظریں ہیں خود کو عوامی سطح پر متعارف کرانے کا بہترین موقع مل گیاہے۔

ملی مسلم لیگ ملک گیر سطح پر اپنے وجود کا احساس دلا سکتی ہے۔ کیونکہ اسے جماعتہ الدعوة کے وابستگان کی صورت میں بہت معظم اور متحرک کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ کی خدمات حاصل ہیں۔ اس کے رہنماؤں کو تنظیمی ڈھانچہ معظم کرنے اور سرگرمیوں کو تیزی سے وسعت دینے کا تجربہ بھی دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں ہمسر ضرور ہے اس حوالے سے کم از کم سب سے بڑی (ن )لیگ سمیت کوئی دوسری ملم لیگ اس کا مقابہ نہیں کرسکے گی۔

ملی مسلم لیگ کا ووٹ بینک فی الحال ایک خاص طبقے تک ہی محدود ہے ہے اس لئے ملی مسلم لیگ کی قیادت سیاسی اہلیت کا کڑا امتحان بھی ہے وہ اسے اہلحدیثوں کی پارٹی کی بجائے ملک گیر سطح پر عوامی پارٹی بنانے کے سلسلے میں کتنی کامیابی حاصل کریں گے اور اس کی مذہبی سیاسی جماعت کی بجائے محض سیاسی جماعت کی حیثیت منوانے کیلئے کس سیاسی دانش کا مظاہرہ کریں گے۔

ایک عام تاثر یہ ہے کہ اس حلقے میں اصل مقابلہ (ن)لیگ اور تحریک انصاف میں ہے تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد اچھی امیدوار اس لئے ہیں کہ وہ 2013ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف کے 91 ہزار ووٹوں کے مقابلے میں 52 ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرچکی ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ تب عمران خان کا جادو جس طرح سر چڑھ کر بول رہا تھا اب اس کی گھن گھرج میں کمی آئی ہے ۔

قرطبہ چوک پر انتظامیہ سے بضد ہوکر ہونے والا جلسہ حاضری کے اعتبار سے قابل ذکر نہیں رہا ۔ اندرونی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے لیڈر ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ مثلاََ بعض کا موقف ہے لاہور کے صدر کی حیثیت سے لوگوں کو لانا ولید اقبال کی ذمہ داری تھی، بعض ارکان اسمبلی کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں وہ جلوسوں کی شکل میں آنے کی بجائے خود گاڑیاں میں بیٹھ کر آگئے جبکہ کچھ کی انگلیاں اس حوالے سے ڈاکٹر یاسمین راشد پراٹھ رہی ہیں کہ امیدوار کی حیثیت سے جلسہ کو بھرنا ان کا فرض تھا بہرحال اس صورتحال سے عمران خان کو خاصا کبیدہ خاطر کیا ہے اور انہوں نے مقامی لیڈروں کی سرزنش بھی کی ہے۔

اس حلقے میں زیادہ ووٹ کشمیری شناخت رکھنے والوں کی ہے اس کے بعد ککے زئی اور آرائیں بھی خاصی تعداد میں ہیں دوسر ی برادری سے ہے وہ بھی ککے زئی شناخت رکھتی ہیں یا نہیں یہ کنفرم نہیں ہے کیونکہ ان کاآبائی تعلق چکوال سے ہے۔ وہ گائنی کی مشہور ڈاکٹر ہیں اور معائنہ فیس تین ہزار روپے ہے ان کا اپنا کلینک شادمان جیسے امیروں کے علاقے میں ہے این اے 120 کے لوگوں کی بڑی اکثریت اتنی فیس کی متحمل نہیں ہو سکتی جو ان کے پیشہ ورانہ فیض سے محروم ہی رہیں گے لیکن یہ قابل اعتراض بات نہیں ہے ہر ڈاکٹر کی اس کی شہرت اور قابلیت کے مطابق فیس ہوتی ہے ان کے مرحوم سسر ملک غلام نبی معروف سیاستدان بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کی پنجاب حکومت میں وزیر تعلیم تھے صوبائی وزیر صحت افتخار اتاری نے ایک خاتون ٹیچر کے تبادلے کی سفارش کی تو ملک غلام نبی جو خاص جملہ بازی کی شہرت رکھتے تھے ایسا جملہ کہا جو ضبط تحریر میں نہیں لایا جاسکتا اس موقع پر راقم الحروف اور سینئر رپورٹر امتیاز راشد بھی موجود تھے تاہم ڈاکٹر یاسمین راشد صاف ستھری شہرت رکھتی ہیں اور عام خیال یہی ہے کہ ان کا اصل مقابلہ بیگم کلثوم نواز سے ہوگا اور انہیں شریف فیملی کو کسی صورت ووٹ نہ دینے والوں کی حمایت حاصل ہوگی۔

این اے 120 میں بیگم کلثوم نواز کی جیت کے امکانات کی بنیاد تین وجوہ کو بنایا جارہاہے اول اس حلقے میں (ن)لیگ کا ووٹ بنک زیادہ ہے کشمیری برادری کی اکثریت ان کی دل جان سے حامی ہے دوئم اس کے دونوں صوبائی حلقوں کے ایم پی اے (ن)لیگ کے بلال یاسین اور ماجد ظہور ہیں۔ بلال یاسین سے قدرے عدم توجہ ہی کی شکایات ہیں لیکن ماجد ظہور نے اپنے حلقے میں بہت کام کرائے ہیں البتہ اب بلال یاسین بھی متحرک ہوئے ہیں ان کی زیادہ توجہ مارکیٹوں وغیرہ میں چھایوں پرہی ہے۔

سوئم بیگم کلثوم نواز صاف ستھری شہرت رکھتی ہیں میاں نواز شریف کے کرکٹر مخالفین عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی ان پر انگشت نمائی نہیں کرسکتے ان کے کردار کے ایک روشن پہلو کا یہ راقم الحروف بھی عینی شاہد ہے۔ انسانی رویئے نجابت شرافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، شخصی عظمت وشکوہ کا پانکپن قول وفعل کی گل رنگ شاخوں پر بھوٹتا ہے کوئی خوشامد سے تعبیر کرے تو وہ آزاد ہے اپنے ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر میری رائے ہے بیگم کلثوم نواز نجابت میں گندھی شخصیت ہیں بعض لمحے بہت یادگار ہوتے ہیں جن میں جنم لینے والا کوئی واقعہ کسی شخصیت کی بلندی کردار یا پھکڑپن کی دلیل بن جاتا ہے۔

” میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا“ کے مصداق چار اہ بعد پہلے کالم کی اشاعت جہاں دوستوں کی جانب سے خیر سگالی کے جذبات کے لفظی گلدستے ملے وہاں گویا جوابدہی کا کٹہرا بھی کھل گیا ہے ملک اور زیادہ تر ملک سے باہر دوستوں سے سوال کی صورت گرفت کی غالباََ پانچ چھ ماہ ہوتے ہیں ایک کالم ” مریم نواز (ن) لیگ کیلئے ترپکا پتہ“ کے عنوان سے لکھا تھا دوستوں نے اسے میرے اندازے کی غلطی قرار دیا ۔

ان کا اصرار ہے ترپ کا پتہ دراصل بیگم کلثوم نواز ہیں اس لئے انہیں انتخابی اکھاڑے میں اتارا گیا ہے۔ اطلاع ملی دوسرے صحافیوں کے ساتھ میں بھی بھاگم بھاگ وہاں پہنچا، ڈرائیونگ سیٹ پر فیصل آباد کے صفدر رحمن پچھلی نشست پر بیگم ثمینہ دولتانہ، مخدوم جاوید ہاشمی اور جاتی امرء کا ایک ملازم تھا۔ بیگم صاحبہ کو گاڑی سے نکالنے میں ناکامی پر سائنلسر میں کا غذ پھنسا کر انجن بند کردیا گیا اور گاڑی کا اسے سی بھی بند گیا لیکن سخت گرمی میں گاڑی کی گھٹن میں دس گھنٹے خود کو محبوس رکھ کر انہوں نے وقت کی قوتوں کو پیغام دیا کہ ان کے آہنی عزم کو شکست نہیں دی جا سکتی انہوں باور کروایا ناقبل تسخیر گاما پہلوان کی نواسی کو سیاسی اکھاڑے می ہزیمت سے دوچار نہیں کرایا جاسکتااور ان کی جرات و بہادری کا کرشمہ ہی تھا کہ مردوں کے ساتھ خواتین کارکن بھی دلیرانہ کردار کی نئی داستانیں رقم کررہی تھیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Zimni Election Aainda Siyasi naqshay Me Rang is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.