یقینی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی منصوبہ بندی

اگرچہ ابھی عام انتخابات کا طبل نہیں بجا لیکن اسمبلیاں تحلیل پونے سے دو ماہ قبل ہی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کے عمل میں تیزی آگئی ہے

جمعرات 12 اپریل 2018

yakeeni kamyabi ko nakami mein badalny ki mansoobah bandi
نواز رضا:
اگرچہ ابھی عام انتخابات کا طبل نہیں بجا لیکن اسمبلیاں تحلیل پونے سے دو ماہ قبل ہی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کے عمل میں تیزی آگئی ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد محمد نواز شریف صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف اور مریم نواز بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرکے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان کے مقابلے میں تحریک انصاف نے بھی ’’رکنیت سازی مہم ‘‘ شروع کر دی ہے وہ لاہورکے بعد راولپنڈی میں کارنر میٹنگز سے خطاب کر چکے ہیں لاہور کے بعد راولپنڈی میں بھی تحریک انصاف کوئی ’’متاثر کن ‘‘ شو نہیں کر سکی جس پر مسلم لیگ ن کے رہنما اور عمران خان کے سیاسی حریف محمد حنیف عباسی نے پھبتی کسی ہے کہ اگلے روز ایک ’’اجنبی‘‘ راولپنڈی کے دورے پر آیا تھا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان حنیف عباسی کو راولپنڈی کے حلقہ این اے 56 جو اب60بن گیا ہے سے شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، اور اس نشست پر اپنی رکنیت بھی برقرار رکھی تھی۔ جہاں محمد حنیف عباسی ان سے مقابلہ کے لئے تیار کھڑے ہیں ۔ لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے پچھلے پورے پانچ سال اپنے حلقے کا رخ نہیں کیا۔

اس لئے اب وہ اس حلقے سے تو انتخاب لڑنے سے رہے، وہ راولپنڈی میں نئے حلقے کی ’’تلاش‘‘ میں سرگرداں ہیں۔ وہ این اے 54 جو کہ اب این اے 61 بن گیا ہے، سے ملک ابرار کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے کے خواہاں ہیں جب کہ ملک ابرار اس حلقہ سے تین بار مسلسل رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں ۔ راولپنڈی کے ’’ناکام سیاسی جوتشی‘‘ نے این اے 60 اور 62 سے انتخاب لڑ کر پارلیمنٹ میں جانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

معلوم نہیں کہ ’’کپتان‘‘ شیخ رشید کو دو نشستوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ راولپنڈی جو مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے، چوہدری نثار علی خان واحد لیڈر ہیں جو گروپ بندی سے بالاتر ہو کرراولپنڈی کے تمام مسلم لیگی کارکنوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں لیکن جب سے پارٹی کے اندر کچھ عناصر نے راولپنڈی کے مسلم لیگی رہنمائوںکو ان سے دور کرنے کی کوشش کی ہے شہر میں پارٹی کی گرفت کمزور ہوئی ہے ۔

راولپنڈی میں چوہدری تنویر خان کا شمار ان لیڈروں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ مشکل وقت میں پارٹی قیادت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ وہ گذشتہ چار پانچ سال پارٹی میں غیر متحرک رہے لیکن کوئی لیڈر ان کا خلاء پورا نہ کر سکا۔ جب سے وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے ہیں، پارٹی میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے بیرسٹر دانیال چوہدری جو راولپنڈی کی سیاست میں نئی انٹری ہیں، نے مریم نواز کی میڈیا ٹیم میں دن رات کام کر کے اپنے لئے ملکی سیاست میں بھی گنجائش پیدا کر لی ہے۔

جب سے چوہدری تنویر خان کی چوہدری نثار علی خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، راولپنڈی میں مسلم لیگی دھڑوں میں بھی اضطراب اور بے چینی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ بات اب برملا کہی جانے لگی ہے کہ چوہدری نثار علی خان اور چوہدری تنویر خان مل کر راولپنڈی میں سیاست کے رخ کا تعین کریں گے۔ راولپنڈی میں گروپوں میں منقسم مسلم لیگ ن بظاہر اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی لیکن اس کا ووٹ بینک سرد و گرم موسم میں اپنی پارٹی کے ساتھ ہے۔

اگر راولپنڈی میں مسلم لیگ ن کے تمام رہنما مل بیٹھیں تو راولپنڈی سے مخالفین ان سے کوئی نشست نہیں چھین سکتے۔ تحریک انصاف نے بھی ’’الیکٹیبل‘‘ کی تلاش تیز تر کر دی ہے جبکہ کچھ’’ الیکٹیبل‘‘ کا بازو مروڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا راستہ دکھایا جا رہا ہے۔ ’’چرواہا‘‘ ٹھکانے بدلنے والی ’’بھیڑ بکریوں‘‘ کو ہانک کر انھیں ان کی نئی منزل تک پہنچا رہا ہے اور یہ کھیل سالہاسال سے کھیلا جا رہا ہے۔

عوام کی نبضوں پر ہاتھ رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار کا یہ کہنا ہے کہ اب کے جو نواز شریف کی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی تیز ہوا چلے گی وہ اپنے راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو خش و خاشاک کی طرح اڑا لے جائے گی۔ ڈرائننگ روم میں کی جانے والی منصوبہ بندی سیاست کے میدانوں میں شکست کھا جایا کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2002ء میں معلق پارلیمنٹ (Hung Parliamant ) بنانے والوں کے ہاتھ سے کھیل ایسا نکلا کہ انھیں میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزیر اعظم بنوانے ایک ووٹ کی اکثریت کیلئے پیپلز پارٹی میں نقب زنی کرنی پڑی۔

قرائن بتاتے ہیںکہ اب مسلم لیگ ن کی 2018 ء کے انتخابات میں یقینی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن’’ معلق پارلیمنٹ ‘‘بنانے والوں کے منصوبے دھرے کے دھرے بھی رہ سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف کو سیاست سے تائب کرنے کی بڑ ماری ہے۔

انھوں نے میاں نواز شریف کو چیلنج دیا ہے کہ وہ ان سے وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی چھین لیں گے جس پر میاں نواز شریف نے طنزاً کہا کہ ’’آصف علی زرداری بلند بانگ دعوے کرنے کی بجائے پہلے پنجاب میں تو پانچ سو سے زائد ووٹ حاصل کر کے دکھائیں ۔
یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ سیاسی جماعتوں کے اندر شروع توڑ پھوڑ کا عمل تیز تر ہو گیا ہے۔

سب سے زیادہ توڑ پھوڑ مسلم لیگ ن کے اندر ہو رہی ہے جس کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان اسمبلی نے بغاوت کر دی ہے۔ سرِ دست پانچ ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان پنجاب اسمبلی نے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام کے ون پوائنٹ ایجنڈا پر اپنا الگ گروپ بنا لیا ہے اور اس کا نام’’ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ رکھا ہے۔

یہ گروپ سینئر پارلیمنٹرین میر بلخ شیر مزاری کی چیئرمین شپ اور نوجوان پارلیمنٹرین خسرو بختیار کی صدارت میں کام کرے گا۔ اس گروپ میں مزید ارکان کا اضافہ ہو سکتا ہے تاہم یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی جماعتیں تبدیلی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہر انتخاب میں ان کی ترجیح ایک نئی جماعت ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن میں جو اچانک توڑ پھوڑ کے عمل میں شدت آ گئی ہے وہ خلاف توقع نہیں۔

پنجاب ملک کا بڑا صوبہ ہونے کے ناطے ’’پاور بیس‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو پارٹی پنجاب سے اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی ہے ، اس کے سر پر ملک کی حکمرانی کا تاج سج جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن پچھلے دو انتخابات میں پنجاب سے اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے لیکن مسلم لیگی قیادت کو اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود اس کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ پورے پاکستان میں گونجے گا اور مسلم لیگ ن کی اکثریت برقرار رہے گی۔

مختلف ارکان اسمبلی جو 2013 میں آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آئے تھے وہ اب ایک ایک کر کے مختلف حیلے بہانوں سے مسلم لیگ ن کو داغ مفارقت دے رہے ہیں۔ یہ ارکان اسمبلی ماضی میں بھی متعدد پارٹیاں تبدیل کر چکے ہیں کچھ ارکان نے تو پچھلے چار پانچ سا ل کے دوران پارٹیاں تبدیل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے لہذا ان کے لئے پارٹی تبدیل کرنا کوئی بڑا ’’سیاسی گناہ‘‘ نہیں۔

مسلم لیگ ن کی’’ شیرنی ‘‘مریم اورنگ زیب نے بجا طور پر ان کو ’’عادی لوٹے‘‘ قرار دیا ہے۔ ملکی سیاست کا المیہ ہے کہ اس میں اس طرح کے لوگوں کی بہتات ہے جو ’’غیر مرئی قوتوں‘‘ کا معمولی سا دبائو بھی برداشت نہیں کرتی اور نئے آستانے پر ماتھے ٹیکنے کے لئے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں کم و بیش دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل تھی جو اب ایک ایک کر کے ’’بوجوہ‘‘ کم ہو رہی ہے۔

ان میں ایک بڑی تعداد آزاد ارکان کی ہے جو اب دوبارہ اپنی آزاد حیثیت کو بحال کر رہی ہے۔دوسری طرف نیب بھی مسلم لیگ ن کے ’’خودسر‘‘ ارکان اسمبلی کو اپنی راہ پر لگانے کے لئے متحرک ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان اسمبلی تو نیب کے ایک ہی بلاوے پر ڈھیر ہو گئے ہیں جبکہ کچھ کا بازو مروڑنے کی سعی لاحاصل جاری ہے۔ ان میں تازہ ترین ٹارگٹ مسلم لیگ ن خیبرپختونخواہ کے صدر امیر مقام ہیں جنھیں کے پی کے میں مسلم لیگ ن کو زندہ کرنے کی پاداش میں اپنی آمدنی کے ذرائع بتانے کے لئے نیب نے طلب کر لیا ہے لیکن وہ پوری جرات کے ساتھ پارٹی قیادت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ’ پری پول ‘‘ دھاندلی نوٹس لیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر’’ پری پولنگ ‘‘ کا سلسہ بند نہ ہوا تو وہ ٓائندہ انتخابات کے نتائج قبول نہیں کریں انہوں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کے ساتھ جو ہوا وہی آئندہ انتخابات میں بھی ہونے جا رہا ہے ، یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو دبایا جائے اور کسی کو کھلی چھٹی دے دی جائے ، پارٹی صدر کے عہدے سے مجھے ہٹانے کے بعد کون سا فری اینڈ فیئر الیکشن ہونے جارہا ہے۔

میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی صدر کے عہدے سے مجھے ہٹانے کے بعد کون سا فری اینڈ فیئر الیکشن ہوگااور یہ سب کچھ اسی طرح ہوتا رہا تو فری اینڈ فیئر الیکشن کیسے ہوسکتے ہیں میاں نواز شریف نے اہم سوال اٹھایا ہے فری اینڈ فیئر الیکشن کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

yakeeni kamyabi ko nakami mein badalny ki mansoobah bandi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 April 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.