وزیراعظم سے استعفیٰ کی طلبگار اپوزیشن مایوسی کا شکار

3 اپریل 2016ء کو ”دی انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹس“ (آئی سی آئی جے) نے پانامہ پیپرز لیکس کے ذریعے دنیا بھر کی بہت سی شخصیات کے بارے میں انکشافات کئے تھے۔ پاکستان کی سیاست میں احتجاج کے بل بوتے پر وزیراعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے مطالبات کرنے والی ”اپوزیشن“ مسلسل ناکامیوں کے بعد جب مایوسی کا شکار ہو چکی تھی

ہفتہ 22 اپریل 2017

Wazir e Azam Se Astefa Ki Talabgar Opposition
فرخ سعید خواجہ:
3 اپریل 2016ء کو ”دی انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹس“ (آئی سی آئی جے) نے پانامہ پیپرز لیکس کے ذریعے دنیا بھر کی بہت سی شخصیات کے بارے میں انکشافات کئے تھے۔ پاکستان کی سیاست میں احتجاج کے بل بوتے پر وزیراعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے مطالبات کرنے والی ”اپوزیشن“ مسلسل ناکامیوں کے بعد جب مایوسی کا شکار ہو چکی تھی۔

اس دوران پانامہ لیکس نے اپوزیشن کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف آواز بلند کرنے کا ولولہ تازہ دے دیا۔ پانامہ لیکس میں وزیراعظم نواز شریف براہ راست ملوث نہیں پائے گئے تھے البتہ اْن کے بچوں کا نام اس میں آیا تھا۔ وزیراعظم اپنے بچوں کا نام لئے جانے پر جذباتی ہو گئے اور انہوں نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ پاکستان ٹیلی ویڑن پر قوم سے خطاب کر ڈالا۔

(جاری ہے)

جس میں نہ صرف اپنی اور اپنے بچوں کی صفائی دی بلکہ تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے پر آمادگی بھی ظاہر کر دی۔ ان کی اس پیشکش کا مثبت جواب دینے کی بجائے پی ٹی آئی اور ان کے حلیفوں نے وزیراعظم کے خلاف سیاسی دباوٴ بڑھانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر دیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جو 2014ء کے دھرنے میں بھی وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے آرہے تھے۔

اب 20 اپریل 2017ء کو پانامہ کیس کا سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے جب وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی استدعا کو مسترد کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے تو بھی عمران خان اخلاقی بنیادوں پر وزیراعظم نواز شریف سے وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے ہی کا مطالبہ دہرا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں پی ٹی آئی ہی کی طرح ہزیمت اٹھانے والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پچھلے برس یکم مئی کو وزیراعظم نواز شریف سے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تھا۔

اب 20 اپریل کو اْن کے والد آصف علی زرداری نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے میاں نواز شریف سے وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے ۔ گویا سیاسی میدان میں نواز شریف کو شکست دینے میں ناکام رہنے والے مسلسل یونہی اپنا غصہ اتار رہے ہیں ۔ جہاں تک وزیراعظم نواز شریف کا تعلق ہے انہوں نے پانامہ لیکس کا شور اٹھنے پر اس کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا تاہم سپریم کورٹ نے 13 مئی 2016ء کو انکوائری کمیشن بنانے کی حکومتی درخواست مسترد کر دی۔

جبکہ وزیراعظم نے 16 مئی کو پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران جائیداد کی تفصیلات بتاتے ہوئے واضح کر دیا کہ ان پر لگنے والے الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
پی ٹی آئی نے گزشتہ برس 29 جون کو وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی ریفرنس دائر کیا تھا۔ جس میں کہا گیا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا انہیں نااہل قرار دیا جائے۔

جبکہ اس کاروائی کو ادھورہ چھوڑ کر 29 اگست کو پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں بھی وزیراعظم کی نااہلی کے لئے درخواست دائر کر دی۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی ایسی ہی رٹ پٹیشن دائر کر چکے تھے۔ عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی نے بھی اس سلسلے میں آئینی پٹیشن دائر کیں۔ اس دوران تحریک انصاف کا دھرنا ٹو بھی ہوا جو ناکامی سے دوچار ہوا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں کیس کی سماعت جاری رہی اور ان کی ریٹائرمنٹ پر بنچ ٹوٹ گیا۔ یکم جنوری کو موجودہ چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کا نیا پانچ رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا جس کا سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کو مقرر کیا گیا۔کیس کی کارروائی مکمل ہونے پر بالآخر اس پانچ رکنی بنچ نے دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے فیصلہ سنادیا ہے۔

تین ججوں نے پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ دو ججوں نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کرنے کا اختلافی نوٹ لکھا ہے۔فیصلہ کا اعلان ہوتے ہی پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت پورے صوبے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور نہ صرف مسلم لیگی ممبران اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں و کارکنوں بلکہ حمایتیوں اور ووٹروں نے فیصلے پر خوشیاں منائیں۔

شکرانے کے نفل ادا کئے گئے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر پرویز ملک، جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر، چیف آرگنائزر سید توصیف شاہ، ڈپٹی میئر سواتی خان، میاں طارق، رانا اعجاز حفیظ سمیت یونین کونسلوں کے چیئرمین، وائس چیئرمین، کونسلر اور مسلم لیگی کارکن مٹھائی تقسیم کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔

لبرٹی چوک، پریس کلب کے سامنے اور بڑے بڑے چوراہوں پر نواز شریف کے حامیوں کی بڑی تعداد نواز شریف کے حق میں نعرے لگاتی رہی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے جن افراد نے من پسند فیصلے کی آس میں مٹھائی کے جو آرڈر دے رکھے تھے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے فی الوقت اپنے کارکنوں کو مایوسی سے نکالنے کے لیے فیصلے کو اپنی فتح قرار دیا ہے اور نا صرف خود مٹھائی کھا کر لطف اندوز ہوئے ہیں بلکہ کارکنوں کو بھی تلقین کی کہ وہ بھی مٹھائی کھائیں اور خوشیاں منائیں جس کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی سکھ کا سانس لیاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wazir e Azam Se Astefa Ki Talabgar Opposition is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 April 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.