وزیراعظم نوازشریف نااہل

آخر پانامہ پیپرز لیکس کیس کا فیصلہ آہی گیا،آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ یہ ایک خالصتاً سیاسی نوعیت کا کیس تھا جو سیاست دانوں کی ناقبت اندیشی کے باعث اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ تک آگیا۔ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ فیصلہ ملکی تاریخ پر اثر انداز ہوگا جبکہ فیصلہ کا اثر بین الاقوامی سطح تک جائے گا

پیر 31 جولائی 2017

Wazir-e-Azam Nawaz Sharif Na Ahal
محمد صلاح الدین خان:
آخر پانامہ پیپرز لیکس کیس کا فیصلہ آہی گیا،آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ یہ ایک خالصتاً سیاسی نوعیت کا کیس تھا جو سیاست دانوں کی ناقبت اندیشی کے باعث اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ تک آگیا۔ قانون دانوں کا کہنا ہے کہ فیصلہ ملکی تاریخ پر اثر انداز ہوگا جبکہ فیصلہ کا اثر بین الاقوامی سطح تک جائے گا، پانامہ فیصلہ ملک کی سیاسی و عدالتی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پانامہ کیس کا فیصلہ جاری کردیا ہے۔

پانامہ بنچ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تھا۔

(جاری ہے)

کیس کا فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے سنایا جسے بعدازاں جسٹس کھوسہ نے ری پروڈیوس کیا،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم کو عوامی عہدے کے لیئے نا اہل قرار دے دیا ہے جبکہ دیگر کے خلاف نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی گی ہے۔

پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا ہے بنچ نے قرار دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے کپیٹل ایف زیڈ ای ، جبل علی متحدہ عرب عمارات سے غیر موصول شدہ قابل وصول اثاثے اپنے 2013کے انتخابات میں کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیئے ہیں ، اس طرح مدعا علیہ نے روپا ایکٹ کی سکیشن 12(2f)کی خلاف ورزی کی ، عوامی نمائندہ ایکٹ 1976 کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے غلط معلومات ظاہر کیں اس طرح میاں نواز شریف روپا ایکٹ کی سیکشن 99f، اور آئین کے آرٹیکل 62,(1f)، کے تحت صادق اور امین نہیں رہے اسطرح انہیں ممبر پارلیمنٹ کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر میاں نواز شریف کی بحیثیت رکن پارلیمنٹ نااہل کرنے کا نوٹیفکتیشن جاری کریں اور اس کے فوری بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم کے منصب کے عہدے پر فائرنہیں رہیں گے فاضل بنچ نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے تمام ضروری اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔

بنچ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ درخواست کی ہے کہ وفاضل عدالت سے کسی جج صاحب کو نامز دکریں جو موجود ہ فیصلے پر عمل درآمد کی مانیٹرنگ کریں اور نیب اور احتساب عدالت میں کاروائی کی نگرانی بھی کریں۔فاضل بنچ نے حکم دیا ہے کہ محمد نواشریف ، مریم نواز ، حسن نواز ، حسین نواز ،محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ( فلیٹ نمبر-A 16-16A ,17-17) کے حوالے سے ریفرنس دائر کرے۔

اس ریفرنس کی تیاری کرتے ہوئے نیب پہلے سے کی جانے والی تفتیش سے ملنے والے مواد کو پیش نظر رکھے گا فاضل بنچ نے مزید حکم دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف ، حسین نواز ، اور حسن نواز کے خلاف عزیزیہ سٹیل کمپنی اور ہل میٹل کے حوالے سے بھی ریفر نس دائر کرے فاضل بنچ نے مزید حکم دیا ہے کہ نوازشریف ، حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف ان کی ملکیتی کمپنیاں کے حوالے سے ریفرنس دائر کریں گے جس کے بارے میں اتفاق رائے سے پیرا گراف نمبر نو میں جن کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کے حوالے سے ریفرنس دائر کیاجائے۔

فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں فریق نمبر 10( اسحاق ڈار )کے خلاف اپنے ذرائع سے زائد اثاثے رکھنے پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے نیب اس ساری کاروائی میں شیخ سعید،موسیٰ غنی کاشف مسعود قاضی جاوید کیانی اور سعید احمد اورکسی بھی دوسرے شخص جس کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق مدعا علیہم نمبرایک میاںمحمد نوازشریف مدعا علیم نمبر چھ مریم نواز اور مدعاعلیہم نمبر10 اسحاق ڈارکے آمدن سے زائد اثاثے اور فنڈز کے حصول میں مدد کرنے والے ان افراد یا ان کے علاوہ بھی کوئی ہوں تو نیب ان کے خلاف بھی کاروائی کرنے کا مجاذ ہے ، عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ نیب کو اگرکوئی اور اثاثہ نظر آتا ہے تو اس ضمن میں وہ مزید ضمنی ریفرنسز دائر کرسکتا ہے احتساب عدالت تمام ریفرنسسز پر فیصلہ ریفرنس دائر کیے جانے کے چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی پابند ہو گی اگر احتساب عدالت کوئی دستاویزبیان حلفی یا کوئی ڈیڈ جعلی پاتی ہے تو وہ قانون کے مطابق ذمہ دار فرد کے خلاف مناسب اقدام اٹھائے گی۔

فاضل بنچ کے پانچوں ججوں نے اتفاق رائے سے وزیر اعظم کو عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، وزیر اعظم کے بچوں حسین نواز ، مریم نواز ، حسن نواز اور اداما د کپٹن صفدر کے خلاف نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔25صفحات پر مشتمل فیصلہ میں سپریم کورٹ کے پانچوں ججز نے اپنے الگ الگ نوٹسز بھی تحریر کیئے ہیں۔

تین رکنی خصوصی بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان جو فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بنچ کے رکن بھی ہیں نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ 20اپریل 2017کے آئینی پٹیشن نمبر 29,30,2016, اور آئینی پٹیشن نمبر 3,2017کے ضمن میں دیئے گئے فیصلہ کا ہی ایک تسلسل ہے انہوں نے بیس اپریل کے حکم میں لکھے گئے بعض نکات کا حوالہ دیا جس کے تحت جے آئی ٹی بنائی گئی تھی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 10جولائی کو تین رکنی عمل درآمد بنچ کے آگے پیش کی تھی،جس کے بعد تمام فریقین کو عدالت کے روبرو سنا گیا ، جبکہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار نے تحفظات پر مبنی اپنی سی ایم اے بھی داخل کیں اور اس حوالے سے بھی بحث کی گئی،فاضل جج نے قرار دیا جو مواد جمع ہوا تھا اس سے بادی النظر میں نیب آرڈیننس کی سیکشن نمبر 9,10,15 کے تحت مدعا علہیم نمبر ایک چھ اور سات اور آٹھ کے خلاف فلیگ شپ انوسمنٹ لیمیٹیڈ ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگ ، کوئنٹ ایٹون پلیس ٹو، فلیگ شپ سیکیورٹیز وغیرہ جسے اثاثوں کے بارے میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

جہاں تک مدعا علیہ نمبر دس اسحاق ڈار کا تعلق ہے ان کے اثاثے بھی 9.11ملین سے 837.7 ملین روپے تک یعنی 91 فیصد اضافہ ہونے پر بھی مقدمہ چل سکتا ہے فاضل جج نے قرار دیا کہ جہاں تک جے آئی ٹی کے حدیبیہ پیپرز ملز جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کردیا تھاکے بارے میں حد سے باہر نکلنے کی دلیل کا تعلق ہے وہ درست معلوم نہیں ہوتی ، کیونکہ جے آئی ٹی نے اس سلسلے میں صرف شفارشات دی ہیں اگر نیب کا پراسیکیوٹر جنرل حدیبہ پیپرز ملز کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردے تو عدالت اور سٹپ کہنے کے معاملے کو بہتر انداز میں نمٹاسکتی ہے۔

پانامہ لیکس کا معاملہ بین الاقوامی صحافتی تنظیم انٹر نیشنل کنسوریشم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے اٹھایا دنیا بھر کے افراد کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے خفیہ دولت کے انکشافات میں اٹھایا تھا۔ 450 پاکستان نیوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم میاں نواز شریف ان بچوں کے نام آنے پر معاملہ اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ کمیشن پر سیاست دانوں کے اتفاق نہ کرنے پر معاملہ سپریم کورٹ تک پنچا تھا۔

سپریم کورٹ کے دیئے گئے 13 سوالات کی روشنی میں 60دن میں تحقیقات مکمل کرکے سپریم کورٹ میں 10جولائی کو رپورٹ پیش کی گئی تھی۔جے آئی ٹی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، حسن نواز ، حسین نواز، مریم نواز کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت ریفرنس بھیجنے کی سفارش کی ہے۔جے آئی ٹی نے اپنے تفصیلی تجزیہ میں مدعا علیہم میاں محمد نواز شریف ، حسین نواز شریف اور حسین نواز شریف، مریم نواز کے ظاہر کردہ اور معلوم زرائع آمدن اور ان چاروں کے پاس موجود دولت میں ایک واضح تفاوت کی نشاندہی کی ہے ، جے آئی ٹی نے اپنے آخز کردہ نتائج میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالامدعا علیہم کی پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ ان کے پاس موجود دولت کا ٹھوس جواز مہیا نہیں کرتا ، جے آئی ٹی نے قرا ر دیا ہے کہ مدعا لیہم نے جو دولت ڈیکلیئر کی ہے اور اس کے حصول کے جو زرائع بتائے گئے ہیں ان میں میں واضح تضاد موجود ہے عدالت اور جے آئی ٹی کے باربار استفسار کے باوجود شریف فیملی اپنے اثاثوں کی منی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہی ، دو ماہ کے دوران جے آئی ٹی کے 59اجلاس منعقد ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت ان کے اہل خانہ سمیت 23افراد سے تفیش کی گئی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ان کی تحقیقات کے دوران 28 افراد کو طلب کیا گیا جن میں طلبی کے باوجود 5گواہ حاضر نہیں ہوئے ان گواہوں میں عماد بن جاسم بن الجبار المشانی۔امریکی شہری شیخ سعید۔ اسحاق ڈار کی بیگم کے عزیز موسیٰ غنی۔ کاشف مسعود۔شیزی نیکول شامل ہیں۔جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد کیس کی مسلسل سماعت ہوئی جبکہ 21جولائی کو تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ، جواب پانچ رکنی بنچ کے سربراہ آصف سعید خان کھوسہ نے پڑھا اور جاری کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Wazir-e-Azam Nawaz Sharif Na Ahal is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 31 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.