وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف سازش!

سندھ کے پہلے پاپولر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف مخالفین اور وزارت اعلیٰ کے امیدواروں نے سازشوں کے جال بچھا دئیے اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں لیکن وہ خوفزدہ دکھائی نہیں دیتے بلکہ وہ پرعزم انداز میں مخالفین کو جواب دے رہے ہیں۔ نئے وزیراعلیٰ کیلئے جو نام آئے ہیں ان میں دم نہیں

جمعہ 16 جون 2017

Wazir e Ala Murad Ali Shah K Khilaf Sazish
شہزاد چغتائی:
سندھ کے پہلے پاپولر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف مخالفین اور وزارت اعلیٰ کے امیدواروں نے سازشوں کے جال بچھا دئیے اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں لیکن وہ خوفزدہ دکھائی نہیں دیتے بلکہ وہ پرعزم انداز میں مخالفین کو جواب دے رہے ہیں۔ نئے وزیراعلیٰ کیلئے جو نام آئے ہیں ان میں دم نہیں۔ سابق صدر بیرون ملک چلے گئے ہیں اور انہوں نے اپنے قیام میں توسیع کر دی ہے۔

فی الحال پیپلز پارٹی کوئی مہم جوئی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مراد علی شاہ کا یہ کریڈٹ ہے کہ وہ سندھ کے دیہات اور شہروں میں یکساں مقبول ہیں اندرون سندھ سے زیادہ شہروں میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔ ان کے والد عبداللہ شاہ کا تعلق دادو سے تھا لیکن مراد علی شاہ کراچی میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے اس طرح ان کا تعلق کراچی سے ہے وہ اندرون سندھ سے منتخب ہوتے لیکن کراچی کے نمائندہ ہیں وہ اربن کلچر کا حصہ ہیں‘ اس میں رچ بس گئے ہیں عروس البلاد سے دور نہیں رہ سکتے۔

(جاری ہے)

کراچی کا قرض بھی ادا کر رہے ہیں اور ترقیاتی کام کروا رہے ہیں اتوار کو انہوں نے 88 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی یونیورسٹی روڈ کا افتتاح کیا۔ایک روز پہلے انہوں نے سرکاری قافلہ روک کر سڑک پر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور چھکا بھی لگایا لیکن مخالفین کو ان کا انداز پسند نہیں آیا وہ اب مراد علی شاہ کی وکٹ کے پیچھے کیچ آؤٹ کرانا چاہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مراد علی شاہ کو چارج سنبھالے زیادہ دن نہیں گزرے لیکن وہ برق رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں سندھ کا سیاسی کلچر بھی تبدیل کر رہے ہیں اور اچھی حکمرانی کی جانب پیشرفت کر رہے ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ مراد علی شاہ کے خلاف پس پردہ کردار کیا چاہتے ہیں حالانکہ مراد علی شاہ ٹھیک کام کر رہے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سے کراچی کے شہری خوش ہیں وہ سندھ کے پہلے وزیراعلیٰ ہیں جن کو اربن علاقوں میں بھی پسند کیا جاتا ہے۔


کراچی کے صوبائی حلقہ 114 کی نشست مسلم لیگ کی تھی اس نشست پر 1988ء سے مسلم لیگ کامیاب ہوتی رہی ہے اس نشست سے سردار عبدالرحیم ہر بار منتخب ہوا کرتے تھے لیکن یہ اعزاز عرفان اللہ مروت نے چھین لیا وہ بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کو کیا سوجھی کہ انہوں نے بیٹھے بٹھائے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادیوں نے ان کو پارٹی میں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

عرفان مروت مسلم لیگ (ن) سے دوری پیدا ہونے پر اس نشست سے مستعفی ہو کر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن اب پیپلز پارٹی نے اس نشست پر سینیٹر سعید غنی کو ٹکٹ دیدیا ہے۔ عرفان مروت نے الزام لگایا تھا کہ سعید غنی کی نظریں پی ایس 114 پر ہیں اور انہوں نے آصف علی زرداری کی صاحبزادیوں کو میرے خلاف اکسایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عرفان مروت نے الزام لگایا کہ سینیٹر سعید غنی ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور ان کی عقابی نگاہیں پی ایس 114 کی نشست پر ہیں ۔

اب عرفان مروت نہ صرف منہ تکتے رہ گئے ہیں بلکہ مایوس وہ کر انہوں نے تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کر دی ہے۔ اس حلقے سے عرفان مروت کے ووٹوں کے باوجود ضمنی الیکشن میں امیدواروں کی بہت زیادہ تعداد ہے لیکن مقابلہ اوپن ہے۔تحریک انصاف فیورٹ بننے کی کوششیں کر رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کے کامران ٹیسوری بھی میدان میں ہیں۔ اس حلقے سے ایم کیو ایم کے امیدوار کئی بار کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔

جماعت اسلامی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کے امیدوار رؤف صدیقی نے الزام لگایا تھا کہ جماعت اسلامی کے امیدوار کے 9 ہزار ووٹ عرفان مروت کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے۔ آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابی اتحاد ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ سبقت حاصل ہے کہ وہ صوبے کی حکمران جماعت ہے عام طور پر ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت جیت جاتی ہے۔

سندھ میں اب تک جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ ایک بار مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر اسمٰعیل راہو جیت گئے تھے لیکن وہ بھی اب پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ ملیر کا ضمنی انتخاب بھی پیپلز پارٹی نے جیت کر اعلان کیا تھا کہ کراچی ہمارا ہے۔ یہ الیکشن 22 اگست کے بعد ہوا اب یہ دوسرا معرکہ ہے۔ پاک سرزمین پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی ایم کیو ایم تین دھڑوں میں بٹ گئی ہے‘ 31 امیدواروں نے کاغذات داخل کئے ہیں۔

ان 31 امیدواروں میں سے ایم کیو ایم لندن کا امیدوار بھی کسی وقت نمودار ہو سکتا ہے۔ حلقہ پی ایس 114 میں ضمنی انتخابات سے قبل حلقہ انتخاب پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے بینرز سے سج گیا لیکن اس کے ساتھ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔ پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کی جانب سے بینرز اور پوسٹرز اْتارنے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔


دریں اثناء بجٹ میں ناانصافی اور حقوق کیلئے سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی کے بعد میئر وسیم اختر بھی میدان میں آ گئے ہیں اور انہوں نے بجٹ میں میگا سٹی کیلئے فنڈز مختص نہ کرنے پر سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کیا۔ لیکن ان پر سندھ اسمبلی کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت کو اعصاب شکن صورتحال کا سامنا تھا۔

ایوان کے اندر اپوزیشن کے ارکان نعرے بازی کر رہے تھے اور باہر سندھ اسمبلی کے باہر بلدیاتی نمائندے شور مچا رہے تھے لیکن پیپلز پارٹی ٹس سے مس نہ ہوئی اورخاموش تماشائی بنی رہی۔ جبکہ ایم کیو ایم کے ارکان ایوان میں بیٹھے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میئر وسیم اختر اس لئے آگ بگولہ ہو رہے تھے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کے ایم سی کو 184 ترقیاتی اسکیمیں مختص کر دیں لیکن کراچی کو کچھ نہیں دیا۔

سارا جھگڑا فنڈز کا ہے صوبائی اور بلدیاتی حکمران فنڈز کیلئے لڑ رہے ہیں اور عروس البلاد کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے اس صورت حال میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار نے جب نثار کھوڑو کو کہا کہ وہ میئر کو طفل تسلیاں دے کر معاملہ نمٹائیں تو نثار کھوڑو ناراض ہو گئے جس کے بعد اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور نعرے بازی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی پر ایم کیو ایم کے احتجاج کے بعد وزیراعلیٰ سندھ وفاق کیلئے کراچی سے پیکج مانگ رہے ہیں کہ سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کو وفاق فنڈز دیئے جائیں۔

ایم کیو ایم نے سندھ کے بجٹ کا بائیکاٹ نہیں کیا اور کراچی کی بڑی سیاسی جماعت کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی جانب دکھائی دیا۔ لیکن دوسرے دن ہی اس سیاسی تعاون کا پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو جواب دیدیا اور سندھ اسمبلی میں ایک وکٹ گرا کر اقلیتی رکن عارف مسیح بھٹی کو پیپلز پارٹی میں شامل کر لیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو تحریک انصاف شکار کر رہی ہے‘ سندھ میں مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے ارکان پیپلز پارٹی میں جا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) پورے ملک میں تماشہ دیکھ رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wazir e Ala Murad Ali Shah K Khilaf Sazish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.