وفاق اور جماعت اسلامی کی ایک ساتھ پی ایس پی کی حمایت!

پاک سرزمین پارٹی کے ملین مارچ کو طاقت کے ذریعہ منتشر کرنے پر مصطفیٰ کمال اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ آمنے سامنے آگئے اور پیپلزپارٹی اورپاک سرزمین پارٹی کے درمیان نئی کشمکش شروع ہوگئی۔وزیراعلیٰ سندھ نے مصطفیٰ کمال کی جانب سے سخت زبان استعمال کرنے کاسخت نوٹس لیا اور یہاں تک کہ ڈالا کہ مصطفیٰ کمال بانی ایم کیو ایم ٹو نہ بنیں

جمعہ 19 مئی 2017

Wafaq Or Jamat e Islami Ki Aik Sath PSP Ki Himayat
شہزاد چغتائی:
پاک سرزمین پارٹی کے ملین مارچ کو طاقت کے ذریعہ منتشر کرنے پر مصطفیٰ کمال اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ آمنے سامنے آگئے اور پیپلزپارٹی اورپاک سرزمین پارٹی کے درمیان نئی کشمکش شروع ہوگئی۔وزیراعلیٰ سندھ نے مصطفیٰ کمال کی جانب سے سخت زبان استعمال کرنے کاسخت نوٹس لیا اور یہاں تک کہ ڈالا کہ مصطفیٰ کمال بانی ایم کیو ایم ٹو نہ بنیں۔

دونوں جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کے بعد مصطفیٰ کمال کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔منگل کا روز مصطفیٰ کمال کے لئے اچھا دن نہیں تھا۔ ایک جانب ان کے خلاف مقدمہ کا اندراج ہوا تو دوسری جانب کے ایم سی کی سٹی کونسل نے میئر کراچی کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر قرارداد منظور کرلی۔

(جاری ہے)

حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے اسٹیک ہولڈرز 2018ء کے انتخابات سے قبل الجھ پڑے ہیں ۔

پاک سرزمین پارٹی کا ملین مارچ کراچی پر کنٹرول کی جنگ میں تبدیل ہوگیا کیونکہ پی ایس پی دیگر جماعتوں کی طرح میگا سٹی کی سیاست میں ایک فریق بننے کی کوشش کر رہی ہے اور سابق صدر آصف علی ز رداری کی عقابی نگاہیں کراچی میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصطفیٰ کمال سڑکوں پر نکلے تو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا گیا اوران کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے چین فون کرکے وزیراعلیٰ سے منظوری لی گئی جس کے بعد بے تحاشا طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔

ریلی میں شریک خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی رعایت نہیں کی گئی۔ سیاست میں پیپلز پارٹی کے پیمانے مختلف ہیں۔ ایک پیمانہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو شان سے شاہراہ فیصل پر ریلی نکالتے ہیں تو پوری سڑک بندکردی جاتی ہے لیکن جب دوسری سیاسی جماعتیں شاہراہ پر احتجاج کرتی ہیں تو ان کی خوب ٹھکائی کی جاتی ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے کارکن پانی مانگنے نکلے تھے لیکن ان پر پانی کی توپیں چلادی گئیں اور نہلا دیا گیا اس دوران شاہراہ فیصل پانی میں ڈوب گئی۔

مصطفیٰ کمال نے پولیس افسروں سے کہا کہ ہم آپ کے بچوں کیلئے پانی مانگنے نکلے ہیں۔ آپ ہم پر آنسو گیس کے گولے کیوں برسا رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گو نواز گو تحریک کے دوران پیپلزپارٹی کئی دن تک ریلیاں اور جلوس نکالتی رہی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خود ٹاور سے مزار قائد تک جلوس کی قیادت کی تھی جو کہ ریڈ زون سے ہو کرآتا ہے۔

مسلم لیگ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے پاک سرزمین پارٹی کے ملین مارچ کو جمہوری حق قرار دیا اور پولیس تشدد کی مذمت کی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا حکومت سندھ کی جانب سے طاقت کے استعمال کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال سے قبل پیپلز پارٹی اور پی ایس پی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے تھے اور پی ایس پی نے ریڈ زون جانے پر اصرار کیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی نے پیش کش کی تھی کہ مصطفیٰ کمال 20 افراد کے ساتھ وزیراعلیٰ ہاؤس آکر یاداشت پیش کرسکتے ہیں مگر مصطفیٰ کمال نے اسے مستردکردیا۔

شاہراہ فیصل پر طاقت کا استعمال کرکے پیپلزپارٹی تنہا ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ گورنر سندھ محمد زبیر نے پولیس تشدد کی مذمت کی اور کہا کہ پولیس کم از کم خواتین اور بچوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے۔مصطفیٰ کمال کی گرفتاری سے قبل شاہراہ فیصل پر پولیس اورپاک سرزمین پارٹی کے کارکنوں میں جھڑپیں ہوئیں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کو گرفتار کرکے گینگ وار کے علاقے لیاری کے تھانہ کلاکوٹ پہنچا دیا گیا۔

پاک سرزمین پارٹی کے خلاف مقدمہ درج کرنے پر حکومت اور وفاق کے درمیان ٹھن گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا جبکہ وفاق نے مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کورہا کرنے اورمقدمہ درج نہ کرنے کا حکم دیا۔ جماعت اسلامی کھل کر پاک سرزمین پارٹی کی حمایت میں کھڑی ہوگئی۔ جماعت ا سلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے رات گئے پریس کانفرنس میں کراچی کے واقعات کی مذمت کی اور یاد دلایا کہ جماعت ا سلامی کے رہنماؤں کو بھی گرفتارکیا گیا تھا۔

انہوں نے حکومت سندھ سے کہا کہ وہ امتیاز ی سلوک سے گریز کرے۔پرتشدد کارروائی کے بعد پولیس نے رات گئے شاہراہ فیصل کو کلیئر کرالیا اور جگہ جگہ قائم کیمپوں کو گرادیا۔مصطفیٰ کمال نے کراچی کے حقوق کے لئے 18 روز تک پریس کلب پر دھرنا دیا تھا اور ا علان کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کوئی مقدس مقام نہیں‘ ہم جا کر احتجاج کریں گے لیکن حکومت نے ا ن کو ریڈ زون جانے کی اجازت نہیں دی۔

پولیس نے مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں کو رات کو چھوڑ دیا جن میں خواتین شامل تھیں۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ وہ کسی صورت 16 نکات سے دستبردار نہیں ہوں گے اور دوبارہ جدوجہد کریں گے۔ دریں اثناء مسلم لیگ (ن) بھی کراچی کے اہم اسٹیک ہولڈرز کے طورپر سامنے آگئی۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے آئند ہ عام انتخابات میں سندھ بالخصوص کراچی سے بہتر انتخابی نتائج کے حصول کے لیے شہر میں جاری وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکمران جماعت لیگ کی مقامی قیادت ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد شہر سے قومی اسمبلی کی 4سے 6قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کے لیے پر امید ہے۔(ن ) لیگ کے رہنماوں نے ایم کیو ایم کے فعال اور غیر فعال رہنماوں اور کارکنوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔اس ضمن میں آئند ہ چند روز میں شہر کی اہم سیاسی شخصیات مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کرسکتے ہیں جبکہ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے آئندہ دورہ کراچی میں ملک کے معاشی حب کے لیے مزید میگا پروجیکٹس کا اعلان کرسکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق 22اگست کو بانی متحدہ کے متنازع تقریر کے بعد کراچی کی سیاسی نقشہ یکسر تبدیل کردیا ہے۔ایم کیو ایم اس وقت عملاً چار گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس کے اثرات آئندہ عام انتخابات پر مرتب ہوں گے اوراس بات کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں اردو بولنے والوں کا ووٹ تقسیم ہونے سے دیگر سیاسی جماعتیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کراچی سے بہتر انتخابی نتائج کے حصول کے لیے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے اور اس کی قیادت پر امید ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں وہ شہر سے ایک بڑا سرپرائز دینے میں کامیاب رہے گی۔حکمران مسلم لیگ کی جانب سے اس وقت کراچی میں گرین لائن میٹرو بس منصوبہ اور پانی کی فراہمی کے ایک بڑے منصوبے K4 پر کام جاری ہے۔

کے 4وفاق اور سندھ حکومت کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے آئند ہ عام انتخابات سے قبل ان منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ ان منصوبوں کے لیے فنڈز کا اجرا بلاکسی رکاوٹ کے جاری رکھا جائے۔اس حوالے سے ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنے آئندہ دورہ کراچی میں شہر کے لیے مزید میگا پروجیکٹس کا بھی اعلان کرسکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کراچی کی قیادت اس وقت انتہائی فعال نظر آرہی ہے اور شہر بھر میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ،جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد شرکت کررہی ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے لیے حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت سمجھتی ہے کہ شہر میں اگر بھرپور طریقے سے سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھا جائے تو شہر میں قومی اسمبلی کی 4سے 6نشستوں پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد اس کے رہنما اور کارکن کشمکش کا شکار ہیں اور اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت نے ایم کیو ایم کے فعال اور غیر فعال رہنماوں اور کارکنوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔اس ضمن میں آئند ہ چند روز میں شہر کی اہم سیاسی شخصیات مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کرسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wafaq Or Jamat e Islami Ki Aik Sath PSP Ki Himayat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.