ویزا سکینڈل زرداری گروپ کے گرد گھیرا تنگ

ایبٹ آباد حملے کا سوال اٹھانے والے زرداری نے مضمون لکھ کر اگلے دن مبارکباد دی

بدھ 5 اپریل 2017

Visa Scandal Zardari Group K Gird Ghera Tang
اسرار بخاری :
امریکیوں کو ویزے دینے کے حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے جو انکشاف آمیز دھماکہ کیا تھا اس نے پیپلزپارٹی کی صفوں میں اوپر سے نیچے تک ہل چل مچادی تھی ۔ کل کے چہیتے حسین حقانی آج ملعون ہوچکے ہیں ۔ اس عمل کا سارا ملبہ اس وقت کے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر گرا ہے ۔

اس لئے ان کی جانب سے سخت ردعمل غیر فطری نہیں ہے ۔ آصف زرداری نے حسین حقانی کا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے حکومت کو آنکھیں دکھا دیں۔ حکومت کو اور وزراء کو دھمکی دے رہا ہوں ۔ اس کو دھمکی دے رہا ہوں جس کے بال نہیں خراب ہوتے ۔ ایسا نہ ہوسیف الرحمان کی طرح ان میں سے کسی کو میرے پیروں میں گرنا پڑے ۔

(جاری ہے)

چیئرمین نیب کی کیا حیثیت کیا مجال ہے کہ مجھ پر مقدمے بنائے ۔

انتخابی نتائج نہیں مانے مگر جمہوریت کی حمایت کی ۔ میں حلف نہ لیتا تو کوئی اور آجاتا‘ بلا آجاتا کہ تم لوگوں سے جمہوریت نہیں چلتی ۔ سیاسی شکار کرنے اسی پارلیمنٹ میں جائیں گے ۔ شیخ رشید نے میرے ساتھ کھانا کھایا تھا شاید نمک کم تھا۔ حقانی سے جو کام لینا تھا وہ واشنگٹن میں سفیر بنا کر لے لیا، اب حقانی خود کو انٹیلجپکوئل اور واشنگٹن کالابسٹ سمجھتے ہیں ۔

حسین حقانی سے ملاقات ہوئی نہ ملنا چاہتا ہوں۔ حقانی خود کو دانشور سمجھتے ہیں ، انکی اور ہماری سوچ مختلف ہے ۔ حقانی کی پاکستان مخالف باتوں سے متفق نہیں ۔ میں نہیں سمجھتا جس حقانی نے یہ کہا ہے نہ ہی اس کو ویزا دینے کااختیار تھا۔ حسین حقانی سے میری ملاقات نہیں ہوئی نہ ہوئی ہے ۔
حسین حقانی اور ہماری سوچ میں بہت بڑا فرق آچکا ہے ۔ کچھ لوگ بعد میں کچھ نہ کچھ روز گار ڈھونڈتے ہیں ۔

پارلیمنٹ اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کافیصلہ تھا رپورٹ کو عام کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ۔ ہمیں براک اوباما سے بڑی امیدیں تھیں لیکن وہ توقعات پر پورا نہیں اترے ۔ نیویارک کے سابق میئر اور کچھ دیگر شخصیات سے مل کر آیا ہوں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ میاں صاحب کی کیا پالیسی ہے ؟ ری پبلکن کی اپنی لابی اور سوچ ہے ‘ ہمیں ان سے بھی کام لینا ہے ۔

مجھے امریکہ میں انٹری نہیں چاہئے میں نے کوئی ایسا کام نہیں کرنا صرف امریکیوں کو سمجھانا ہے ۔ اوباما نے کبھی ڈسکس نہیں کیا آگے کیا ہوگا۔ قبل ازیں حسین حقانی نے امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ اپنے مضمون میں انکشاف کیا تھا ۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین نے کہا ہے کہ میں نے مضمون کسی کی توجہ حاصل کرنے کیلئے نہیں لکھا ، میرا مقصد قبرستان کے پاس گزرنا تھا گڑھے مردے اکھاڑنا نہیں ۔

میں نے یہ نہیں کہا ایبٹ آباد کا آپریشن غیر قانوی تھا ،اصل ایشو یہ ہے کہ کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں کیوں تھا ؟میں نے اپنے دور میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ ہی کسی کو غیر قانونی طور پر ویزہ دیا گیا ، سفیرویزے جاری نہیں کرتا بلکہ ویزے منسوک کرتا ہے ۔
امریکہ نے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے ہمیں اس لئے اعتماد میں نہیں لیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر پاکستان کو ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے بتایا گیا تو بعض ادارے خفیہ طور پر اسامہ بن لادن کو عندیہ نہ دے دیں کہ امریکہ اس کے خلاف کا رروائی کرنے والا ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی پاکستانی اداروں کے حوالے سے یہ رائے غلط تھی ۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے مجھ سے کوئی غلط بات نہیں کی ، سب میرے دوست اور پرانے ساتھ ہیں تاہم اگر کوئی میرے اوپر غداری کا مقدمہ درج کرانا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ کار پاکستان کے قانون میں لکھا ہوا ہے اس کے مطابق مقدمہ درج کرائے اور کارروائی شروع کرے ، ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہر آدمی راہ چلتے دوسرے پر کفر کافتوی لگادیتا ہے ہمارے ہاں دو فیکٹریاں “ بنی ہوئی ہیں ، ایک فیکٹری میں لوگوں کو غدار کہاجاتا ہے جبکہ دوسری ” ڈرائی کلیننگ “ فیکٹری ہے جہاں جو شخص بھی داخل ہوجاتا ہے پاک صاف ہوجاتا ہے ۔

خلاف سیاسی بیان دیئے جارہے ہیں ، میں عملی سیاست میں نہیں اس لئے جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا ، جب کوئی میرے خلاف مقدمہ بنائے گا پھر دیکھوں گا۔ ہمیں سیاسی بیان بازی سے باہر نکل کر اصل ایشو کی طرف آنا چاہئے ۔ اسامہ بن لادن کا پتا نہیں چلا تو سی آئی اے ایجنٹس کا بھی پتا نہیں چلے گا، اگر کوئی کمیشن بنا تو میں سارے ویزہ فارم اور سارے حقائق سامنے رکھ دوں گا، اسامہ بن لادن کی پاکستان موجودگی میرے کسی دیئے ہوئے ویزے کی وجہ سے نہیں تھی ، پاکستانی انٹیلی جنس کی نامی میرے کسی ویزے کی وجہ سے نہیں تھی اور نہ ہی میرے کسی دیئے ہوئے ویزے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کا سراغ لگا۔

کمشن کیلئے مجھے پاکستان آنے کی ضرورت نہیں ، منصور اعجاز نے بھی میمو گیٹ میں باہر بیٹھ کر گواہی دی تھی ، ابھی تو میں نے اور بھی مضمون لکھنے ہیں ، پانی میں مدھانی والے کس کمشن میں شریک نہیں ہوں گا ۔
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے 2010ء میں دفتر خارجہ کو لکھے گئے خط میں نہ کوئی بات نئی تھی اور نہ ہی غلطی تھی یہ خط آج میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے تاہم اس وقت اس خط کی جوگالی سیاسی بنیاد پر ہے اور یہ سیاسی مقاصد کیلئے کی جارہی ہے اور مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے ۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اگرچہ امریکیوں کو خصوصی ویزے جاری کرنے کے احکامات کا اعتراف کیا تاہم انہوں نے کہا یہ اجازت سفارت خانے کو دی گئی تھی سفیر کو نہیں دی گئی تھی یہ بہت دلچسپ منطق ہے کہ پولیس کو امن وامان کنٹرول کرنے کیلئے بعض اقدامات کی اجازت دی جائے مگر انسپکٹر جنرل پولیس کو اس اجازت سے محروم رکھا جائے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر تحقیقات کی جائیں ۔

امریکیوں کو ویزہ اجرا نہیں کیے ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والی امریکی فورسز ویزے لیکر نہیں آئیں اس وقت کے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو اختیارات دینے کا مطلب قواعد وضوابط کو ہائی پاس کرنا نہیں ان کے نام خط میں سفیر کی واضح کردیا گیا تھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سفارش پرویزا جاری کیا جائے خط میں کہیں نہیں لکھا کہ سفیر سفارتخانے کے اصول نظرانداز کردے تو ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سفیر طریقہ کار کو نظرانداز نہیں کرسکتا ۔

اس خط کامقصدتھا کہ اس کو ٹائم پرویزا دینا تھا کہ طریقہ کار کو بائی پاس کرنا تھا۔ میرے اندازے کے مطابق جوایشو بنایاجارہا ہے وہ بیس کروڑ عوام کی اصل معلومات سے محروم رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے توجہ ہٹانے کے لیے کیاجارہا ہے ۔
دنیا کے تمام دار الخلافوں میں سکیورٹی ایجنسیز کی نمائندگی لازمی ہوتی ہے ،ا مریکہ میں بھی دیگر سکیورٹی ایجنسیز کے لوگ موجود ہوتے ہیں ، میں نے بطور وزیراعظم کسی رول کی خلاف ورزی نہیں کی تھی ۔

سابق وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ 2002 سے 2017 تک جاری کردہ ویزوں کی تحقیقات کرائی جائیں ۔ ابھی حسین حقانی کا واٹس ایپ ملا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے ویزے سکیورٹی ایجنسیز کے لوگوں سے کلیئرنس لینے کے بعد جاری کئے ۔ سفیر ایمبیسی اور عملے کو نظرانداز کرکے ویزے نہیں دے سکتا ، امریکی سپیشل فورسز کو ویزے جاری کرنے کااختیار نہیں دیا تھا۔

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جاری کردی جائے تو کوئی ابہام باقی نہیں رہے گا۔ پاکستان میں روز ہی کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ، بلاوجہ ایشوبنایا جارہا ہے ، ایشو بنانے والوں کو پیپلزپارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا خوف ہے ۔ امریکیوں کو ویزوں کے اجراء کے حوالے تحقیقات کیلئے جو ڈیشل کمشن بنایاجائے ۔ کمشن رپورٹ بھی عام کی جائے ۔ دریں اثنامیچئر میں ایبٹ آباد کمشن جسٹس ریٹائرڈجاوید اقبال نے کہا ہے کہ حسین حقانی اب جوانکشاف کیا ہے وہ کمشن کے لئے حیران کن نہیں ہے ، جس میں تفصیل سے پاکستان کے سابق سفیر کی جانب سے ادا کیے گئے کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تفصیلات کا انکشاف کئے بغیر چیئرمین ایبٹ آباد کمشن نے بتایا کہ کمشن اچھی طرح آگاہ تھا کہ حقانی نے کیا کردار ادا کیا ہے اور 2مئی 2011 کے واقعے میں سہولت کار کے طور پر ان کے کیا اقدامات تھے ۔ جاوید اقبال نے کہا اگر انہوں نے پاکستان کمشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کی متعلقہ شقوں کے تحت حلف نہ اٹھایا ہوتا تو وہ حقیقت کا انکشاف کردیتے ۔

اپنے تازہ ترین مضمون میں جو حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا ہے ، حسین حقانی نے نہ صرف یہ اعتراف کیا انہوں نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے لئے سی آئی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے لئے سہولت کاری کاکام کیا تھا بلکہ انہوں نے پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کو بھی اس میں پھنسادیا ہے ۔ علاوہ ازیں امریکہ میں قید بے گناہی کا شکار ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ حسین حقانی یہ سچ بھی اگلہ دیں کہ عافیہ بے قصور ہے اور انہوں نے ہی امریکیوں کو خوش کرنے کی خاطر عافیہ کو جھوٹے مقدمے میں پھنسوایا ۔


حسین حقانی اور شکیل آفریدی غداروطن اور سخت سزا کے مستحق ہیں ۔ عام کا پیمانہ صبرلبریز ہورہا ہے ۔ عافیہ کی واپسی میں تاخیر سے اشتعال بڑھ گیا تو اسے ہم روک نہ سکیں گے ۔ چیف جسٹس سندھ ، سابق گورنر پنجاب اورسابق وزیراعظم کے مغوی بیٹے رہا ہوگئے ،عافیہ نہیں آئی ۔ وہ لاہور پریس کلب میں سیاسی وسماجی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کررہی تھیں ۔

حافظ محمد زبیر ، سعدیہ سہیل چوہدری محمد انور ، ڈاکٹر صبیحہ مشرقی ، عابد حمید خان میو، محمد خان مدنی ، عمران شہزاد، کالم نگارفاروق چوہان، بریگیڈیئر محمد یوسف ، چیئرمین عبدالحق اعوان نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ شکیل آفریدی کو بھی اگر ریمنڈ ڈیوس کی طرح ملک سے فرار کروادیا گیا اور عافیہ نہیں آئی تو حکمرانوں کی غداری کے خلاف عوام سڑکوں پر ہوں گے ۔

جمہوریت کی دعویدار حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کو بھلادیا۔ رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ قوم کی بیٹی کو واپس لایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ مزید تاخیر کی صورت میں عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئیں گے ، پوری قوم کے دل عافیہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ تمام رہنماؤں نے 31مارچ کو عافیہ کے اغوا کو 14 برس مکمل ہونے پر ملک بھر میں یوسم سیاہ منانے کی اپیل کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Visa Scandal Zardari Group K Gird Ghera Tang is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 April 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.