تینوں بڑی جماعتیں دھڑے بندی کا شکار

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادو ں پر ہو رہے ہیں اور جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کسی سیاسی جماعت حتیٰ کہ پاکستان کی بڑی اور عوامی پارٹیاں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے منشور کا حصہ نہیں

پیر 6 جولائی 2015

Teenoon Bari Jamatain Dhare Bandi Ka Shikar
احمدکمال نظامی:
پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادو ں پر ہو رہے ہیں اور جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کسی سیاسی جماعت حتیٰ کہ پاکستان کی بڑی اور عوامی پارٹیاں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے منشور کا حصہ نہیں بلکہ جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخاب کرانے کا کریڈٹ عدلیہ کو جاتا ہے اور عدلیہ کے فیصلہ کی روشنی میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو گا۔

یہ تجربہ کامیاب رہے گا یا نہیں اس کے بارے میں وقت ہی بتائے گا خصوصی طور پر پنجاب کے بارے میں خدشات ہیں ویسے تو بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی بلدیاتی اداروں کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور ان کی یہ روایت بڑی پختہ ہے جبکہ برصغیر پاک و ہند میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے بلکہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے بعد حکمران پارٹی بلدیاتی اداروں پر شب خون مارنے کی عادی ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت جو صورت حال ہے کہ درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی اور ڈنگ ٹپاوٴ قسم کا انداز حکومت ہے جس سے بصیرت، حکمت اور مستقبل بینی غائب ہے۔ روانا یہی ہے کہ ہمارے نظام میں عام شہری اور جمہور کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جمہور کو پہلی ترجیح بنائے بغیر جمہوریت مضبوط ہو سکتی ہے اور پہلی ترجیح خلوص نیت ہے۔

نمائشی ہتھکنڈوں سے نہیں اور جمہور کو پہلی ترجیح بنائے بغیر جمہوریت نہ مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی پھل پھول سکتی ہے۔ چونکہ جمہوریت کی پہلی ترجیح اور بنیادی اینٹ بلدیاتی ادارے ہیں جو ایک عرصہ سے بیوروکریسی کے آسیب کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور حکمران جمہوریت کے چیمپئن کہلانے کے باوجود زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کر رہے اس کے ساتھ ہی بلدیاتی سیاست اور عام سیاست میں بڑا نمایاں فرق ہے کہ بلدیاتی سیاست کے کھلاڑی اپنے علاقہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی تمام تر توجہ بلدیاتی مسائل پر ہوتی ہے اور عوام بھی بلاامتیاز سیاسی مذہبی وابستگی کے نمائندہ کا انتخاب کرتے ہیں لہٰذا عوام جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کو ذہنی طور پر قبول کرتے ہیں یا انگریز کے زمانہ سے بلدیاتی انتخابات کی جو روایت چلی آ رہی ہے اسی پر کاربند ہوتے ہیں اور ایک اہم اور بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب کرنے کے لئے میرٹ کیا مقرر کرتی ہے اور سیاسی جماعتیں جو پارلیمانی بورڈ تشکیل دیتی ہیں اس بورڈ کے ارکان میرٹ پر ٹکٹ جاری کرتے ہیں یا اپنے اپنے گروہوں میں ہی مٹھائی بانٹ دیتے ہیں۔

صوبہ خیبر پی کے بلدیاتی انتخابات کا جو تلخ تجربہ ہمارے سامنے آیا ہے اور انتخابات کے بعد جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ وہاں سیاسی پارٹیاں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ پنجاب میں گو مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اور مسلم لیگ(ن) حکومت کے بارے میں عوام کی غالب اکثریت کا مزاج باغیانہ ہے اور پھر کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں (ن) لیگ متحارب گروپوں میں تقسیم نہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں مار رہے۔

آٹھ بازاروں کے شہر فیصل آباد میں اس وقت سیاسی زاویہ نگاہ سے مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ہی عوام کی صفوں میں نظر آتی ہیں لیکن تینوں پارٹیوں کی لیڈرشپ بھی مختلف گروپوں اور گروہوں میں تقسیم ہے اور یہ متحارب گروپ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ان میں اتفاق، اتحاد، یکجہتی نام کو دکھائی نہیں دیتی۔ ہر کسی کی اپنی اپنی مسجد ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ تحریک انصاف میں آپس میں اختلافات ہیں لاہور پارٹی پانچ گروپوں میں تقسیم ہے۔ اس لئے آگے نہیں بڑھ رہی اور تحریک انصاف کی اس باہمی لڑائی کے نتیجہ میں مسلم لیگ(ن) نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تحریک انصاف لاہور میں ہی نہیں فیصل آباد میں بھی گروہی سیاست کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کے دونوں گروپ ایک دوسرے کے ساتھ ایک قدم بھی چلنے کو تیار نہیں ہیں۔

ڈاکٹر اسد معظم اور ممتاز علی چیمہ اپنی بانسری بجا رہے ہیں جبکہ رانا زاہد توصیف جو بلدیاتی سیاست کے ایک ماہر کا درجہ رکھتے ہیں وہ اپنا بینڈ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جڑوں میں راجہ ریاض احمد پانی بھر رہے ہیں اور اصل اور پیدائشی پپلیے راجہ ریاض احمد کے توڑ کی تلاش میں ہیں۔ پرانے جیالے اب متحرک ہو چکے ہیں۔ جبکہ فیصل آباد کی بلدیاتی سیاست میں اگر پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تو ان کا تعلق بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کے جیالوں سے تھا۔

بلدیاتی انتخابات چونکہ جماعتی بنیادوں پر ہونے ہیں لہٰذا مقابلہ مسلم لیگ اور تحریک انصاف اور کسی کسی جگہ پیپلزپارٹی کے نامزد امیدواروں کے درمیان ہی ہو گا لیکن بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی میدان میں اتریں گے اور ان آزاد امیدواروں کی پشت پر متحارب گروپوں کے مقامی لیڈروں کا ہاتھ ضرور ہو گا۔ اس وقت سب سے زیادہ انتشار مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں نظر آ رہا ہے۔

مسلم لیگ(ن) نے جو گیارہ پارلیمانی بورڈ بنائے ہوئے ہیں ان گیارہ بورڈ کے ارکان کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر چوہدری صفدرالرحمن تھے اور جنرل سیکرٹری میاں ممد فاروق ایم این اے کے صاحبزادے میاں قاسم فاروق تھے اب میاں محمد فاروق ایم این اے کو ضلعی صدر اور چک جھمرہ سے مسلم لیگ(ن) کے رکن پنجاب اسمبلی آزاد علی تبسم کو جنرل سیکرٹری نامزد کیا گیا ہے اور بعض حلقوں کے مطابق اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی بورڈ میں اختلافات موجود ہیں اور کوئی حلقہ ایسا نہیں ہے جس میں ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچ رہے۔

طلال چوہدری، عفت معراج اور حیدر کھرل کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ غرض کہ رانا محمد افضل خاں چوہدری عاصم نذیر، رجب علی بلوچ، میاں فاروق، میاں عبدالمنان، چوہدری عابدشیرعلی، رانا ثناء اللہ اور دیگر ایک دوسرے کے خلاف بندوقیں تانے ہیں اور سیاسی نکتہ نگاہ سے انتہائی خطرناک اور جماعتی ڈسپلن کی بدترین خلاف ورزی ہے کہ مسلم لیگ(ن) فیصل آمدا بلدیاتی انتخابات کو جماعتی رنگ دینے کی بجائے اپنی ذات کو جماعت کا درجہ دیتے ہیں اور اگر پارلیمانی بورڈ ان کے امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کرتی تو اپنی ہی جماعت کے امیدوار کے مقابلہ میں اپنا بندہ آزاد امیدوار کے طو رپر میدان میں اتارنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔

رانا ثناء اللہ خاں جو صوبائی وزیرقانون بھی ہیں وہ خود کو تمام ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی پر بھاری قرار دیتے ہیں جبکہ ان کی ذات بعض حوالوں سے متنازعہ ہے۔ رانا ثناء اللہ خاں کا پلڑا بھاری ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف ان کے قریب ہے بلکہ مسلم لیگ(ن) جس قدر پالیسیاں تشکیل دیتی ہے رانا ثناء اللہ اس کابینہ کے مرکز رکن ہونے کی بناء پر پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

حیران کن بات ہے کہ ہفتہ عشرہ کے دو ران تمام پارلیمانی بورڈ نے ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کرنا ہے لیکن ابھی تک امیدواروں کے میرٹ کا ہی فیصلہ نہیں ہو سکا کہ کس میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کرتا ہے۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) جن امیدواروں کو میدان میں اتارتی اور ان میں کتنے سابق یونین ناظم اور نائب ناظم ہوں کیونکہ بہت سے سابق ناظمین اور نائب ناظمین اپنے طور پر بھی انتخابی تیاری کر رہے ہیں اور ان کو نظرانداز کرنا بھی تینوں پارٹیوں کے لئے ایک مسئلہ پیدا ضرور کرے گا۔

اس کے ساتھ ہی عید کے بعد مسلم لیگ(ن) کا مخالف دھڑا بھی میدان میں اترنے کی تیاری کر رہا ہے گو اس دھڑا کی سرگرمیاں جنوبی پنجاب میں زیادہ دکھائی دیں گی جبکہ فیصل آباد میں بہت سے نئے چہرے بھی قسمت آزمائی کریں۔ ان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ چونکہ پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کے وہ ہمنوا جو تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سے وابستگی رکھنے والے افراد سے اپنے داتی اثرورسوخ سے اور محلہ برادری کے نام پر ووٹ حاصل کر لیتے تھے اس پر انہیں یقینی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن جمہوری نظام کے فروغ کے لئے جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات نیک شگون ہوں گے اور عوام میں ایک شور جنم لے گا کہ حکومت بلدیاتی ہو صوبائی ہو یا قومی ہو اس کی ترجیح عام انسان محروم شہری کو اس کا حق دینا ہے۔

نمائشی کارنامے نہیں اس لئے پارٹیوں کو ٹکٹ جاری کرتے وقت امیدوار کی صلاحیت کو سامنے رکھنا ہو گا اور دھڑابندی کی بجائے میرٹ پر پورے اترنے والوں کو ٹکٹ جاری کرنا ہوں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Teenoon Bari Jamatain Dhare Bandi Ka Shikar is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 July 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.