تاحیات نااہلی․․․․ کون بنائے گا نئی مسلم لیگ؟

ماڈل ٹاؤن سے شروع ہونے والی کہانی جاتی عمرہ میں ختم۔۔۔ ریفرنس دائر ہوتے ہی خلیجی ممالک مزید تعاون کیلئے تیار ہوجائیں گے

جمعرات 3 اگست 2017

Tahayat Na Ahli Kon Banaye Ga Nayi Muslim League
محمد انیس الرحمن:
میاں نواز شریف بحیثیت وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے بھی نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں۔ بلاشبہ آنے والے وقت میں اس معاملے کو پاکستانی سیاسی تاریخ کا ایک اہم موڑ شمار کیا جائے گا کیونکہ یہ مرحلہ ایک ایسی جماعت کے تحلیل ہونے کا نقطہ آغاز ہے جس کی ابتدا خاصی دھوم دھام سے چھتیس برس قبل جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لا کی چھتری تلے ہوئی تھی اور جس کی انتہا پہاڑ جیسی کرپشن بنی۔

اس طویل تری دور میں میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے لیکن انہیں پہلی مرتبہ ایک منتخب صدر نے حکومت سے نکالا دوسری مرتبہ ایک جنرل نے انہیں نہ صرف سیاست بلکہ ملک سے بھی دیس نکال دیا اور اب تیسری مرتبہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے کرپشن کے الزام میں انہیں ہمیشہ کے لئے سیاست سے نکال باہر کیا ہے۔

(جاری ہے)

اب نون لیگ والے یہ کہتے ہیں کہ نکالا بھی گیا تو صرف عرب امارات کے ایک اقامہ کی بنیاد پر جبکہ دیگر الزامات اس سے کہیں زیادہ بڑے تھے۔

یعنی وہ لندن کے فلیٹ،وہ منی لانڈرنگ، وہ معنی ٹریل کیا ہوئی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس حد تک نون لیگ والوں کی بات ٹھیک بھی ہے اسی لئے بہت سے حلقوں کو سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خاصا ”نرم “محسوس ہورہا ہے۔۔۔ لیکن آگے جو کہانی شروع ہونے جارہی ہے اس کی جانب کم ہی افراد غور کررہے ہیں۔ بہر حال نون لیگ والے فی الحال اس فیصلے کی بنیاد پر لوگوں کو یہ کہہ کر سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ باقی الزامات میں سے کچھ نکلا ہی نہیں جس کی خاطر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی اسی لئے دبئی کے اقامہ کو بنیاد بناکر میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا گیا ہے۔

میں اس بات کو اس طرح سمجھ رہا ہوں کہ فیصلے کے لئے جس چیز کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ بھلے ”نرم فیصلے“کی بنیاد بنا ہو لیکن معزز عدلیہ نے باقی شواہد کو ریفرنس کے لئے چھوڑ دیاہے یعنی اصل پنڈورہ بکس ڈبہ نمبر دس کے ساتھ اس وقت کھلے گا جب ریفرنس دائر ہونا شروع ہوں گے۔ یا تو شریف خاندان کو اس معاملے کی سنگین نوعیت کا اندازہ نہیں ہے یا پھر وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینا چاہتے ہوں کہ شاید یہ بلا خود بخود ٹل جائے لیکن ایسا ہونے نہیں جا رہا ۔

اب انصاف کی تلوار کا ٹالا نہیں جاسکے گا کیونکہ اسی میں آئندہ آنے والے پاکستان کی بقا ہے۔ یہ تلوار صرف اسی ایک خاندان کے لئے ہے بلکہ بلا تفریق یہ دیگر سیاسی جماعتوں اور ان سے متعلق ارکان کی کرپشن پر چلے گی نہ صرف ان پر بلکہ اس کرپٹ سیاسی مافیا کے معاونین بیوروکریٹس کا بھی حساب کرے گی۔ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد حدیبیہ پیپر ملز کا سکینڈل بھی کھولا جائے گا جو شریف خاندان میں شاید کسی کو بھی آئندہ سیاست کے قابل نہ چھوڑے۔

اس کے بعد معاشی دہشت گردی کے خلاف یہ آپریشن ایک مرتبہ پھر سندھ کا رخ کرنے والا ہے اور وہیں سے اس کا سلسلہ شروع کیا جائے گا جہاں سے جزوقتی طور پر اسے روکا گیا تھا ۔ ہم پہلے بھی اس جانب اشارہ دے چکے ہیں کہ آنے والے وقت میں بے نظیر قتل کیس بھی دوبارہ کھول دیا جائے گا کیونکہ ڈاکٹر عاصم حسین اور عزیر بلوچ کے خوفناک انکشافات کی روشنی میں بہت سے حقائق قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ لگ چکے ہیں یہی غالباََ وہ خوف ہے جس نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو ملک سے باہر منتقل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

لیکن اب دنیا کی صورتحال جس تیزی سے بدل رہی ہے اس میں کوئی بھی مطلوب شخص دنیا کے کسی کونے میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں پائے گا۔ پاکستان کو مالی کرپشن کے ذریعے عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے رہن رکھنے کی کوشش کرنے والے احتساب سے نہیں بچ سکیں گے۔ اپنی نا اہلی کے دوسرے روز میاں نواز شریف نے نون لیگ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اقامہ سے متعلق جو کہانی سنائی ہے وہ اتنی سادہ نہیں ہے۔

جن افراد نے یورپ کا سفر کیا ہو اور فرانس، ہالینڈ سے لیکر سوئٹزرلینڈ تک کے بینک دیکھے ہو ں تووہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہاں دولت جمع کرانے والے کن طریقوں سے اپنے ملکوں کا لوٹا ہوا مال ان بینکوں میں جمع کراتے ہیں۔ یہاں کوئی براہ راست اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتا بلکہ اس کے لئے وہاں موجود بروکر کمپنیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان بینکوں سے براہ راست ذیل کرتی ہیں۔

مثلاََ جس شخص کے پاس عرب امارات کے کسی شہر کا نوکری یا کاروباری شراکت داری کی بنیاد پر کوئی اقامہ ہوگا تو اس اقامہ کو یورپ کے ان بینکوں میں اس طرح استعمال کرے گا کہ پہلے بروکر کمپنی کے ساتھ معاملات طے کئے جائیں گے کہ وہ شخص پاکستانی ہے اور کسی خلیجی ملک کا اقامہ پر درج رہائش بتا کر اپنے آپ کو وہاں کا رہائشی قرار دلوائے گا اس کے بعد یہ بروکر کمپنی اس شخص کو اندراج کرے گی اس کے بعد متعلقہ بینک میں اکاؤنٹ کھول دے گی۔

بینک نہیں جانتا کے بروکر کے پیچھے کون اورکس ملک کی شخصیت ہے بلکہ وہ اکاؤنٹ بروکر کے نام کا کھولے گی اس طرح دولت کی پہچان کے حوالے سے کئی پردے پڑجائیں گے۔ مغرب کے مالیاتی سیسہ گر اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ تیسری دنیا سے لوٹ کر لائی جانے والی دولت کوکوئی بھی اپنی اصل شناخت کے ساتھ محفوظ کرنا نہیں چاہیے گااسی لئے وہاں بروکر کمپنیوں کا دھندہ شروع کروایا گیا تھا تاکہ اس سرمائے سے آسانی کے ساتھ مغربی مالیاتی کمپنیاں استفادہ کرسکیں اور لوٹنے والے کو بھی شناخت کے افشا ہوجانے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔

اس حوالے سے آج کل برطانیہ اور ہالینڈ ان مالیاتی مافیا کی جنت بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جن یورپی ملکوں نے کالے دھن کو سفید کرنے کی پہلی شرط رکھی ہوئی ہے اس کے لئے سری لنکا ، مالدیپ، سینگاپور اور ہانگ کانگ جیسے ملکوں کے جوئے خانے جنہیں عرف عام میں کیسینو کہا جاتا ہے وہ کام میں لائے جاتے ہیں جہاں سے اس دھن کو ”فلٹر“ کرنے کے بعد اسے جوئے میں جیتی ہوئی رقم قراردے کر ان یورپی ملکوں کے بینکوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

پاکستان میں جن سیاسی افراد کے اقامے منظر عام پر آئے ہیں ان کے اصل استعمال کا پتا کچھ عرصے بعد چلے گا۔۔ نااہلی کے دوسرے روز میاں صاحب نے جس کی تقریر کی ہے اس میں ایک طرف انہوں نے سابق وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کو پینتالیس دن کے لئے عبوری وزیراعظم مقرر کرنے کا اعلان کیا اس کے بعد قومی اسمبلی کی سیٹ پر کامیابی کے بعد شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اور وہ پہلے نظریاتی نہیں تھے بلکہ اب نظریاتی ہوچکے ہیں۔

۔۔ یاللعجب ۔ شاہد خاقان عباسی کو کیوں عبوری وزیراعظم بنایا گیا؟ اور میاں شہباز شریف کو بعد میں وزیراعظم بنانے کا کیوں اعلان کیا گیا ؟اور وہ وزیراعظم بنتے بھی ہیں یا نہیں اس بات پر بعد میں آتے ہیں۔ پہلے تو اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ میاں نواز شریف کو اپنی نااہلی کے دوسرے روز ہی پاکستان کی خدمت کا خیال کیسے آگیا اور اب وہ نظریاتی ہیں تو پہلے کیاتھے؟ جہاں تک ان کی خدمات کا تعلق ہے تو کوئی پاکستانی اس بات کو کیسے بھول سکتا ہے کہ پاکستان کے وجود کا بدترین دشمن بھارت او ر اس کا بدترین متعصب وزیراعظم اور گجرات سمیت ہندوستان بھر مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا نریندر مودی لاہور میں ان کے گھرمیں ان کا ذاتی مہمان بنا تھا، اسی پاکستان کے دشمن بھارت کے اندران کے کاروباری مفادات پنپ رہے ہیں، پاکستان کے وجود کو دہشت گردی کے ذریعے زخم لگانے والا بھارتی را کا ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو جو رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے اس کی مذمت میں ایک لفظ بھی میاں نواز شریف کہ منہ سے نہیں نکلتا۔

افغانستان کے راستے بھارت نے پاکستان کے اندر وجود ہشت گردی کا بازارگرم کر رکھا ہے جس میں ہزاروں پاکستانی شہری اور سکیورٹی کے ارکان شہید ہوچکے ہیں اس جانب میاں نواز شریف نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔۔۔۔ کیا یہ پاکستان کی ”خدمت“ تھی؟ تیسری مرتبہ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنے گرد ایسے افراد جمع کیے جو اعلانیہ نظریہ پاکستان کی نفی کرتے تھے اور بھارت کے گن گاتے تھے اوراپنے سکیورٹی اداروں کو انتہا پسندی کا سبب گردانتے تھے، صرف اس لئے کہ دہلی اور واشنگٹن کو اپنی وفاداری کا یقین دلاسکیں کیا یہ پاکستان کی خدمت تھی؟ کشمیر جسے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ نے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا بھارت نے وہاں ان کے دور اقتدار میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے لیکن میاں نواز شریف کہ منہ سے مذمت کا ایک لفظ نہیں نکلا یہ پاکستان کی خدمت تھی؟ پاکستانی کو بنجر بنانے کے لئے نون لیگ کی حکومت کی ناک تلے بھارت آبی دہشت گردی کا کھلم کھلا مرتکب ہوتا رہا لیکن اس کے سدباب کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، کیایہ پاکستان کی خدمت تھی؟ اپنے بعد جس شخص شاہد خاقان عباسی کو انہوں نے وزیراعظم نامزد کیا ہے یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے کئی گنا سستے ایل این جی گیس کے سودے کو انتہائی مہنگے داموں تقریباََ دوسو ملین ڈالر میں قطر سے کیا ہے۔

کیا یہ پاکستان کی خدمت تھی؟ کس نے اس سودے میں لمبے کمیشن کھائے ہیں۔ اس کا کچا چٹھا بھی جلد سامنے آنے والا ہے، کیونکہ ذرائع اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ کچھ اہم خلیجی ممالک پاکستان میں ہونے والی مالیاتی کرپشن کے حوالے سے تحقیق میں پوری طرح مدد کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنی پریس کانفرنس میں کہاتھا کہ یمن کے معاملے میں بہت سے عرب دوست ملک تعاون نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے نون لیگ کی حکومت سے ناراض ہیں۔

۔ یہ انہوں نے اسی طرح کی بات کی ہے جیسے جب شریف خاندان کو پتا چلا کہ پانامہ لیکس کا شور پاکستان میں جیسے جب شریف خاندان کو پتا چلا کہ پاناما لیکس کا شو ر پاکستان میں پڑنے والا ہے تو انہوں نے حسین نواز سے ایک پاکستانی چینل پر انٹر ویو چلوادیا تھا جس میں ”الحمداللہ یہ ہماری کمپنیاں ہیں“والا بیان دلوادیا گیا تھا لیکن بعد میں یہی بیان میاں نواز شریف کی عدالتی نااہلی کا پہلا سبب بن گیا تھا ان خلیجی ممالک کی ناراضگی کا کہہ کر پہلے سے قوم کے دماغ کو اس بات کے لئے تیار کیا جارہا ہے کہ اگر مزید انکشافات ہوئے تو اسے ”خلیجی ممالک کی ناراضگی سمجھا جائے“۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کا اس بات کا اندازہ تھا کہ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی معاہدے کے حوالے سے ریفرنس دائر ہونا ہے اسی لئے وہ انہیں احتساب کے نشانے پر لے آئے ہیں تاکہ ان کی نااہلی کے بعد پاکستان عوام کو باور کروایا جائے کہ ”جناب دیکھو نون لیگ کا دوسرا وزیراعظم بھی نایل کردیا گیا، یہ کوئی مالی کرپشن نہیں بلکہ نون لیگ کو تحلیل کرنے کا منصوبہ ہے“۔

جہاں تک میاں شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقرری ہے وہ بہت سوں کو تاحال ہضم نہیں ہورہی کہ میاں نواز شریف جیسا ذہن رکھنے والا شخص کس طرح اپنے بھائی کو وزیراعظم بننے کا موقعہ فراہم کرسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں بھائیوں کے خاندان میں تنازعہ ہے جن کا ذکر پہلے کئی صحافتی ذرائع کرچکے ہیں اور اگر حالات کے جبر کے تحت شہباز شریف واقعی وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر پنجاب جسے بقول نون لیگ کے اس کو مورچہ کہا جاتا ہے وہاں کون وزیراعلیٰ ہوگا؟ کیا رانا ثناء اللہ؟ یا کوئی اور۔

۔۔؟ کیا میاں نواز شریف کا خاندان اس بات کو برداشت کرلے گا کہ لاہور کی سڑکوں پر کوئی اور بھرپور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پھر رہا ہے؟ اور اگر جس اندازمیں میاں نواز شریف کے فیصلے انہی کے گلے پڑتے جارہے ہیں پنجاب کے معاملے میں بھی کوئی ایسا فیصلہ ہوگیا تو نون لیگ میں سے ”نون“ بڑی آسانی سے غائب ہوجائے گا او ر اس کی جگہ کوئی اور مسلم لیگ آجائے گی۔

۔۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ اقتدار کا کھیل بڑا ہی ظالم ہوتا ہے اس بات کا اندازہ ضیاء دور میں تشکیل پانے والی مسلم لیگ میں سب سے پہلے محمد خان جونیجو کو ہواتھا جن کے اقتدار سے باہر ہوتے ہی اگلے روز انہیں کے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف ہمنواؤں کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کے پہلو میں براجمان تھے۔۔۔!! یوں ماڈل ٹاؤن سے شروع ہونے والی کہانی آج جاتی عمرہ میں اپنے آخری اوراق پلٹ رہی ہے۔

آنے والا پاکستان میاں نواز شریف کی ”سیاسی کلابازیوں“اور زرداری کے کھوکھلے نعروں کا متحمل نہیں ہوسکتا، اسے ایک مدیر لیڈر کی ضرورت ہے جس نے مشرق وسطیٰ سے وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے معاملات کا ادراک اور سامنا کرنا ہے آنے والی دنیا بہت مختلف اور اس کے چیلنجز بہت کڑے ہیں یہ بات پاکستانی قوم کو ذہن نشین کرلینی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tahayat Na Ahli Kon Banaye Ga Nayi Muslim League is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.