سنے بغیر مرتب جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گی

بالآخرپانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 63 روز میں سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ جس میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور انکے صاحبزادوں حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی ہے

جمعہ 14 جولائی 2017

Sune Bagair Muratab JIT Report
نواز رضا:
بالآخرپانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 63 روز میں سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ جس میں وزیراعظم محمد نوازشریف اور انکے صاحبزادوں حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان کا ”رہن سہن ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا“ شریف خاندان، اثاثوں اور آمدن کے کوئی ذرائع فراہم نہ کرسکا، بڑی رقوم کی”قرض اور تحفے“ کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی ہے،جے آئی ٹی نے نیب قوانین کے تحت شریف خاندان کو اپنی سفارشات میں ”ملزم“ تصور کیا ہے اور کہا ہے کہ مریم نواز نیلسن اور نیسکول کی ”بینیفشری“ مالک ہیں۔

جے آئی ٹی نے نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت کے دستاویزات کو بھی جعلی قراردیا ہے اور کہا ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے لندن کی خسارے میں چلنے والی 6آف شور کمپنیوں کو مہنگی جائیدادیں خریدنے اور رقوم منتقل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

جے آئی ٹی نے گلف سٹیل کی فروخت کے معاہدہ کو بھی جعلی قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے۔

جے آئی ٹی نے ا یف زیڈ ای کیپٹل آف شور کمنی کا چیئرمین بھی نواز شریف کو ثابت کر دکھایا اور کہا کہ ”کمپنیوں کے ذریعے پیسہ برطانیہ، سعودی عرب، پاکستان اور یو اے ای میں گھومتا رہا“جے آئی ٹی کی رپورٹ جو بظاہر 63 روز میں تیار کی گئی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے اس رپورٹ کی تیاری میں سالہا سال کی تحقیقات شامل ہیں۔ 10 ابواب پر مشتمل جامع رپورٹ دو ماہ میں تیار کرنا جے آئی ٹی کیلئے ناممکن ہے۔

حکومتی حلقوں میں برملا یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ”سیاسی منظر“ سے ہٹانے کی ایک منظم کوشش ہے۔
سر دست جے آئی رپورٹ نے ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کی سیاست میں نئی روح پھونک دی ہے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے استعفے کے ”ون پوائنٹ“ ایجنڈے پر اپوزیشن کی جماعتوں کی صف بندی کے لئے سرگرم ہو گئی ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعظم نوازشریف کے بعدسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر خزانہ سینیٹر اسحقٰ ڈار اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے استعفے کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے خلاف عدالت جانے کااعلان کردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ بھی آصف علی زرداری کے اشارے پر سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔

ان کی تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمد قریشی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم اپنے عہدے سے علیحدہ ہو جائیں انہوں نے نواز شریف کو پارلیمنٹ کیلئے خطرہ قرار دے دیا ہے متحدہ اپوزیشن وزیر اعظم محمد نواز شریف پر استعفا دینے کے لئے دباؤ ڈالنے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلانے کے لئے ریکویشن جمع کرادی ہے دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر آنے کے لئے ”سٹینڈ بائی“ پوزیشن میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی سفارش پر اپوزیشن جماعتیں خوشی سے پھولے سما نہیں رہیں وہ سمجھتی ہیں جس لیڈر کو انتخابی معرکے میں شکست نہیں دے سکتیں عدالت کے ذریعے سیاست سے آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی بظاہر جے آئی ٹی کی رپورٹ نواز شریف اور ان کے بچوں کو سیاست سے آؤٹ کرنے کی ”تباہ کن“ چارچ شیٹ ہے لیکن وزیر اعظم محمد نواز شریف جو ماضی میں بھی اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہوتے رہے ہیں، انہوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ردی قرار دے کر اس مطالبے کے سامنے ”سرنڈر“ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کر تے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مسلم لیگ(ن) جے آئی ٹی کے ”طرز عمل“ کے پیش نظر اس پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے لیکن جب جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ان کی رہائش گاہ پر ریکارڈ نہیں کیا تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جے آئی ٹی رپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے کہا ہے کہ جے آئی رپورٹ میں کوئی دلیل یا مستند مواد نہیں، جے آئی ٹی کی رپورٹ ”عمران نامہ“ اور ”دھرنا نمبر3“ کا حصہ ہے جسے پاکستان میں منتخب حکومت کے خلاف کھیل کھیلنے میں استعمال کیا جا رہا ہے، اچھا ہوتا وزیراعظم کے خلاف مالی بدعنوانی کا ثبوت نکالا جاتا، سیاسی الزامات کو رپورٹ کی شکل میں پیش کر دیا گیا جب کہ جے آئی ٹی کے 4 ارکان سرے سے قانونی معاملات کی سمجھ نہیں رکھتے۔

مسلم لیگ (ن) نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ایک سازش قرار دیا ہے جس کا ڈائریکٹر پاکستان سے باہر اور اداکار پاکستان میں ہیں جبکہ مرکزی کردار عمران خان ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرز لیکس میں آف شور کمپنیوں میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے کردار کے حوالے سے تحقیقات کرنے کی ذمہ داری جے آئی ٹی کے سپرد کی تھی لیکن برطانیہ میں شریف خاندان کی 6آف شور کمپنیوں میں تو اسے کہیں نواز شریف کا نام نہیں ملا جے آئی ٹی یو اے ای میں کمپنی ڈھونڈ لائی جس کے وزیر اعظم محمد نواز شریف 10سال تک چیئرمین رہے۔

جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے خلاف 13کیسز دوبارہ کھولنے کی سفارش کر دی ہے یہ بات قابل ذکر ہے جے آئی ٹی نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ شریف خاندان کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں لیکن وزیر اعظم کے خلاف سرکاری خزانے میں بد عنوانی کا کوئی کیس نہیں نکال سکی۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کی مزید سماعت کے لئے 17جولائی 2017ء ملتوی کر دی ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے جے آئی ٹی کی رپورٹ جسے انہوں نے ”طوطا مینا“ کی کہانی قرار دیا ہے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے حکومت یہ سمجھتی ہے جے آئی ٹی نے ٹرائل کورٹ بننے کی کوشش کی ہے، جس کے پیچھے سیاسی ایجنڈا ہے۔

جے آئی ٹی کے تعصب کا خلاصہ عوام سمیت سب کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ سردست مسلم لیگ (ن) کو عدالتی جنگ لڑنی ہے تاہم وہ اپنے مخالفین کے لئے سیاسی میدان بھی کھلا نہیں چھوڑے گی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں جن میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے دباؤ میں وزیر اعظم محمد نواز شریف استعفاٰ دیں گے اور نہ ہی اپوزیشن کو کھیلنے کا موقع دیا جائے گا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جن کے سر پر پہلے ہی ”نا اہلی“ کی تلوار لٹکی ہوئی ہے کا کہنا ہے کہ ”گیم“ ختم ہو گئی ہے انہوں نے نواز شریف سے استفسار کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کب خالی کریں گے ؟ ان کے طرز کلام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں وزیر اعظم ہاؤس میں جا کر ”ڈیرہ“ لگانے کی کس قدر جلدی ہے۔ ان کا واسطہ نواز شریف سے پڑا ہے جس نے 12اکتوبر1999ء کو بندوق کے سامنے استعفا دینے سے انکا ر کر دیا تھا گو سر دست انہوں نے عوام سے ”فریش مینڈیٹ“ لینے کا فیصلہ نہیں کیا لیکن اگر انہوں نے عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا تو اپوزیشن کے لئے ”تبا ہ کن“ ہوگا۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ”عدالتی عمل“کے ذریعے اقتدار سے نکا لا گیا تو وہ”مظلوم“ بن جائیں گے اور عوام میں انہیں بے پناہ پذیرائی ملے گی۔ فی الحال میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اگر ان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تو پھر نواز شریف کسی سے سنبھالا نہیں جائے گا وہ اپنے اقتدار سے نکالے جانے کے عوامل پر کھل کر بات کریں گے وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے انہیں حقائق سامنے لانے سے کوئی روک نہ سکے گا نواز شریف ایک ”سیاسی فائٹر“ ہے جو بڑے سخت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


عمران خان نے حال میں ہی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے قائم کردہ گیلپ سروے کرنے والے اداروں سے سروے کرائے ہیں جن کے نتائج پر انہوں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا ہے۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کسی سیاست دان کو عدالتوں سے ”نا اہل“ قرار دلوانے یا ”عدالتی قتل“ کے بعد لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکا بلکہ ایک طویل سیاسی جدو جہد کے بعد ہی کسی جماعت کو غیر مقبول بنایا جاسکتا ہے ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کم وبیش نصف صدی تک لوگوں کے دلوں پر حکومت کی ہے لیکن ان کی جماعت کے ”کرپٹ“ رہنماؤں نے آج پیپلز پارٹی کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ کوئی اس کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کے لئے تیار نہیں لہٰذا وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ”نا اہل“ قرار دلوانے کی کوشش کرنے والوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وہ ایک ”خطرناک“ کھیل کھیل رہے ہیں جس میں انہیں شکست کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ نواز شریف کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد پاکستان کی ترقی کا پہیہ رک سکتا ہے جیسا کہ امریکی میڈیا نے لکھا ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ہٹانے سے پاکستان کی ترقی کا سفر رک جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sune Bagair Muratab JIT Report is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.