سیاست دانوں نے اپنے مقاصد کیلئے ملکی اداروں کوبدنام کیا

پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد انہونی بات نہیں! پانامہ کیس میں سپریم کورٹ سے امیدیں لگانے والوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے

بدھ 10 مئی 2017

Siyasat Danon Ne Apnay Maqasid K Liay Mulki Idaron Ko Badnaam Kia
امیر محمدخان:اس وقت ملک میں لگ رہا ہے کہ جمہوریت اپنے پورے جوبن پر چمک رہی ہے،مگر اس جمہوریت کا مزہ صرف اشرافیہ کیلئے ہے،عوام کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں مل رہا۔اس کے علاوہ جلسے جلوس شروع ہو چکے ہیں،کچھ بے روزگار لوگوں کو روزانہ دھاڑی مل جائے گی،اگر جلسہ ہوا تو ڈیکیوریشن والوں کوکرایہ مل جائے گا،اچھی کرسیاں لوگ اٹھا کر بھی جا سکتے ہیں،لاوڈ سپیکر اور تحریک انصاف کا لایا ہوا نیا کلچر(ڈی جے) جو ہر تھوڑی دیر بعد بے ہنگم موسیقی اور گیت لگا کر سامعین کو ناچنے کے مواقع فراہم کرے گا،تحریک انصاف کے سیاست میں آنے سے قبل بچیوں،خواتین کا جلسوں میں تھرکنا“ برا سمجھا جاتا تھااب اس کی قید بھی ختم ہے اس میں اب جنس کی کوئی قید نہیں رہی۔

سیاسی جماعتیں اپنی کامیابیوں کی امید پرکڑوروں روپے اس طرح جلسے جلوسوں میں اس امید پر بہادیں گی کہ اگر کامیاب ہوگئے تو یہ رقم منافع کے ساتھ اسی عوام اور ملک کے اداروں سے نکال لیں گے۔

(جاری ہے)

پانامہ کا ہنگامہ تقریباََختم ہوگیا،تمام سیاسی جماعتیں جو حزب اختلاف سے تعلق رکھتی ہیں وہ سپریم کورٹ سے امید لگائے بیٹھی تھیں۔اور یہ ہی بیان دے رہی تھیں کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر ایسا نہ ہوسکا،عدالتی فیصلے کے آتے ہی جویہ بیانات دے رہے تھے کہ ہم عدالتوں کا اپنے جج صاحبان کا احترام کرتے ہیں تجربہ کار ججوں کو اپنی رائے دینا شروع کردی کہ’یوں نہیں بلکہ یوں ہونا چاہیے تھا،وہ تمام بیانات دھرے کے دھرے رہ گئے کہ ہم عدالتی حکم کو مانیں گے نہ جانے کونسی دنیامیں تھے؟۔

عدالتی حکم آتے ہی پہلے ایک گھنٹہ چہرے اترے رہے،پھر خیال آیا کہ ”کہاں کی عدالت اور کہاں کے ججز،ہم تو اپنا کام جاری رکھیں گے تین ججز کے فیصلوں میں جو خبروں کے مطابق وزیراعظم کو فوری گھر بھیجنے پر راضی نہیں تھے یہ کہیں نہ کہا کہ وزیراعظم قصوروار ہیں لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
ٓ avidence not sufficent اسکا مطلب یہ ہوا کہ ثبوت موجود ہیں مگر کافی نہیں ہیں اور ہونا چاہیئں۔

چونکہ ہماری یہ روش ہوگئی ہے کہ بات وہ صحیح ہے جو ہماری خواہشات کے عین مطابق ہو۔سپریم کورٹ کے دوران سماعت اگر حقیقت سے دیکھا جائے تو کچھ میڈیا اور سیاست دان جس میں حکومتی اراکین اور حزب اختلاف خصوصی طور پر تحریک انصاف والے توہین عدالت کے مرتکب ہوتے رہے ہے۔مگر ہمارے ادارے چاہے قانون نافذ کرنے والے ہوں یا انصاف فراہم کرنے والے،وہ ان چیزوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتے(شائدیہ بھی جمہوریت کا حسن ہے) ہمارے ادارے اب ”درگزر“ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور انکی جماعت کے کچھ لوگ ملک کی اعلیٰ قوتوں(افواج پاکستان،اور حساس اداروں)کے متعلق جو چاہے بول دیں انہیں لگتا ہے سب کچھ معاف ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح سرے محل اور سوئس بنکوں کی رقم معاف ہوگئی۔میاں نواز شریف اور انکے صاحبزادوں سے پوچھ گچھ جاری ہے،اسے ہم جمہوریت کہہ سکتے ہیں،جبکہ سرے محل،سوئس بنک ،ڈاکٹر عاصم،شرجیل میمن،خاتون ایان علی،حج کرپشن یہ سب کسی پانامہ کا حصہ نہیں بلکہ ایک پوشیدہ NRO کا حصہ ہیں۔

تمام معاملات میں جو مزے دار بیان لگا وہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا تھا۔جب انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب کے کرپشن کے خلاف بیان کو قیامت کی نشانی قراردیا، اگر وزیرداخلہ قیامت کی نشانی نہیں بلکہ قیامت کی نشانیاں کہتے تو زیادہ بہتر تھا۔چونکہ یہ کام بہت سے لوگ کررہے ہیں۔”نوسو چوہے کھاکر“ والا مسئلہ ہے۔چوہدری نثار صاحب کی وزارت کسی حد تک اپنا کام کررہی ہے مگر انکے اقدامات میں انکے ہاتھ نہ جانے کیوں’بندھے ہوئے لگتے ہیں۔

چونکہ جب ملک کا وزیرداخلہ یہ کہے کہ خورشیدشاہ یا اعتزاز احسن کے معاملات عوام میں کھول دیں تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔چوہدری صاحب عوام تو سب کچھ سننے کو تیار ہیں اسلئے اس میں’ تو‘ کالفظ نہ لگائیں عوام کو بتا ہی دیں تا کہ آپکی گریڈ پبلیسٹی تو بنے،پی پی پی کی مایوسی کا اندازہ اس طرح ہوتا ہے۔کہ انکے دانشور قسم کے رہنما اعتزاز احسن پاکستانی حساس ادارے کے سربراہ کو نشانہ بنا بیٹھے،اسطرح کی باتیں کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملات تمام دنیا کو پہنچتے ہیں اور اپنے اداروں کو مشکوک کرنا ہمارا ہی کام ہے جو قابل نفرت ہے۔

دانشور رہنما کو بقول ہندوؤں کے اپنی جماعت کے سابقہ اور حالیہ صف اول کے رہنماؤں کی”کنڈلی“ نکال لینا چاہے تو بہت سے راز کھل جائینگے کہ کون کس کا رشتہ دار ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک مقدمہ کے دوران عمران خان سے اپنی وابستگی کااظہار کیا کہ وہ عمران خان کہ ہمراہ انکی کپتانی میں کرکٹ کھیل چکے ہیں،اگر یہ ہی باتیں کوئی جج نواز شریف سے اپنی وابستگی کا اسطرح اعلان کردے تو پی پی پی ایک جلوس نکالنے اور عمران خان ایک دھرنے کا اعلان کرنے میں دیر نہ لگائیں۔

وزیرداخلہ جو پی پی پی کو خواب میں بھی نظر آتے ہیں انکے تمام معاملات اگر کوئی اور بھی ہیں تو وہ سامنے لائیں وگرنہ لگتا ہے کہ ان کہ ہاتھ کسی اور نے نہیں انکی اپنی پارٹی نے ہی باندھ رکھے ہیں۔حکومتی معیاد ختم ہونے کے بعد دوران انتخابی مہم اگر پی ایم ایل نے ”انکشافات“ کئے تو انکا کوئی فائدہ نہیں۔ایم کیوایم کے خلاف ثبوتوں کے حوالے سے عمران خان،ذوالفقار مرزا اور وزیر داخلہ کے بیانات اور کاوشوں سے پہلے ہی عوام کا کوئی بھلا نہ ہوا۔

چونکہ اس مسئلے پر دعوے اور بیانات بہت دئیے گئے۔میاں نواز شریف نے ہمیشہ پی پی پی کے خلاف جدوجہد کی ہے اور ملک میں اتفاق سے اچھا کہیں یابرادوہی آج تک جماعتیں ہیں جو عوام کے سامنے پیش ہوتی رہی ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ نعرہ لگاتے ہوئے ’ایک زرداری سب پہ بھاری‘ اس نعرے کے عملی ثبوت کے طور پر وہ پانچ سال حکومت کرتے رہے شہید بے نظیر بھٹو کی میاں صاحب کے دل میں بہت قدر تھی انہیں ہمیشہ انہوں نے ایک جمہوریت پسند لیڈر تسلیم کیا،پرویز مشرف کی مہربانی سے جدہ میں گزارے ہوئے لمحات میں جب میثاق جمہوریت ڈرامے کی قسط وار کہانی شروع ہوئی،شہید بے نظیر نے جدہ میں انکی رہائش گا ہ پر میاں نواز شریف سے تفصیلی ملاقات کی،اور جمہوریت کی خاطر ایک دوسرے کو مکمل حمائت کی یقین دہانیاں کرائیں،بے نظیر سے ملاقات کے بعد میاں صاحب کے ہمراہ انکی رہائش گاہ پر اسی شام ایک عشائیہ پر بات چیت کرنے کا موقع ملا،میاں صاحب اخبار نویسوں اور دوستوں سے رائے لینا چاہتے تھے،میاں صاحب نے بتایا کہ میں نے پہلے والی بے نظیر جو اقتدار میں تھیں اور آج کی بے نظیر میں بے حد فرق محسوس کیاہے،ان کا نظریہ جمہوریت کے معاملے پر مظبوط ہے،ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہو گا تاکہ مشرف جائے اور اسطرح کی کاروائی دوبارہ اس ملک میں نہ ہو۔

میری رائے تھی کہ میاں صاحب،جب بی بی آپکی حمائت میں بیان دیتی ہیں یا آج جو ملی ہیں وہ انہوں نے واضح پیغام مشرف کو دیا ہے اب وہ زیادہ مضبوط انداز میں مشرف سے بات کریں گی۔مشرف کی آپ سے مخالفت ہے،اب مشرف بی بی کی باتوں کو بہت سنجیدہ لے گا تاکہ بی بی آپ سے اتحاد نہ کرسکیں،میاں صاحب کو میرا تجزیہ کوئی زیادہ اچھا نہ لگا اور انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ آپکو حالات کا علم نہیں،اب بے نظیر یا پی پی پی وہ نہیں جو پہلے تھیں۔

کچھ دن بعد میاں صاحب جدہ سے لندن چلے گئے،پاکستان میں میثاق جمہوریت دونوں کی ملاقات کے نتیجے میں بنایا گیا،ایک دن ٹی وی پر دیکھا،وہی بے نظیر جن سے مشرف ملنا پسند نہیں کرتے تھے،وہ دبئی میں پرویز مشرف سے ملاقات کر رہی تھیں اور جمہوریت کیلئے ان سے بات چیت کر رہی تھیں۔میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی میاں نواز شریف کو لندن فون کیا اور پوچھا،میاں صاحب ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے ہیں؟؟ ہم نے آپ سے کیا کہا تھا،آپکی جدہ کی ملاقات کے نتیجے میں اب دونوں کی ملاقات ہوچکی ہے،میاں نواز شریف کا معصوم جواب تھا،خان صاحب کس پر بھروسہ کریں؟ اس کہانی کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ کا کاروائی کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے بیانات تبدیل ہونا شروع ہو رہے ہیں۔

وہ ایک مرتبہ پھر میدان میں آئینگے کوئی تیسری جماعت میدان میں آئے نہ آئے سیاست کا بہت علم رکھتے ہیں پی پی پی کے تمام انکل’جمہوریت‘ کی خاطروہ تحریک انصاف سے بھی مل سکتے ہیں چونکہ نہ تحریک انصاف اور نہ پی پی پی کا یہ تنہا کام نہیں اسلئے تحریک انصاف بھی یہ کہتے ہوئے کہ سیاست میں سب جائز ہے پی پی پی سے مل سکتی ہے۔میاں صاحب اور حکومت کیلئے اشد ضروری ہے کہ ان معاملات کا مقابلہ صرف اور صرف ملک میں عوام کو سہولیات پہنچا کر ہی ہوسکتا ہے۔بجلی کی فراہمی۔(گزشتہ انتخابات میں جو وعدہ بھی تھا) کرپشن کے خلاف گہری نظر،بدعنوانوں کو نشان عبرت بنادیں،اپنی میڈیا ٹیم بہتر کرلیں،میاں صاحب 2018ء انتخابات میں بھی مسلم لیگ کی جیت ہوگی۔مقدمات چلتے رہنے دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Siyasat Danon Ne Apnay Maqasid K Liay Mulki Idaron Ko Badnaam Kia is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.