سلسلہ نا اہلی پر رکنے کی بجائے حکومت الٹنے کی تیاری؟

2017ء پاکستان میں سیاسی لحاظ سے ” شدید ترین“ محاذ آرائی کا سال تھا 2018ء کی آمد آمد ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ مسلم لیگی حکومت کو ختم کرنے کی خواہش مند قوتیں موجودہ حکومت کو آئند ہ 6مہینے چین سے گذارنے نہیں دیں گی۔

جمعہ 29 دسمبر 2017

Sislisa Na Ahli Per Ruknay Ki Bajaye Hakoomat Ulatnay Ki Tayyari
نواز رضا:
2017ء پاکستان میں سیاسی لحاظ سے ” شدید ترین“ محاذ آرائی کا سال تھا 2018ء کی آمد آمد ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ مسلم لیگی حکومت کو ختم کرنے کی خواہش مند قوتیں موجودہ حکومت کو آئند ہ 6مہینے چین سے گذارنے نہیں دیں گی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے جس ”ماسٹر پلان“ کی نشاندہی کی تھی اس کے کردار 30دسمبر 2017ء کو طاہر القادری کے”ڈیرے “ پر اکھٹے ہو رہے ہیں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں لیکن نواز شریف کی نامزد کردہ حکومت گرانے کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کی زیر صدارت ہونے والی ”آل پارٹیز کانفرنس “ میں عمران خان آصف علی زرداری کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں اے پی سی کے شرکاء کی تعدا بڑھانے کے لئے کچھ ” سیاسی یتیموں “ اور تانگہ پارٹیوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

سر دست ڈاکٹر طاہر القادری کے ”ڈیرے“ پر تیار ہونے والے ”ماسٹر پلان “ کے خدو خال سامنے نہیں آئے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے عزائم سے یہی پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک اور دھرنا دینے پر اتفاق رائے تو ہو گیا ہے لیکن کون پہلے باہر نکلے اس پر ابھی تک اتفاق رائے پیدا نہیں ہوا اب کی بار ڈاکٹر طاہر القادری اس بات پر اصرار کر رہے ہیں سب ہی ایک کنٹینر پر باہر نکلیں۔

ابھی تک اس بارے میں بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا کہ دھرنا پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں دیا جائے یا پھروفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں ”ڈیرہ “ ڈالا جائے۔ پارلیمنٹ سے قومی اسمبلی کے انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی بارے میں آئینی ترمیم کی منظور ی نے قومی اسمبلی کے انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ ہموار کر دی ہے اس آئینی ترمیم کی منظوری سے عام انتخابات ملتوی ہونے کے بارے میں خدشات بڑی حد تک دور ہو گئے ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کا ”اکٹھ“ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے نیک شگون نہیں بظاہر اپوزیشن وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے دھرنے کا ”ڈھونگ“ رچانا چاہتی ہے لیکن اس کے عزائم سے پتہ چلتا ہے وہ عام انتخابات کے التواء کے ”ماسٹر پلان“ کا حصہ بن گئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادی دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کرحکومت گرانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر اسی” تنخواہ“ پر قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں اب کی بار شاید ان کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جائے تو ان کو اپنے دوسرے ملک کینیڈا جانے کا موقع نہ ملے۔

عمران خان جو پچھلے 4سال سے ہر سال کو انتخابات کا سال قرار دیتے چلے آرہے ہیں نے الیکشن کمیشن سے 90 روز میں نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے اس طرح انہوں نے خود ہی یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ اب عام انتخابات 2018ء کے وسط میں ہی ہوں گے۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشر یف عدلیہ پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں انہوں نے اپنے ساتھیوں کا ریاستی اداروں سے تصادم نہ کرنے کا مشورہ جزوی طور تسلیم کیا ہے انہوں نے اپنے” سیاسی بیانیہ “ میں فوج پر تنقید ترک کر دی ہے لیکن وہ عدلیہ کے کردار کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں انہوں اپنے سیاسی بیانیہ کو ” عدل اور ووٹ کے تقد س کی تحر یک “ سے تعبیر کیا ہے اور اس ”سیاسی بیانیہ“ سے کسی صورت پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کیا ہے میاں نواز شریف جو اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کانام لینے سے گریز کرتے ہیں اب کھل کر اس کا نام لے کر تنقید شروع کر دی ہے انہوں نے کہا ہے کہ ”عمران خان خود اپنے چھپے اثاثے کا اعتراف کر تاہے مگر جج صاحبان کہتے ہیں ”پتراے تیر ے اثاثے نیں “ ”پتر تن نہیں پتہ تو صادق اور امین اے “ انہوں نے عمران خان کا نیا نام ”لاڈلا اور “چہیتا “ رکھ دیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ”یہ وہ کھیل ہے جس نے ملک کو تماشہ بنادیا ہے مسئلہ میری نااہلی نہیں آئین قانون کی حر مت اور عوام کے ووٹ کے تقدس کا ہے میری اہلیت اور نااہلیت کا فیصلہ بھی عوام نے ہی کر نا ہے مجھے یقین ہے عوام وہ فیصلہ کر یں گے جو انصاف اور میرٹ پر مبنی ہے‘مجھ سے50سالوں کا ریکاڈ مانگا جاتا ہے جب کہ عمران خان کے کیس میں کہا جاتا ہے کہ5سال سے پیچھے نہیں جانا بھائی “کسی کی آف شور کمپنی اور بینیفشری ہوناجائز اور کسی کا ناجائز‘ قرار دیا جا رہا ہے ‘انہوں نے کہا کہ ”مجھے بزدل کہنے والا عمران خان2009کے لانگ مارچ میں پنڈی میں چھپا رہا اور شہبازشر یف اس کوتلاش کرتارہا “ عمران خان نے سوشل میڈیا پر میاں نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ان کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز جس نے8ارکان سے ٹیم کا آغاز کر کے عمران خان کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں آج اس ٹیم میں ہزاروں نوجوان شامل ہو گئے ہیں مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کے سرخیل بیرسٹر دانیال چوہدری ہیں لاہور میں سوشل میڈیا ٹیم کا کنونشن کر کے سیاسی مخالفین پر دھاک بٹھا دی گئی ہے میاں نواز شریف نے بھی روایتی پالیٹکس ترک کر کے عمران خان کے خلاف وہی حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے ہیں جو وہ اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ عمران خان 2018ء کے عام انتخابات میں ایل بی ڈبلیو نہیں “کلین بولڈ “ ہو گا ‘عمران خان الیکشن ہارتا ہے تو دھاندلی کا شور شروع کر دیتا ہے کبھی امپائر کی انگلی کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی عدالت جاتا ہے۔

مریم نواز نے کہا ہے کہ” سوشل میڈیا ٹیم جس نظریے کو لے کر چل رہی ہے وہ صرف نواز شریف ہے،“ نواز شریف نے عوام کیلئے عدل کی جنگ لڑنے کا اعلان کیا، جمہوریت میں ملاوٹ نہیں ہو سکتی، یہ ”نواز شریف کا نظریہ “ہے، جس کو عوام پلس کر دیں اس کو کوئی مائنس نہیں کر سکتا“ مریم نواز نے نواز شریف کے ” سیاسی بیانیہ“” نظریہ نواز شریف “ کا نام دے دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے میاں نواز شریف نے اپنے ”سیاسی بیانیہ“ میں عدلیہ پر تنقید کو خارج کرنے کا مشورہ مسترد کر دیا ہے سینیئرمسلم لیگی رہنما میاں نواز شریف کو ریلیف کے لئے عدلیہ کے خلاف بیان بازی ترک کرنے کا مشورہ مسترد کر دیا ہے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیداحمد کی باتوں کو سیریس نہیں لیا جاتا لیکن انہوں نے کہاہے کہ نوازشریف نے عدلیہ کی توہین کی حد کردی ، نوازشریف کی تقریر کے بعد 2018میں بھی الیکشن ہوتا دکھائی نہیں دیتا ،90دن میں کچھ بڑا ہونے والا ہے، گنتی شروع ہوگئی ہے ،،شہبازشریف کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیرہی نہیں ہے ،تمام سیاستدان مرجائیں تو بھی شہبازشریف کو نوازشریف نے وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔

نوازشریف کا وزیراعظم بن بن کے دل نہیں بھرا،نواز شریف کاایجنڈا ہے کہ فوج آ جائے اور دو سال الیکشن نہ ہوں اور سپریم کورٹ سے سزا نہ ملے۔شاہد خاقان عباسی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو 2018ء کے انتخابات کے لئے مسلم لیگ(ن) کا وزارت عظمی کے لئے امیدوار نامزد کر دیا ہے اس فیصلے سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنائیں گے لیکن انہوں نے زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر میاں شہباز شریف کے حق میں فیصلہ دیا ممکن ہے اب بھی پارٹی کے کچھ ”ہارڈ لائنر“ اسے ابتدائی فیصلہ قرار دے رہے ہوں لیکن حیقت یہ ہے عمران خان کا مقابلہ شہباز شریف ہی کر سکتے ہیں جنہوں نے پچھلے 10 سال کے دوران نہ صرف بے پناہ ترقیاتی منصوبے مکمل کئے بلکہ ”گڈ گورنس “ سے مسلم لیگ (ن) کا ” ووٹ بینک کو بکھرنے نہیں دیا اب میاں شہباز کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کے تمام چیلنجوں کا مقابلہ کر ے گی سیاسی مخالفین اب بھی پارٹی کے اندر تقسیم کے شوشے چھوڑ رہے ہیں لاہور میں مریم نواز کے شو میں حمزہ شہباز کی عدم شرکت کو موضوع گفتگو بنا رکھا ہے لیکن یہ بات اتنی اہم نہیں سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو میاں شہباز شریف کی آئندہ انتخابات میں بطور امیدوار وزارت عظمی نامزدگی کے سب سے بڑے محرک ہیں نے کہا ہے میاں شہباز شریف کی نامزدگی اسی صورت میں سود مند ہو گی جب انہیں اپنی سوچ اور فکر کے مطابق کام کرنے کا موقع دیا جائے گا چوہدری نثار علی خان نے بین السطور مسلم لیگ (ن) کے” انقلابیوں “ پر تنقید کی تو سینیٹر پرویز رشید کی جانب سے اس کا جواب آگیا۔

سینیٹر پرویز رشید ایک دھیمے مزاج کے مالک ہیں لیکن وہ ڈان لیکس میں ”ملزم “ قرار دئیے جانے کے بعد ” زخم خوردہ “ ہیں اس کے باوجود انہیں چوہدری نثار علی خان کی باتوں کا جواب دے کر اس تاثر کو تقویت نہیں دینی چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر تقسیم پائی جاتی ہے یہ تقسیم مسلم لیگ (ن) کو اپنی منزل سے دور لے جا سکتی ہے جو اس نے 2018ء کے انتخابات میں حاصل کرنی ہے۔ سینیٹر پرویز رشید کبھی بھی اپنے سینئر ترین لیڈر کے سامنے اس طرح کبھی کھڑے نہیں ہوئے انہوں نے جس کسی کی آشیر باد پر چوہدری نثار علی خان کو جواب دیا ہے اس نے مسلم لیگ(ن) کے لئے اچھا نہیں کیا جوابی بیانات نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان پائی جانے والی ”خلیج“ میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sislisa Na Ahli Per Ruknay Ki Bajaye Hakoomat Ulatnay Ki Tayyari is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.