سندھ اسمبلی میں صوبہ کی تقسیم کے نعرے

پی ایس۔114 میں مسلم لیگ ن کی پوزیشن مستحکم

منگل 4 جولائی 2017

Sindh Assembly Main Soobay Ki Taqseem K Naray
شہزاد چغتائی:
سندھ اسمبلی اور کے ایم سی کونسل ایک بار پھر اکھاڑے میں تبدیل ہو گئی۔سندھ اسمبلی میں صوبہ کی تقسیم کے نعرے لگائے گئے جبکہ کے ایم سی کا ایوان گو نوازگو کے نعروں سے گونج اٹھا۔سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان اُلجھ پڑے جبکہ ایم سی کونسل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے ارکان کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔

سندھ اسمبلی میں معاملات اس وقت بگڑے جب بجٹ پر بحث کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے سندھ میں ہوگا کیسے گزارہ آدھا رتمہارا آدھا ہمارا کے نعرے لگائے اور پوری اسمبلی سر پر اُٹھا لی۔ایم کیو ایم کی نعرہ بازی پر پیپلز پارٹی کے ارکان پریشان ہوئے اور ہکا بکا ہو کر دیکھنے لگے۔صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے ایم کیو ایم کے ارکان کو مشورہ دیا کہ وہ تعصب نہ پھیلائیں۔

(جاری ہے)

تاہم کشیدگی ختم نہیں ہوسکی۔اس دوران ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ایم کیو ایم کے ارکان کے عزائم بھانپ کر حکمراں جماعت نے پسپائی اختیار کرلی۔
دوسری جانب کے ایم سی کونسل اس وقت مچھلی بازار میں تبدیل ہوگئی جب ایک رکن نے میئر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف منسٹر پنجاب سے آپ توقع نہ کریں،نہ فنڈ مانگیں کیونکہ وفاق صرف سینٹرل پنجاب کو فنڈز دیتا ہے ان ریمارکس پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے گو نواز گو کے نعرے لگانا شروع کردیئے اور ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔

گو نواز گو کے نعروں کے جواب میں مسلم لیگ ن کے ارکان نے رو عمران رو کے نعرے لگائے۔مسلم لیگ کی رکن پروین بشیر اپنی سینڈل ہاتھ میں لیکر کھڑی ہوگئیں اور جوتے دکھانے لگیں۔
ایم کیو ایم لندن کی جانب سے کراچی کے حلقہ نمبر114 کے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کے باعث ایم کیو ایم پاکستان کی پوزیشن کمزور اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار علی اکبر گجر کی پوزیشن مستحکم ہو گئی۔


تحریک انصاف کے رہنماؤں کو یہ خوش فہمی ہے کہ پی ایس 114 کی نشست ان کی جیب میں ہے۔لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن)اور ایم کیو ایم بھی میدان میں ہیں۔بنیادی طور پر یہ نشست مسلم لیگ (ن)اور ایم کیو ایم کامیابی حاصل کرتی رہی ہیں۔ 11مئی 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے کراچی سے 8 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے لیکن حلقہ پی ایس 114 سے تحریک انصاف کو کچھ نہیں ملاتھا۔

غیر جانبدرانہ حلقے کہتے ہیں کہ اس حلقے میں تحریک انصاف کا کوئی ووٹ بنک نہیں اس تناظر میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ تحریک انصاف کیسے جیت جائے گی؟مسلم لیگ کے امیدوار علی اکبر گجر ہیں جو کہ 11 مئی 2013ء کے الیکشن میں ایک دوسرے حلقے سے بہت کم مارجن سے ہارے تھے اور وہ الیکشن لڑنے اور لڑانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کراچی میں دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔

ساتھیوں کو جتا نے والے علی اکبر گجر خود میدان میں ہیں۔
مسلم لیگ نے عرفان مروت کو بہت عزت دی لیکن وہ نہ صرف داغ مفارقت دے گئے بلکہ اُنہوں نے تحریک انصاف کے اُمیدوار نجیب ہارون کی حمایت کردی۔حلقہ پی ایس 114 میں ہونے والا انتخاب مسلم لیگ ن کیلئے دراصل ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے اس الیکشن کے بعد پتہ چلے گا کہ مسلم لیگ (ن)کراچی میں کتنے پانی میں ہے؟پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا اور یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی تحلیل کر دی اور ملک میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ (ن) میدان مار لے گی۔

سیاسی تجزیہ نگار بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن)کی مقبولیت 2013ء سے بھی زیادہ ہے جب مسلم لیگ (ن)نے مظلومیت کا ووٹ لیاتھا۔اِن حالات میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ 114 کا الیکشن آگیا ہے۔حالانکہ اس معرکے سے ملک بھر کا ٹرینڈ سیٹ نہیں ہوگا لیکن کراچی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
کراچی میں جو دوسری جماعتیں الیکشن لڑرہی ہیں ان کے پاس کوئی سلوگن نہیں ہے مسلم لیگ (ن) کے پاس گرین لائن بس سروس منصوبہ،لیاری ایکسپریس وے پروجیکٹ ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ الیکشن لڑنے والی 27 جماعتوں میں مسلم لیگ واحد جماعت ہے جس پر برق گررہی ہے اور اس کا احتساب ہورہا ہے۔
شریف خاندان کٹہرے میں کھڑا ہے۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ منظور کالونی،کالا پل،محمود آباد،جونیجو ٹاؤن وغیرہ نواز شریف کے چاہنے والا علاقہ ہے،جہاں سے مسلم لیگ کے اُمیدوار چار بار میدان مار چکے ہیں۔اس لحاظ سے آن پیپر مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن مستحکم ہے۔

پی ایس 114 میں ایم کیو ایم کا ووٹ بنک بھی موجود ہے یہاں سے ایم کیو ایم بھی کئی بار میدان مار چکی ہے۔
2013ء میں ایم کیو ایم جیت گئی تھی لیکن عرفان مروت نے اسٹے آڈر حاصل کرلیا تھا ان کے خلاف ٹربیونل نے فیصلہ دیا جوکہ اعلیٰ عدالت نے بے قرار رکھا۔اس نشست پر کامیابی ایم کیو ایم پاکستان کیلئے بہت اہم ہے ،اس لئے وہ سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے ایم کیو ایم پاکستان جانتی ہے کہ وہ ضمنی الیکشن ہاری تو سب کچھ ہار جائے گی۔

اس مستقبل اور سیاست انتخابی نتائج سے جڑی ہے کیونکہ اس حلقے کے نتائج آئندہ عام انتخابات پر پڑیں گے۔نئے انتخابات 2018ء میں ہوں یارواں سال ایم کیو ایم کیلئے بہت اہم ہے۔
یہ وقت وہ ہے جب ایم کیو ایم پاکستان چاروں جانب سے گھر چکی ہے تمام جماعتوں کی نگاہیں کراچی کے مینڈیٹ پر ہیں اور اس کی ہڈیاں بھی ہڑپ کر جانا چاہتے ہیں جن میں پیپلز پارٹی پیش پیش ہے ۔ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے اُمیدوار کامران ٹیسوری کو مسترد کرتے ہوئے ووٹرز سے اپیل کی ہے کہ وہ کامران ٹیسوری کو ووٹ نہ دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Sindh Assembly Main Soobay Ki Taqseem K Naray is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.