سیاستدانوں کی بیماریاں

مالیاتی بدعنوانیوں اور کرپشن کے حوالے سے باز پرس کے خوف نے آج کل اکثر سیاستدانوں کو مصنوعی بیماریوں میں مبتلا کر رکھا ہے تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑے سیاسی رہنما سچ مچ جان لیوا بیماریوں کا شکار بھی ہوئے ہیں

جمعرات 19 اپریل 2018

sayasatdano ki bemariyan
محمداظہر
حالیہ چند برسوں کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان یا قومی احتساب بیور ویعنی نیب کی جانب سے مالیاتی بدعنوانی کی تفتیش کے لئے جس کسی سیاسی شخصیت کو بھی بلوایاگیا، چند پیشیوں کے بعد اسے دل کا عارضہ لاحق ہو گیا اس کی صحت اس قدر بگڑ گئی کہ پیشی سے معذوری ظاہر کر دی۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کمرکے عارضے کو بنیاد بنا کر پہلے عدالت میں پیشی سے استثناء حاصل کیا پھر علاج کے بہانے ملک سے باہر ہی چلے گئے اور آج تک وہیں مقیم ہیں اور عدالت انہیں مفرور قرار دے چکی ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر عاصم حسین ، سینیٹر نہال ہاشمی، سینیٹر اسحاق ڈار اور شرجیل انعام میمن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بیمار نہیں ہوتے بلکہ اس قسم کی بہانہ بازیوں کے ذریعے عدالتی کارروائی سے فرار کی راہ تلاش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے قومی رہنماوٴں کی جانب سے اس قسم کی حیلہ بازیوں اور مکار ہوں پر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے نیب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ہیڈکوارٹرہی میں ایک الگ ہسپتال قائم کر لے تاکہ ملزمان کو علاج کے لئے کہیں اور نہ جانا پڑے۔

المیہ یہ ہے کہ سیاسی رہنماوٴں کی طرف سے اس قسم کی حیلہ بازیوں سے نہ صرف مخلص اور بے داغ سیاسی قیادت کو سبکی کا سامنا کرناپڑتا ہے بلکہ عوام کے اذہان میں بھی سیاست دانوں کے بارے میں منفی رائے مزید تقویت پکڑتی ہے۔ کہنے کو تو 74 سالہ سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کمر اور دل کی بیماری کا بہانہ بنا کر آ ئین سے غداری کے مقدے سے راہ فرار اختیار کر چکے ہیں لیکن کبھی کبھار ان کی ایسی ویڈ یو بھی منظر عام پر آتی ہے، جس میں دبنگ مانے جانے والے سابق سپہ سالار کی شادی کے فنکشن میں ٹھمکے لگا رہے ہوتے ہیں تو بھی کسی نائٹ کلب کی دھیمی روشنیوں میں بھارتی گانوں کی دھنوں پر تھر کتے دکھائی دیتے ہیں۔

سینئر صحافی حامد میر کے بقول ” مشرف کے آئے دن کے ٹھمکوں نے ایک منتخب جمہوری حکومت کی ساکھ اور عدلیہ کی عزت کے ساتھ ساتھ ان ڈاکٹروں کی رائے پر بھی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں جنہوں نے عدالتوں میں کہا تھا کہ مشرف کو کمرکی ایک ایسی بیماری لاحق ہے جس کا علاج صرف اور صرف بیرون ملک ممکن ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ موصوف علاج کے بہانے بیرون ملک گئے اور وہاں ٹھمکے لگانے لگے۔

ایسا لگتا ہے وہ پاکستان کے قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کر لو جو کرنا ہے۔ مشرف بیماری کا بہانہ بناکر قانون کے لمبے ہاتھوں سے بچ گئے وہ کئی مقدمات میں مفرور ہیں لیکن ایک دن کے لئے بھی جیل نہیں گئے ، سینئر صحافی ارشاد بھٹی کے بقول کمانڈ وصدر پرویز مشرف کی عدالت میں پیش کی گئی 9 بیمار یوں والی میڈیکل رپورٹ کے برعکس انہیں ایک آدھ مہرے میں ہلکا درد،کبھی کبھار بلڈ پریشر اور معمولی سی دل کی تکلیف ہے۔

دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری نے کئی سال جیل میں گزارے لیکن ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا البتہ اس قید میں وہ بیمار بھی ہوئے اور کئی مرتبہ پیشی کے موقعہ پر انہیں سٹک یعنی چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے بھی دیکھا گیا بعض واقفان حال کا دعویٰ ہے کہ چند سال قبل صدر آصف علی زرداری کی انجیو پیٹی بھی ہوئی تھی۔ انہیں شوگر کے ساتھ ساتھ 11 سالہ قید و بند کی وجہ سے” نروس سسٹم“ کی پیچیدگیوں کا بھی سامنا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسی سبب 62سالہ سابق صدر آصف زرداری کھانے پینے اور روز مرہ معمولات میں خا صے محتاط ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم میاں مد نواز شریف جلاوطنی میں بیمار ہو گئے تھے اور پھر اوپن ہارٹ سرجری کروانا پڑی حالانکہ اپوزیشن کی جانب سے اس سرجری کو شعبدہ بازی قرار دیا گیا۔ وزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف بھی ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا رہے ہیں اور ان کے آنکھوں میں موتیا آپریشن بھی ہو چکا ہے۔

اسی طرح میاں محمد نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز جو چند ماہ قبل دوران علالت ہی لاہور کے حلقہ این اے120سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں، برطانیہ میں کینسر کا علاج کروارہی ہیں اور تاحال حلف اٹھانے کے لئے بھی پاکستان نہیں آسکیں۔ سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اب بھی سیاسی میدان میں متحرک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزارت عظمی کے دور میں ا نہیں بلڈ پریشر اور کمر درد کی شکایت رہتی تھی ، اس کے علاوہ ان کے گھٹنوں میں بھی شدید تکلیف تھی جس سے چھٹکارا پانے کی خاطر وہ روزانہ باقاعدگی سے فزیوتھراپی کرواتے تھے۔

74 سالہ میر ظفراللہ جمالی بھی دل کے مریض ہیں اور چند سال قبل انجیو پلاسٹی کروا چکے ہیں۔ 65سالہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنی خوش لباس، خوش خوراکی اور باقاعدگی سے چہرے کا فیشل کروانے کے حوالے سے خاصے مشہور ہیں۔ کہا جا تا ہے کہ موصوف بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں بعض اوقات بد احتیاطی کے باعث انہیں ہسپتال بھی لے جانا پڑتا ہے۔

ملتان کی درگاہ سیدموسیٰ پاک کے گدی نشین سیاست دان کے حوالے سے بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ اس ڈر سے طبی تشخیص سے دور بھاگتے ہیں کہ ہیں ڈاکٹر انہیں کسی نئی بیماری میں مبتلا قرار دے کر ان کے لئے مزید پریشانیاں کھڑی نہ کر دیں۔ 88 سالہ سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ اس وقت میدان سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس اور سپر یم کورٹ کے سینئرجج کی حیثیت سے سبکدوش ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پہلے سینٹر اور پھر 1997 میں سربراہ مملکت کے عہدے پر متمکن ہونے والے بزرگ قومی رہنما 2001 میں جنرل پرویز مشرف کے عہد آ مریت میں جراََ عہدے سے ہٹادیئے گئے۔

پیرانہ سالی یا سیاسی جبر کے باعث جسٹس (ر) تارڑ دل کے عارضے میں مبتلا ہو گئے اور انہیں انجیو پلاسٹی کروانا پڑی۔ اس وقت وہ شدید علیل ہیں اور اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں تقریبا ترک کر چکے ہیں۔ 72سالہ سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین جنہیں 30 جون 2004 کو صرف دو ماہ کی عبوری مدت کے لئے حکومت ملی، رعشے اور شوگر کے مریض ہیں۔ اسی طرح سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی کبھی کبھار اعصابی تناوٴ سے بچنے کی ادویات لیتے تھے۔

سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کوکوئی مستقل عارضہ تولاحق نہ تھا تاہم کہا جاتا ہے کہ وہ صحت مند اور چاق و چوبند رہنے کے لئے ملٹی وٹامن کی گولیاں استعمال کرتی رہتی تھیں۔ اسی طرح 64سالہ مولانا فضل الرمان اور 68 سالہ اسفند یار ولی کی بیماری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حامد میر کے بقول پاکستان کے میدان سیاست میں کوئی جعلی بیمار ہے اور کوئی اصلی بیمار ہے۔

موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی کھیپ میں عمران خان بظاہر تندرست اور چاق و چوبند نظر آتے ہیں لیکن ان کی سیاست بیمار ہے۔ بہرحال موجودہ سیاسی قائدین ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے رہنما گزرے ہیں جو دوران سیاست یا بعدازاں مختلف عوارض کا شکار ہے۔
 قائد اعظم محمدعلی جناح ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھے
برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی جدوجہد کرنے والے عظیم رہنما اور بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جنا ح کو 1930 میں ٹی بی یا تپ دق کا عارضہ لاحق تھا لیکن اس موذی مرض کے بارے میں قائد کے علاوہ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اور چند انتہائی قریبی اور معتمد رفقاء کے سوا کوئی واقف نہ تھا۔

مورخین کے مطابق محمدعلی جناح نے سترہ سال تک جان بوجھ کر اس بیماری کو خفیہ رکھا مباداتحر یک پاکستان متاثر ہوجائے۔ پاکستان بنانے کے دھن میں مگن وہ ڈاکٹروں کے مشوروں کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے کیونکہ اگر وہ بیماری کے آگے ہتھیار ڈال کر بستر سے چپک جاتے تو شاید پاکستان کی تخلیق کا خواب ادھورا رہ جاتا۔ بہرحال 14 اگست 1947 کو پاکستان تو بن نہ گیا لیکن قائد کی یہ بیماری لا علاج ہوگئی۔

اور پھر 11 ستمبر 1948 کوزیارت سے واپسی پرکراچی کی ایک سڑک پراس کھٹارا ایمبولینس میں زندگی کی بازی ہار گئے، جس میں نہ آکسیجن کٹ تھی اور نہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والی ادویات۔ برصغیر کی تقسیم کی نگرانی کرنے والے انگریز وائسرے لارڈ لوس ماوٴنٹ بیٹن نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر انہیں جناح صاحب کی بیماری کا علم ہوتا تو وہ تقسیم کے معاملے کولٹکا کر ان کی موت کا انتظار کرتے اور شاید پھر بھی بھی برصغیر کی تقسیم کی نوبت نہ آتی۔


 قائد ملت لیاقت علی خان کو کمر درد رہتا تھا
 تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما قائدملت لیاقت علی خان جنہیں شہید ملت کا خطاب دیا گیا، پاکستان کے پہلے غیرمنتخب وزیر اعظم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کو بے تکان کام کی وجہ سے بلڈ پریشر اور کمر در درہتا تھا تا ہم ان کی موت غیر طبعی تھی۔ 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک افغانی نے جلسے کے دوران انہیں فائرنگ کر کے شہید کردیا گیا۔


 خواجہ ناظم الدین کو بسیار خوری کی شکایت تھی
مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل تھے۔ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد انہوں نے پاکستان کے دوسرے وزیراعظم کے طور پربھی خدمات سرانجام دیں۔ کہا جا تا ہے کہ خواجہ صاحب کو کھانے پر بالکل کنٹرول نہیں تھا۔ اکثر زیادہ کھا لیتے اور پھر ہاضمے کی گولیاں کھاتے رہتے۔


گورنر جزل سرملک غلام محمد فالج کا شکار ہوئے
پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل سر ملک غلام محمد، کے حوالے سے جو بنیادی طور پر ایک چارٹرڈ
اکا ؤنٹنٹ تھے، قدرت اللہ شہاب اپنی تصنیف ''شہاب نامہ “میں لکھتے ہیں فالج کے مریض گورنر جنرل غلام کا بلڈ پریشر مستقل ہائی رہتا۔ چند قدم چلنے سے بھی معذور وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر گورنر جنرل ہاوٴس کا گشت کیا کرتے۔

ہاتھ رعشہ کی وجہ سے دستخطوں کے علاوہ کچھ لکھنے کے قابل نہ تھے۔ فالج کی وجہ سے ان کی زبان کچھ اس طرح متاثر ہوئی کہ جب گفتگو کرتے تو غوں غوں، غاں غاں اور خرخر کے علاوہ کچھ نہ نکلتا اور بات چیت کے دوران رالیں بہتی رہتیں جو مسلسل صاف کی جاتیں۔ کھاتے پیتے ہوئے کھانے کا کچھ حصہ منہ کے دونوں طرف سے باہر گرتا رہتا۔ غصے میں منہ سے جھاگ نکلنے لگتی اور جب وہ چیخ چیخ کر خود ہی نڈھال ہو جاتے تو اس انتظار میں موجود سرکاری ڈاکٹر آ جاتا جو انہیں اگلے غصے کے لئے تیار کرتا۔

ان کی گفتگو صرف ان کی امریکن سیکرٹری مس روتھ بورل ہی سمجھ پاتیں اور وہی آگے بتاتیں کہ اس وقت گورنر جنرل صاحب کیا فرمارہے ہیں؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ملک غلام کو ایک ایسے سیاسی رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے کہ جس نے سیاسی چالبازیوں کے ذریے جمہوری روایت کو پننے کا موقعہ نہیں دیا اور سول ملٹری عدم توازن کو مزید خراب کیا۔ 1951 میں عنان اقتدار سنبھالنے والے اس رہنما کو 1955 میں وزیر داخلہ اسکندرعلی مرزانے عہدے سے ہٹادیا کیونکہ ملک غلام محمد کی ذہنی اور جسمانی حالت اس قابل نہ تھی کہ وہ اس اہم منصب کا بوجھ مزید برداشت کر پاتے۔


اسکندر علی مرزا کو کثرت شراب نوشی لے ڈوبی
برطانیہ کی اعلیٰ ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل سابق فوجی افسرا سکندر علی مرزا قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہل سیکرٹری نامزد ہوئے مئی 1954ء میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے پھر وزیر داخلہ بنے۔ پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل سر ملک غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کی بناپر انھیں 6 اگست 1955 کو قائم مقام گورنر جنرل نامزد کیا، کہا جاتا ہے کہ یہ جبری تقرری تھی ،یعنی مفلوج سربراہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

گورنر جنرل غلام محمد ملک کو جبری گھر بیچنے والے اسکندر علی مرزا نے 6 اکتوبر 1955 کو پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ چند ماہ بعد 5 مارچ، 1956 کو اسکندر مرزا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور 1958 کو سیاسی ایران کے سبب ملک میں مارشل لا ء نافذ کیا۔ چوتھے اور آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر اسکندر مرزا کے ساتھ بھی وہی ہوا جو انہوں نے اپنے پیشرویعنی غلام محمد کے ساتھ کیا تھا، 27 اکتوبر کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے انھیں برطرف کر دیا اور وہ ملک چھوڑ کر اپنی بیگم کے ہمراہ لندن چلے گئے۔

اسکند مرزا، بر صغیر کی تاریخ کے انتہائی ناپسندیدہ سیاسی کردار غدار وطن کہلانے والے میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ ان کے پردادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس لئے جب ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار لٹا کر اسکندر مرزا برطانیہ میں جلاوطن ہوئے،تو برطانیہ کے جس ہوٹل میں قیام کیا اس ہوٹل کا کرایہ ملکہ برطانیہ نے ادا کیا تھا اور ان کے لئے باقاعدہ وظیفہ بھی مقرر کیا۔

پاکستان سے جلا وطنی کے بعد انہوں نے اپنی بقیہ زندگی لندن میں گزاری جہاں انہیں 3000 پاوٴنڈ پنشن ملتی تھی جس میں ان کا گزر بسر ممکن نہ تھا تاہم ان کے ایرانی اور برطانوی رفقاء نے کسی حد تک ان کی مالی اور معاشی مدد جاری رکھی۔ پاکستان میں انتہائی شاہانہ زندگی گزارنے والے اسکندر مرزا لندن میں ایک صنعتکار کے فلیٹ میں مقیم تھے، چھت تو دستیاب تھی لیکن عیاشیوں کے باعث مالی مسائل کم ہونے کا نام نہ لے رہے تھے۔

چند برس بعد کثرت شراب نوشی سے ان کے پھیپھڑے جواب دے گئے کولیسٹرول لیول خطرناک حد تک بڑھ گیا اور کانوں میں انفیکشن کی وجہ سے وہ اونچا سنے لگے۔ اپنی بیماری کے ایام میں انہوں نے اپنی بیوی ناہید مرزا کومخاطب ہو کر کہا” ہم علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ، اس لئے مجھے مرنے دو۔ بالآ خر 3 نومبر، 1969 کو وہ چل بسے۔ اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمدیحییٰ خان نے ان کی میت پاکستان لانے اور یہاں دفن کرنے سے صاف انکار کردیا تھا حتیٰ کہ ان کے رشتہ داروں کوبھی جنازہ میں شرکت سے تھی سے روک دیا گیا۔

ایران کے بادشاہ محمدرضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے اسکندر مرزا کی میت تہران لانے کا حکم دیا، جہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
وزیراعظم محمد علی بوگرہ کوئی عارضہ لاحق تھے
 مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے بازووٴں اور ٹانگوں میں اکثر در درہتا۔ 2 ماہ وزیراعظم رہنے والے چوہدری محمدعلی ادھیڑ عمری سے ہی مختلف قسم کی بیماریوں میں گھرے رہے۔

صدر اسکندر مرزا کے پرزور اصرار پر20ہزار قر ضہ لے کر وہ بیرون ملک علاج کے لئے بھی گئے اور پھر طویل علالت کے بعد 23 جنوری 1963 کو 53 برس کی عمرمیں وفات پا گئے اور ڈھاکہ میں فین ہوئے۔
 فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو دل کا عارضہ لے بیٹھا
اردن کے شاہ حسین کو عشائیہ دے کر ایوان صدر پہنچے ہی فیلڈ مارشل ایوب خان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ہفتہ بھر موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد جان کی بازی ہار گئے۔

کہا جاتا ہے کہ سابق فیلڈ مارشل بہت زیاد مسکن دواوٴں کے استعمال کی وجہ سے ایک عرصے تک سستی اور غنودگی کی کیفیت میں رہے۔
 وزیراعظم حسین شہید سہروردی بھی دل کے مریض تھے
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور ملک کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروری دل کے پرانے مریض تھے۔ اگرچہ سہروردی کی وفات کے بعد چہ مگوئیاں بھی ہوئیں کہ انہیں زہر دے کر مارا گیا ہے تا ہم سرکاری دستاویز میں درج ہے کہ انہوں نے شدید ہارٹ اٹیک کے باعث 5 دسمبر 1963 کو 71 برس کی عمر میں لبنانی دارالحکومت بیروت میں وفات پائی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

sayasatdano ki bemariyan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 April 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.