سفری پابندیوں کا حکم نامہ بحال․․․․

مسلم ممالک کیخلاف ٹرمپ کی عصیبت آشکار! امریکہ کی زمین ایران،لیبیا،صومالیہ،سوڈان،شام اور یمن کے شہریوں کیلئے تنگ پڑگئی

منگل 11 جولائی 2017

Sarfi Pabandion Ka Hukam Nama Bahaal
محبوب احمد:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی اور مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ روکنے کے حکم نامے کی سپریم کورٹ میں بحالی سے دنیا بھر کے عوام میں ایک عجیب خوف اور مایوسی چھائی ہوئی ہے۔امریکہ میں 6 مسلم ممالک جن میں ایران،لیبیا،صومالیہ،سوڈان،شام اور یمن شامل ہیں ان کے شہریوں پر سفری پابندیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ٹرمپ کا حکمنامہ بحال کردیا۔

دو وفاقی عدالتوں کی جانب سے صدارتی حکمنامے کو معطل کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہوئی تھی اور اب قابل غور امر یہ بھی ہے کہ 4 ماہ کیلئے تارکین وطن بھی امریکہ میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے لئے 2اکتوبر کی تاریخ دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

تب تک یہ حکمنامہ جزوی طور پر لاگو رہے گا۔ٹرمپ کی پالیسیوں سے مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک بھی تشویش کا شکار ہیں،یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے سے لے کر اب تک امریکہ ہمیں آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی ہے۔

امریکہ کی بعض ریاستیں ٹرمپ کی پالیسیوں کو ٹھکراتے ہوئے امریکہ سے علیحدگی کا نعرہ لگارہے ہیں۔یادرہے کہ امریکہ صدر ڈونلڈمپ نے جب اپنے منصب صدارت کا حلف اٹھایا تھا تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعصب اور نفرت کا کھلا اظہار کرتے ہوئے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے امریکہ میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کرتے ہوئے بعض مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔

حلف برداری کے بعد امریکی نیوز چینل”اے بی سی“ کو دئیے گئے ایک انٹر ویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس امر کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ 7 مسلم اکثریتی ممالک کے افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی پر ہر ممکن عمل کرائیں گے،تاہم عوامی سطح پرسامنے آنے والے اعتراض کے سبب اس معاملے میں تاخیر کا سامنا ہوا۔ٹرمپ نے جن دو حکمناموں پر دستخط کئے تھے ان میں سے ایک امریکہ میکسیکو کی سرحد دیوار کی تعمیر اور دوسرا غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری سے متعلق تھا۔

قابل غور امریہ بھی ہے کہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے اقدام سے کشیدگی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،لہذا میکسیکو نے اب امریکہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چین کا رخ کرلیا ہے،اس وقت میکسیکو چین کو 6 ارب ڈالر سالانہ کا سامان برآمد کرتا ہے جبکہ آئندہ 12 برس کے دوران وہ اسے 25 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔میکسیکو کے صدر نے قبل ازیں امریکہ پر یہ واضح کیا تھا کہ امریکہ کی جانب سے جو رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور میکسیکو دیوار کی تعمیر ہونے والے اخراجات برداشت نہیں کرے گا،یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب شمالی امریکہ میں تعاون کے نئے قوانین،تجارت،سرمایہ کاری،سکیورٹی اور امیگریشن کی بات کی جارہی ہے۔

میکسیکو اور امریکہ کے درمیان دیوار کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے،یہاں یہ بھی یاد رہے کہ میکسیکو کے صدر نے دیوار کے تنازع پر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی منسوخ کی تھی۔امریکی صدر کے تحفظات میں کس حد تک سچائی ہے کہ بعض ممالک کے جو شہری امریکہ میں داخل ہورہے ہیں ان کا تعلق داعش سے ہے اور وہ جھوٹی شناخت سے امریکہ میں داخل ہورہے ہیں،اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان،افغانستان،اورسعودی عرب سے آنے والی ویزا درخواستوں کی کڑی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔

اور ان ممالک کے شہریوں کو بھی امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے کوئی نہ کوئی تلاش کیا جارہا ہے۔ ایک طرف امریکہ اور یورپی یونین کے سرحد کو محفوظ بنانے کے اقدامات سے مہاجرین اور سیاسی پناہ لینے والوں کے لئے خطرہ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف شورش زدہ علاقوں کے مہاجرین مشکل حالات سے دوچار ہیں۔بلکہ انہیں جبری مشقت اور جنسی استحصال جیسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے،حقیقت میں مہاجرین کے حقوق کا کوئی بھی ضامن نہیں کیونکہ امیگریشن کنٹرول کے نام پر انسانی حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے۔

ٹرمپ کی نئی پالیسیوں کے بعد امریکہ میں پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لئے مہاجرین ”موت“ کی راہ پر چلنے پر مجبور ہیں اور برف پوش راستوں میں بعض اوقات جسمانی اعضاء سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔مہاجرین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان ممالک پر ہے جو خود کمزور ہیں،ایک اندازے کے مطابق 10 برس قبل دولت مند ممالک 30 فیصد اور ترقی پذید ممالک 70 فیصد مہاجرین کے میزبان تھے لیکن موجودہ حالات میں ترقی پذیر ممالک دنیا بھر کے مہاجرین کی 86 فیصد تعداد کے میزبان ہیں، جبکہ دولت مند ممالک محض14فیصدکا خیال رکھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت 23 لاکھ رجسٹرڈ جبکہ 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ ہیں۔2016ء میں افغان مہاجرین کی واپسی میں بڑی تیزی دکھائی دی اور 3 لاکھ 70 ہزار لوگ واپس افغانستان چلے گئے جبکہ 2017 میں اس تعداد میں بڑی کمی واقع ہوئی اوراب تک صرف 32 ہزار مہاجرین واپس جا چکے ہیں۔مختلف ممالک خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی،پرتشدد تنازعات اور امریکہ اور یورپ کی طرف سے مہاجرین کے حقوق کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات نے روشن مستقبل کے متلاشی تارکین وطن کو غیر قانونی راستوں سے سفر کرنے پر مجبور کردیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہزاروں تارکین وطن محفوظ مستقبل کی تلاش میں سمندری موجوں کی نذر ہورہے ہیں۔

عراق ،شام،وسطی افریقہ اور جنوبی سوڈان میں جاری لڑائی کے باعث کثیر تعداد میں لوگ بے گھر ہورہے ہیں۔شام اور افغانستان کے علاوہ دوسرے نمایاں ممالک کے مہاجرین بھی آج کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرستانہ فیصلوں پر عرب لیگ سمیت ،یورپ اور کئی مغربی ممالک نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے امتیازی قرار دیا ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ دہشت گرد کسی قومیت کا لحاظ نہیں کرتے اور اس کے جواب میں امتیازی سلوک درست نہیں ہے،لہذا دہشت گردی کیخلاف جنگ کو جواز بناکر اس قسم کے اقدامات نہی کئے جاسکتے اور کسی مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو بالعموم مشتبہ قرار دینے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ کسی کو اس کی قومیت کی بنیاد پر نشانہ بنانا بالکل غلط ہے،یہ اقدامات انتہا پسندی کو فروغ اور لوگوں کو تقسیم کرنے کا باعث بن رہے ہیں ،یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی قیام امن کیلئے کوشاں ہیں تو انہیں اپنے ان متعصانہ فیصلوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے تمام مذاہب کو برابری کی سطح پر بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sarfi Pabandion Ka Hukam Nama Bahaal is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.