پی پی کی شرط تسلیم ، برف پگھل گئی

نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیم کے مسئلے پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلافات نے پاکستان کی سیاست کو در پیش خطرات میں اضافہ کر دیا تھا۔

جمعہ 17 نومبر 2017

PPP Ki Shart Tasleem Baraf Pighal Gayi
فرخ سعید خواجہ:
نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیم کے مسئلے پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلافات نے پاکستان کی سیاست کو در پیش خطرات میں اضافہ کر دیا تھا۔ قومی حکومت، ٹیکنوکریٹ حکومت اور اس قماش کے دیگر حکومتی خاکوں کا چرچا عام تھا کہ لاہور میں میاں نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں طے کر لیا گیا کہ نئی مردم شماری کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

سو اسی روز شام کو اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں سندھ نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم پر مشروط آمادگی پر اتفاق کیا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سوموار ہی کو لاہور میں جہاں نواز شریف کی صدارت میں مسلم لیگ ن کے زعماء کا پانچ گھنٹے تک اجلاس منعقد ہوا تھا، لاہور کے علاقے مزنگ میں مرحوم جیالے سائیں ہرا کی رہائش گاہ پر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے موقع پر میڈیا کے سوالوں کے جواب میں کہا تھا کہ نئی مردم شماری متنازع ہے اور اس حوالے سے حکومت سندھ کے خط کا وفاق نے کوئی جواب نہیں دیا۔

(جاری ہے)

بلاول بھٹو زرداری نے سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے سینٹ میں اپنی عددی پوزیشن بھی باور کروائی۔ سو اس روز شام کو اسلام آباد میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں جب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے مردم شماری کے نتائج کو اس شرط پر تسلیم کرنے کا کہا کہ ایک فیصد مردم شماری بلاکس کی تیسرے فریق سے تصدیق کرائی جائے اور اس حوالے سے عوامی خدشات دور کئے جائیں۔

وفاقی حکومت میں شامل مسلم لیگ ن کے زعمانے ان کی اس شرط کو تسلیم کر لیا جس سے برف پگھل گئی۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ، الیکشن کمشن اور ادارہ شماریات کے حکام اور وفاقی حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے عام انتخابات مقررہ وقت پر کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔ سو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قبل از وقت الیکشن کروانے کا مطالبہ عملاً ختم سمجھا جانا چاہئیے کیونکہ ان کی پارٹی کے خیبر پختوانخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بھی مقررہ وقت پر الیکشن کروانے پر اتفاق رائے کر لیا ہے۔

وفاقی حکومت نے اس موقع پر سب سے وعدہ لیا کہ ایک فیصد مردم شماری بلاکس کی تیسرے فریق سے تصدیق کا کام بھی ہوگا اور اس دوران آئینی ترمیم ، نئی حلقہ بندیوں کا کام بھی ساتھ ہی ساتھ چلتا رہے گا۔ وفاقی حکومت اور مسلم لیگ ن کا اس معاملے میں قومی اتفاق رائے کروا لینا یقناً ان کی اور ان کی لیڈر شپ کی مثبت سوچ کا نتیجہ قرار پائے گا۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ بروقت انتخابات کی راہ میں آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے۔

جہاں تک مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطح اجلاس کی مزید تفصیلات کا ذکر ہے اس کی تفصیلات میڈیا میں آچکی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے پچھلے چار برس کے دوران اپنی پارٹی عظیم کو بری طرح نظر انداز کئے رکھا تھا۔ پارٹی الیکشن کروانے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی اور جب انتخابات ہوئے تو انہیں ڈنگ ٹپاؤ بنا دیا گیا۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ تک پر نہیں کیا گیا ۔

یہی صورتحال پارٹی کے بیس کیمپ پنجاب کی تھی۔ سنٹرل ورکنگ کمیٹی اور سنٹر پارلیمنٹرین بورڈ بھی تشکیل نہیں دئیے گئے تھے۔ نواز شریف کی صدارت میں جہاں پارٹی متحرک اور فعال شکل میں الیکشن 2018 میں اتارنے کی بات ہوئی تو پارٹی تنظیم کے سلسلے میں جو غفلت برتی گئی تھی اسے دور کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ملک کی بیشتر جماعتیں انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں سو مسلم لیگ ن میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ نواز شریف مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کا بھرپور انداز میں آغاز کریں۔

جبکہ دیگر لیڈران کرام بھی اس سلسلے میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ ہوا ہے لیکن مسلم لیگ ن کا بیس کیمپ پنجاب خصوصی توجہ کا حامل ہوگا۔ مسلم لیگ ن جہاں سنٹرل ورکنگ کمیٹی اور سنٹرل پارلیمنٹرین بورڈ جلد تشکیل دے گی بلکہ اپنی اضلاعی تنظیموں کے ذریعے سرکلر جاری کرے گی کہ اپنے اپنے اضلاع میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے موزوں امیدواروں کے چناؤ کا معاملہ جب سنٹرل پارلیمنٹری بورڈکی طرف بھجوائیں تو با آسانی امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ ہو سکے۔

نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے بعد مسلم لیگ ن کی واضح سوچ سامنے آئی ہے کہ ان کے قائد نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ اب تک فیئر ٹرائل نہیں کیا گیا تاہم توقع پائی جاتی ہے کہ پہلے جو کچھ ہوا سو ہوا اب انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ مسلم لیگ ن کی جان نواز شریف ہے سو مائنس نواز شریف مسلم لیگ ن کی خواہش کرنے والوں کو اپنی اس غیر حقیقی خواہش کو ختم کرنا ہوگا۔

ایک بات طے ہے کہ جب کسی پر ظلم ہوگا تو وہ چیخے اور چلائے گا اگر کوئی ظلم بھی کرے اور چیخنے بھی نہ دے تو اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے۔نواز شریف اور شریف فیملی کے خلاف مقدمات میں معزز جج صاحبان کی جانب سے جس طرح ریمارکس سامنے آتے رہے تھے ویسا عمران خان اور جہانگیر ترین کے کیسوں میں دیکھنے میں نہیں آیا ۔ سو بدلے ہوئے رویے زیر بحث تو آئیں گے۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی چائیے کہ سیاسی معاملات عدالتوں میں لے جانے کی بجائے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں بالخصوص الیکشن 2018 اب صرف چند ماہ کے فاصلے پر ہیں بہتر ہوگا کہ اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں اپنا ہوم ورک کریں تاکہ انہیں آنے والے عام انتخابات کیلئے مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے 2018 کے آنے والے انتخابی منشوروں کے مقابلے میں اپنے انتخابی منشور پیش کرنے میں اس وقت دشواری نہ ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

PPP Ki Shart Tasleem Baraf Pighal Gayi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 November 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.