پی پی پی کا سالوں بعد بلوچوں میں طاقت کا مظاہرہ

چار دن کی چاندنی کے بعد اپوزیشن میں پھوٹ پڑ گئی اور جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔

پیر 29 جنوری 2018

PPP Ka Saalon Baad Balochon Main Taqat Ka Muzahira
شہزاد چغتائی:
چار دن کی چاندنی کے بعد اپوزیشن میں پھوٹ پڑ گئی اور جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔ لاہور کے ناکام شو کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان افہام تفہیم کی سیاست انجام کوپہنچ گئی پیپلز پارٹی نے نہ صرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اورعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے خلاف سندھ اسمبلی میں مذمت کی قرارداد منظور کر لی بلکہ ایم کیو ایم مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کے خلاف متحد ہو گئیں جس کے ساتھ پی ٹی آئی کی تنہائی بڑھ گئی۔

اسمبلی میں ایم کیو ایم اورپیپلز پارٹی ایک ہو گئیں۔ پیپلز پارٹی کی غزالہ سیال اور ایم کیو ایم کے ظفر کمالی نے قرارداد پیش کی۔ تحریک انصاف کے اِکا دُکا ارکان کو اسپیکر نے بولنے کی اجازت نہیں دی، قرارداد منظورہوگئی وہ منہ تکتے رہ گئے۔

(جاری ہے)

ایوان نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ کو گالیاں دینے پرعمران خان معافی مانگیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان نے شورشرابہ کیا جس کے جواب میں رکن اسمبلی شہریار مہر نے عمران خان کے خلاف نعرے لگوا دیئے۔

پرویز مشرف کے بعد عمران خان ملک کے دوسرے رہنما ہیں جن کے خلاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے مذمت کی قرارداد منظور کر لی۔ اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات ختم ہو گئے۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے بظاہر تیار نظر آ رہی تھی۔ تحریک انصاف اس بات سے آگاہ ہے کہ آصف علی زرداری ڈرائیونگ سیٹ پر آ گئے ہیں اور حکمراں جماعت پیپلز پارٹی ہی کواپوزیشن تسلیم کرتی ہے، عمران خان کو اس کی ساختہ حقیقت سے زیادہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔

سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے بعد بلاول بھٹو بھی پہلی بار عدلیہ پربرس پڑے۔ اس سے قبل بلاول بھٹو عدلیہ کو شاباش دے رہے تھے اب انہوں نے بھی اپنی جماعت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی تائید میں عدلیہ کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنا ڈالا ہے۔ بظاہرمسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی عدلیہ اور اس کے سب سے بڑے حمائتی عمران خان کے خلاف ایک ہو گئی ہیں۔

لیکن دوسری جانب بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پیپلز پارٹی نے صوبہ پر سیاسی گرفت مضبوط کرنے کی پیش رفت شروع کر دی، اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بلوچستان میں نئے سیاسی سفر کا آغاز کر کے سب کو حیران کر دیاہے اور بلاول بھٹو کا کامیاب جلسہ عام کئی روز سے موضوع بحث بنا چلا آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے 11 سال کے بعد بلوچستان میں طاقت کا مظاہرہ کیا۔

بلاول بھٹو نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان میں جئے پاکستان کا نعرہ لگا دیا اورعلیحدگی پسندوں کو پاکستان کا پرچم تھامنے کا پیغام دیدیا۔ انہوں نے کہاکہ میری والدہ کو قتل کر دیا گیا لیکن ہم نے پاکستان زندہ باد اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا کوئی رکن صوبائی اسمبلی نہیں لیکن حب میں بلاول بھٹو کی انٹری بہت متاثر کن تھی۔

اس وقت ملک کے دو صوبوں میں عملاً پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے اور جیالوں کو یقین ہے کہ سندھ اور بلوچستان ان کے محفوظ قلعے ثابت ہوں گے۔سندھ اوربلوچستان کی سرحد کے اطراف پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک موجود ہے 2008ء میں بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت تھی لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کی عدم توجہ اورناقص سیاسی حکمت عملی کے باعث 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو کوئی نشست نہیں مل سکی اب بلاول بھٹو پارٹی کی تنظیم نو اوررکنیت سازی پر توجہ دے رہے ہیں حالانکہ 2013ء میں ناکامی کی ایک وجہ دھاندلی تھی اور ایک سازش کے تحت پیپلز پارٹی کو بلوچستان کی سیاست سے آؤٹ کرنا تھا لیکن اب بلاول بھٹو نے سرحدی شہر حب میں دبنگ انٹری دے کر اپنا ووٹ بنک واگزار کرانے کیلئے پیشرفت کی ہے پیپلز پارٹی نے بلوچستان کی اہم شخصیات اور ارکان اسمبلی تک رسائی حاصل کر لی ہے تو پیپلز پارٹی نے ان کیلئے نوٹوں کی بوریاں کھول دی ہیں۔

پیپلز پارٹی اس منصوبے پر 6 ماہ سے کام کر رہی تھی اورمسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی آصف علی زرداری سے رابطے میں تھی۔بلوچستان جہاں چند روز پہلے تک مسلم لیگ (ن) کا طوطی بولتا تھا اب پیپلز پارٹی کا گڑھ بن چکا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجوکے نام کی منظوری سابق صدر آصف علی زرداری نے دی۔ بلوچستان کے بعد ملک کی دوسری چھوٹی اسمبلیوں کی کم بختی بھی آگئی ہے اور ان پر تلوار لٹک رہی ہے پیپلز پارٹی کے حوصلے بہت بلند ہوتے جا رہے ہیں۔

کم از کم بلوچستان میں آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن ایک ہو گئے پھر ان کی ملاقات بھی ہو گئی۔ پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کی کوئی انتہا نہیں، بلوچستان میں مسلم لیگ کی حکومت ختم کرنے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا اب سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر بھی بازار لگے گا۔ ایک پاپولر جماعت کے سربراہ بلوچستان کی حکومت گرانے پر مبارکبادیں لے رہے ہیں، واہ واہ کرنے والے پرامید ہیں کہ وفاقی حکومت کو بھی وہ فارغ کریں گے۔

دلچسپ بات ہے کہ وہ اپنی جیب سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کر رہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو نزدیک لانے کیلئے مولانا فضل الرحمن جو کوشش کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سیاسی حلقے مولانا فضل الرحمن کے مشن کو کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کیلئے مسلم لیگ (ن) کو فریال تالپور کا نام بھجوا دیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ(ن) سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں کو تحلیل کرنے کی بازگشت سے خوفزدہ نہیں ہے۔

فریال تالپور اس وقت چیئرمین سینٹ بن سکتی ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کی اکثریت ہوگی بلوچستان میں کامیابی کے باوجود پیپلز پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ اس کے 27 میں سے 18 سینیٹرز ریٹائر ہو رہے ہیں، 18 نشستوں کا دوبارہ حصول بھی مشکل مرحلہ ہو گا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ اپنی حلیف جماعت کی سازشوں کا بہت زیادہ برا نہیں مان رہی کیونکہ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں بے وفائی کے ڈھیر لگانے کے باوجود مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے آصف علی زرداری کا ڈبل گیم عروج پر ہے نگراں حکومت کیلئے دونوں جماعتوں کا اشتراک وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

بلاول بھٹو کی جانب سے مسلم لیگ کے ساتھ مفاہمت کی سیاست ختم کرنے اور رابطے ختم کرنے کا اعلان بھی ایک چال ہے۔ بلاول بھٹو کے اس اعلان کے چند دن بعد مسلم لیگ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک ہو گئیں کیونکہ تینوں جماعتوں کا مشترکہ دشمن عمران خان ہیں۔ اے این پی اور جمعیت علماء اسلام بھی اس غیر اعلانیہ اتحاد کا حصہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نہ چاہتے ہوئے بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

PPP Ka Saalon Baad Balochon Main Taqat Ka Muzahira is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 January 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.