پی پی کی سندھ میں جارحانہ حکمت عملی

سندھ میں مسلم لیگ کے صوبائی صدر اسمٰعیل راہو کو ان کے عہدے سے برطرف کرکے لاڑکانہ کے بابو سرفراز جتوئی ایڈووکیٹ کو ان کا جاں نشیں مقرر کیا گیا ہے ان ہی کالموں میں ایک سے زائد بار نشاندہی کی گئی تھی کہ اسمٰعیل راہو کے پی پی قیادت سے رابطے ہیں ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور جلد ہی وہ پیپلزپارٹی کو سدھار جائیں گے۔ ان کی رخصتی سے قبل قیادت نے نوٹس لے کر انہیں غیر موثر کرنے کی کوشش کرنے کا قدم اٹھایا

جمعہ 7 اپریل 2017

PP Ki Sindh Main Jarihana Hikmat e Amli
الطاف مجاہد:
سندھ میں مسلم لیگ کے صوبائی صدر اسمٰعیل راہو کو ان کے عہدے سے برطرف کرکے لاڑکانہ کے بابو سرفراز جتوئی ایڈووکیٹ کو ان کا جاں نشیں مقرر کیا گیا ہے ان ہی کالموں میں ایک سے زائد بار نشاندہی کی گئی تھی کہ اسمٰعیل راہو کے پی پی قیادت سے رابطے ہیں ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور جلد ہی وہ پیپلزپارٹی کو سدھار جائیں گے۔ ان کی رخصتی سے قبل قیادت نے نوٹس لے کر انہیں غیر موثر کرنے کی کوشش کرنے کا قدم اٹھایا لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے قبل عرفان اور مروت حکیم بلوچ اور دیگر کے اعلانات سندھ میں ن لیگ کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا چکے تھے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کئی خواتین رہنماوٴں سمیت ایک دو ارکان اسمبلی اسے داغ مفارقت دینے والے ہیں۔

(جاری ہے)

سندھ اسمبلی میں ن لیگ کا پارلیمانی کردار محدود اور عددی اکثریت کم ہوتی جا رہی ہے۔ بکھرتے شیرازے کو مجتمع کرنے کی فکر نواز شریف کو ہے نہ کسی اور کو نتیجتاً سندھ میں پی پی قوت پکڑ رہی ہے۔ اس ہفتے تحریک انصاف سندھ کے سابق صدر نادر اکمل لغاری نے اپنے حلقہ انتخاب ڈہرکی میں جلسہ کا اہتمام کرکے پی پی میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کیا۔

اس سے قبل وہ آصف زرداری اور مراد علی شاہ سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ ضلع گھوٹکی میں نادر اکمل لغاری اور مہر برادران کے روایتی حریف خالد لوند کے پی پی جوائن کرنے کے بعد کوئی مضبوط سیاسی گروپ نہیں رہا۔ یہاں آباد دھاریجو، چاچڑ، شر، بوذدار، ڈہر، پتافی، مہر، لوند، لغاری تمام سردار اب پی پی کے ساتھ ہیں۔

ایسا ہی سندھ کے تمام اضلاع میں دیکھا جا رہا ہے اب اگر 2018ء کے الیکشن دیکھا جائے تو یکطرفہ ہوں گے۔ فنکشنل لیگ بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ امتیاز شیخ، جام مدد اور دیگر کی علیحدگی نے ایک طرف سندھ اسمبلی میں اسے کمزور کیا ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر خود نواز شریف اتحادی ہونے کے باوجود اسے اہمیت نہیں دے رہے۔ ٹھٹھہ، حیدرآباد اور کراچی اجتماعات میں پیر پگاڑا یا پیر صدرالدین راشدی کی عدم موجودگی نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ آنے والے الیکشن میں دونوں جماعتوں میں شاید وہ ہم آہنگی دیکھنے کو نہ ملے جو ماضی میں پائی جاتی تھی۔


سندھ کی پارلیمانی سیاست میں اب ایک نیا رْخ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماضی قریب کی قوم پرست، جے یو آئی‘ فنکشنل لیگ اور متحدہ و تحریک انصاف کی توپوں کا رخ پی پی کی سمت ہوتا تھا اور پی پی کی لیڈرشپ بیٹنگ لائن پر کھیلتی تھی لیکن گذشتہ ڈیڑھ دو ہفتے سے پی پی کے رہنما جارحانہ باوٴلنگ پر اتر آئے ہیں۔ وہ عام جلسوں میں عمران خان، نواز شریف، متحدہ اور سندھی قوم پرستوں کو براہ راست للکار رہے ہیں سندھ میں سیاست کا میدان کارزار گرم ہو چکا ہے یومیہ بنیادوں پر پی پی کے جلسے ہو رہے ہیں۔

لاڑکانہ اجتماع تو بھٹو کی برسی کے حوالے سے روایتی اہمیت کا ہوتا ہی ہے لیکن اس سے ہٹکر بھی سیاسی میدان میں پی پی فعال ہے اور مسلم لیگ ن‘ فنکشنل لیگ، تحریک انصاف اور سندھی قوم پرستوں کی ناراض یا گوشہ نشیں قیادت سے رابطے ہیں۔ دوسری طرف سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کو انکے آبائی ضلع میں کمزور کیا جا چکا ہے مرزا فیملی کی اعانت سے ری پولنگ میں جیتنے والے اسماعیل راہو کی پی پی سے قربت بھی مرزا خاندان کو کمزور کر گئی ہے دوسری طرف ٹنڈو الہ یار کی مگسی فیملی بھی حیدر آباد اجتماع کے بعد منقسم ہے راحیلہ مگسی اگر ٹنڈو الہ یار انتخاب لڑتی ہیں تو ان کا مقابلہ خود انکے بھائی عرفان گل مگسی اور بہن ادیبہ مگسی سے ممکن ہے یہ خاندان 2013ء کا عام اور 2015ء کا بلدیاتی الیکشن بھی نہیں جیت سکا تھا اس لئے اب میاں نواز شریف اگر خیرپور، تھر، نوشہرو فیروز، جیکب آباد اضلاع کے دورے کرتے ہیں تو انہیں اپنے اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنا پڑے گا سولو فلائٹ کا نتیجہ حیدر آباد، ٹھٹھہ اور کراچی میں وہ دیکھ چکے ہیں جہاں انہیں مثبت نتائج نہیں ملے نہ ہی ان کے ترقیاتی پیکج ملنے کے بعد ان اضلاع میں ن لیگ کی حمایت بڑھی بلکہ حیدر آباد میں ناراض رہنماوٴں کے احتجاج نے پارٹی کے داخلی خلفشار کو ہوا دی ہے پی پی کی کوشش یہ ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں بیٹھ کر ن لیگ کو چیلنج کریں اور سندھ میں مراد علی شاہ‘ نثار کھوڑو‘ خورشید شاہ و دیگر نہری پانی کی کمی‘ این ایف سی ایوارڈ‘ وفاقی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف مہم چلائیں کیونکہ سندھ میں اپوزیشن کے پاس بھاری بھر کم شخصیات موجود نہیں ہیں اور جو ہیں انہیں کسی قومی پارٹی کی سرپرستی میسر نہیں اس لئے سندھ کا تخت اقتدار 2013ء اور 2008ء کی طرح پی پی کے پاس ہی رہے بظاہر پی پی اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس میں پی پی کی خوش قسمتی کا دخل ہے ورنہ تو مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، بدامنی اور نہری پانی کی چوری، زرعی اجناس کے نامناسب نرخ اور گندم کی خریداری کے سرکاری مراکز کے عدم قیام سمیت لاتعداد مسائل ہیں جن پر اپوزیشن سڑکوں پر نکلے اور پی پی کو چیلنج کرے تو جیالی حکومت کو جائے امان نہ ملے۔

شومئی قسمت کہ آصف زرداری کے مخالف ان کی جماعت اور سرکار کو علیحدہ علیحدہ چیلنج کرتے ہیں اور ناکامی پر مخالفت کا بھاری پتھر چوم کر رکھ دیتے ہیں۔ موثر منصوبہ بندی اور مضبوط عوامی رابطے ہوں تو سندھ کا سیاسی منظرنامہ آسانی بدلا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

PP Ki Sindh Main Jarihana Hikmat e Amli is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 April 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.