پیپلز پارٹی کو ہوم گراؤنڈ میں مشکلات کاسامنا

اسد کھرل کی گرفتاری۔۔۔ رضاکارانہ طور پر لندن سے آنے والے قادر پٹیل کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑگئی

بدھ 2 اگست 2017

Peopls Party Ko Home Ground Main Mushkilat Ka Samna
سالک مجید:
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب اسد کھرل کی حیدرآباد سے گرفتاری نے پیپلز پارٹی کی قیادت اور صوبائی حکومت کیلئے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو جنہوں نے اب تک مشکل حالات میں خود کو مردبحران ثابت کیا ہے اب کہتے ہیں کہ ہم نیک بھی نہیں کہا کمہ رینجرز اندرون سندھ کاروائیاں نہیں کرسکتی۔

ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ خصوصی اختیارات صرف کراچی کے لئے دیئے تھے۔ رینجرز کے قیام اور اختیارات میں توسیع کا معاملہ بھی لٹک گیا جس کی وجہ سے کراچی آپریشن متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا اور کئی اہم سوالات نے جنم لیا لیکن وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے وفاقی حکومت کی بالادستی ظاہر کرتے ہوئے بیان داغ دیا کہ سندھ حکومت اجازت دے نہ دے۔

(جاری ہے)

رینجرز وہاں رہے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اس حوالے سے اہم فیصلوں کے لئے مشاورت کررہی ہے اور دوبئی میں پی پی کے بڑے جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ اسد کھرل کا تنازعہ لاڑکانہ سے شروع ہوا تھا جب رینجرز کی حراست سے اسے چھڑا لیا گیا تھا اسد کھرل کو مبینہ طور پر وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال کا فرنٹ میں کہا جاتا ہے اور اس پر دیگر الزامات کے حوالے سے بھی تحقیقاتی ادارے کام کر رہے ہیں لاڑکانہ کے واقعہ پر رینجرز نے اپنی تشویش اور ناراضگی سے وزیراعلیٰ سندھ سمیت اعلیٰ حکام کا آگاہ کردیا تھا اور یہ اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ مطلوب افراد کر ہر قیمت پر قانون کی گرفت میں لایا جائے گا اور بالآخر اسد کھرل کی گرفتاری عمل میں آگئی جس سے تفتیش کو متعلقہ ادارے بڑی اہمیت دے رہے ہیں اور مزید اہم انکشافات کی توقع کی جارہی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادے اویس شاہ کے اغوا کے حوالے سے لاڑکانہ سے مسلم لیگ (قاف)کے رہنما بابو سر ورسیال نے دھماکہ خیز بیان داغ دیا تھا کہ صوبائی وزیر داخلہ اور ان کے لوگ چیف جسٹس ہائیکورٹ کے صاحبزادے کے اغوا میں ملوث ہیں اور یہ لوگ دہشت گرد ہیں۔ کراچی سے آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر لاڑکانہ اور اندرون سندھ آکر چھپے ہوتے ہیں۔

سندھ پولیس نے سرور سیال کے اس بیان پر اسے شامل تفتیش کرنے اور بیان قلمبند کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا کے اتنے میں ٹانک سے خبر آگئی کہ دہشت گردوں سے مقابلے کے بعد چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا ہے اور اسے افغانستان لے جانے کی کوشش کرنے والے دہشت گرد اغوا کار مارے گئے ہیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے رات تین بجے فون کرکے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو خوشخبری سناتی پھر بعد میں اویس شاہ کے والد سے فون پر بات کرائی گئی اور پھر خصوصی طیارے کے ذریعے اویس شاہ کو کراچی پہنچا یا گیا اور گھر لے جایا گیا۔

اویش شاہ کی بحفاظت بازیابی پر وزیراعظم نواز شرف اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی سمیت تمام ججوں اور سرکردہ سیاسی شخصیات نے چیف جسٹس سندھ ہائی ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کو مبارکباد پیش کی۔ اویس شاہ نے پولیس کو اپنے اغوا سے بازیابی تک کی کہانی بھی بیان کردی جس کی روشنی میں پولیس نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی لیکن سپریم کورٹ کے بنچ نے کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران پولیس کی جمع کرائی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا اور سی سی ٹی وی کیمروں کے حوالے سے رپورٹ اگلی سماعت پر طلب کرلی۔

خود اویس شاہ کے مطابق انہیں چار سے پانچ مسلح افراد نے کراچی سے اغواء کیا ایک ٹانگ پرپستول رکھا دوسرا بولا اسے شوٹ کردو تیسرا بولااسے زندہ لے کرجانا ہے۔ وہ لوگ کراچی سے باہر لے جانا چاہتے تھے بارہ روز تک کراچی میں ہی رکھا۔ آپس میں پشتو میں بات چیت کرتے تھے ان کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں ایک روز موقعہ مل گیا تو مجھے کراچے سے باہر لے گئے رات سکھر میں گزری پھر آگے لے گئے۔

جب گاڑی پر فائرنگ ہوئی تو مجھے گاڑی میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اویس شاہ کی بازیابی کے لئے کئی کاروائی کو کامیاب تو قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ اویس شاہ بحفاظت بازیاب ہوگئے لیکن کئی سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کراچی سے ٹانک تک پہنچے کیسے؟ راستے میں سکیورٹی اور چیکنگ پر مامور عملہ اور اس کی کارکردگی؟مقابلے میں دہشت گردوں کو زندہ پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی وغیرہ وغیرہ۔

اب جبکہ اویس شاہ بحفاظت گھر پہنچ گیا ہے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کے لئے بڑا سوال یہ ہونا چاہیے کہ اس اغواء کا ماسٹر مائنڈ کون تھا اور اس راستے کے سہولت کار کون کون تھے؟ ان کے گرد گھیرا تنگ کرکے اصل حقائق عوام کے سامنے جلد از جلد لانے چاہئیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے رہنما عبدالقادر پٹیل کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑگئی ہے حالانکہ وہ رضاکارانہ طور پرلندن سے کراچی آئے تھے اور رینجرز کو جو معلومات درکار تھی اس حوالے سے تعاون کررہے تھے۔

ڈاکٹر عاصم کیس میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے علاج کے حوالے سے قادر پٹیل کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اس وقت خود تھانے جا کر گرفتاری دے دی جب الیکٹرانک میڈیا پر یہ خبریں چلائی گئیں کہ ضمانت مسترد ہونے کے بعد قادر پٹیل فرار ہوگئے جبکہ وسیم اختر، رؤف صدیقی بھی ایم کیو ایم کے رہنما ہیں یہ دونوں سندھ کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں جبکہ مصطفی کمال کے ساتھ پاکستان آکر نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی بنانے والے پارٹی کے صدر انیس قائم خانی بھی گرفتار کرلئے گئے ہیں ان رہنماؤں کی گرفتاریوں پر ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

ہائی کورٹ نے انیس قائم خانی کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ رؤف صدیقی کی درخواست ضمانت کی فوری سماعت کی استدعا بھی مسترد کردی گئی۔ وسیم اختر کو عدالت نے 4 روزہ ریمانڈ پر آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ان کے وکیل کے مطابق انہیں ایم کیو ایم سے تعصب رکھنے والے پولیس افسر کے حوالے کیا گیاہے جو غیر قانونی کاموں کی شہرت رکھتا ہے۔ سندھ کا سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے اور آنے والے دنوں میں سیاسی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Peopls Party Ko Home Ground Main Mushkilat Ka Samna is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 02 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.