پارٹی قائد کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں!

پچھلے دو روز قومی سیاست میں غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنی ”کچن کیبنٹ“ کا غیر معمولی اجلاس” لندن“ میں طلب کیا تو سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں۔

جمعہ 3 نومبر 2017

Party Qaid Ke Bagair Koi Feslah Mumkin Nahi
نواز رضا :
پچھلے دو روز قومی سیاست میں غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنی ”کچن کیبنٹ“ کا غیر معمولی اجلاس” لندن“ میں طلب کیا تو سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں۔ میاں نواز شریف عمرہ کی ادائیگی اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے بعد لندن پہنچے جب کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پاکستان سے لندن پہنچے وزیر خارجہ خواجہ آصف جو سعودی عرب میں مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے سلسلے میں خصوصی طیارے میں سعودی عرب گئے تھے وہ بھی مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں شرکت کے بعد لندن پہنچ گئے۔

البتہ وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر محمد اسحق ڈار بھی جو قازقستان کے دورے پر تھے لندن اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچ گئے تاہم مسلم لیگ (ن) کے غیر معمولی نوعیت کے اجلاس میں میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی چوہدری نثار علی خان کی کمی محسوس کی گئی ایک وقت تھا ۔

(جاری ہے)

میاں نواز شریف چوہدری نثار علی خان سے مشاورت کئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے آج کان بھرنے والے کچھ لوگوں نے میاں نواز شریف کو ”مسلم لیگ کے دماغ“ کی مشاورت سے ”بے نیاز “کر دیا ممکن ہے میاں نواز شریف انہیں لندن آنے کی زحمت دینا نہیں چاہتے ہوں ۔

لیکن چوہدری نثار علی خان جیسا ”خودار سیاست دان“ بن بلائے کسی کے ہاں جانا پسند نہیں کرتا چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف حکومت اور پارٹی کو موجودہ بحران سے نکالنے کے یکساں سوچ رکھتے ہیں اس لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ میاں شہباز شریف نے لندن اجلاس میں اسی نکتہ نظر کو پیش کیا جس کا اظہار چوہدری نثار علی خان شروع دن سے کر رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف میں لندن میں ہونے والے مسلم لیگی قیادت کے اجلاس بارے میں سخت تشویش پائی جا تی تھی۔ اگرچہ بند کمرے کئے جانے فیصلوں کے بارے کچھ حلقوں میں تشویش پائی جاتی تھی لندن میں ہونے والے اجلاس کو ”لندن“ پلان کا نام دیا جا رہا تھا۔ لندن اجلاس کے اختتام پر کوئی باضابطہ اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا لیکن سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اوروزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اجلاس کے اختتام پر صحافیوں کے تند و تیز اور چبھتے سوالات کے جواب میں واضح کر دیا ”مائنس نواز “ فارمولہ مسترد کر دیا گیا ہے میاں نواز شریف ہی پارٹی کی قیادت کریں گے۔

سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ” کوئی مائنس نواز فارمولا زیرغور نہیں اور پارٹی میں کوئی تقسیم نہیں۔2 نومبر 2017ء کو پاکستان واپس جا رہا ہوں اور 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوںگا۔ عدالت میں جو ٹرائل ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، مجھے فیئر ٹرائل نہیں ملا، اگر مجھے فیئر ٹرائل ملتا تو اقامہ پر نااہل نہ کیا جاتا‘ میں سب دیکھ اور سمجھ رہا ہوں کہ کیا ہورہا ہے“ میاں نواز شریف نے انتہائی ”محتاط “ انداز میں ٹرائل کے بارے اپنا موقف پیش کر دیا ہے انہوں نے ریاستی اداروں پر بھی تنقید سے گریز کیا ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ” انہیں انصاف نہیں ملا“ شنید ہے لندن اجلاس میں طے کیا گیا کہ” مائنس نواز فارمولے“ کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائیگی ،لانگ ٹرم یا شارٹ ٹرم مائنس نواز فارمولا بھی کسی بھی صورت قبول نہیں ہوگا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نوازشریف پارٹی صدر رہیں گے مسلم لیگ(ن)کو 2018ءکے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ نوازشریف کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا،نوازشریف جمعہ کو احتساب عدالت میں پیش ہونگے،نوازشریف سے ذاتی ملاقات تھی۔ نوازشریف سے ملاقات معمول کا حصہ ہے یہ نجی ملاقات تھی حکومت سے ایک دن کی چھٹی لی ہے۔ اب واپس جا رہا ہوں“۔ ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ عدالت میں جاکر دیکھ لیں کہ فیئر ٹرائل ہو رہا ہے یا نہیں۔

جب ایک صحافی نے پوچھا کیا مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ عمل شروع ہو گیا ہے اور شہباز شریف کو پارٹی صدر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ وزیراعظم نے کہاکہ مسلم لیگ ن کو کون توڑ رہا ہے کون شہباز شریف کو صدر لا رہا ہے؟ مسلم لیگ ن میں تقسیم کی باتیں محض افواہیں ہیں۔ میاں نواز شریف نے یہ کہہ کر ”مائنس ون“ کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کہ ”مائنس یا پلس “ کا فیصلہ کوئی فرد نہیں عوام کریں گے لندن اجلاس کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے سیاسی نوعیت کا اہم ترین لندن میں منعقد کرنے پر سب سے زیادہ پریشانی تحریک انصاف کو ہوئی ہے ۔

عمران خان نے نواز شریف کی وکٹ گرنے کے بعد اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ میاں شہباز شریف کو اپنا ٹارگٹ بنا رکھا ہے دوسری طرف انہوں نے اگلے سال کے وسط میں ہونے والے انتخابات کی ابھی سے تیاری شروع کر دی ہے ۔پنجاب میں پیپلز پارٹی ”واش آﺅٹ“ چکی ہے جب کہ پنجاب کے میدانوں میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ ہو گا پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتیں اس وقت انتخابی مہم میں مصروف ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) گو مگو کی کیفیت کا شکار ہے۔

ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں اپنی پارٹی سے اس بات کی بھی شکایت ہے کہ پارٹی کی بجائے ذاتیات پر توجہ دی جا رہی ہے ان کے ان ریمارکس پر پارٹی کے اندر بھی ایک بحث شروع ہو گئی ہے انہوں نے کہا کہ” عدالت سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے۔میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے عدالت جانے اور وزیراعظم کے خطاب کی مخالفت کی تھی عدالت کے فیصلوں پر اعتراض کیا جاسکتا ہے فوج کے ساتھ محاذ آرائی تھی ہی نہیں، وہ پیداہوگئی، یہ محاذ آرائی جے آئی ٹی کی وجہ سے پیدا ہوئی ، میرا موقف تھا کہ فوج سے مل کر جے آئی ٹی سے متعلق تحفظات دور کی جا سکتی تھی امریکی تحقیقاتی ادارے گلوبل سٹریٹیجک پارٹنرز کے پاکستان کے عوام کے تازہ ترین سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن) بدستور مقبول ترین جماعت ہے اسے 38 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے اسے مقبولیت میں پہلی پوزیشن حاصل ہے پی ٹی آئی کو 27 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے اور دوسری پوزیشن پر ہے عمران خان اور شہباز شریف میں سے 53 فیصد لوگوں نے شہباز شریف کو اچھا وزیراعظم 39 فیصد نے عمران خان کے حق میں رائے دی۔

مریم نواز اور عمران خان کے حوالے سے 42فیصد نے مریم اور 46فیصد نے عمران خان کے حق میں رائے دی َ26فیصد نے پی ٹی آئی کو ناتجربہ کار، 10فیصد نے عمران خان سے ناپسندیدگی، 5 فیصد نے مغربی کلچر کو فروغ دینے کا الزام لگایا،پنجاب میں 58 فیصد عوام میں مسلم لیگ (ن) اور کے پی کے میں 62 فیصد نے پی ٹی آئی کو پسند کیا ہے،65 فیصد نے شہباز شریف ،59نواز شریف، 51 عمران خان، 49 مریم نواز، 47بلاول بھٹو، 41کلثوم نواز اور39 فیصد لوگوں نے شاہد خاقان عباسی کو پسند کیا ہے۔

عوام کی اکثریت نے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم کیلئے موزوں ترین امیدوار کے طور پر پسند کیا ہے43 فیصد لوگو ں نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) رائے شماری کے امتحان میں 38 فیصد کے ساتھ سرفہرست رہی‘ پاکستان تحریک انصاف مضبوط حریف کے طور پر 27 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر اور پاکستان پیپلز پارٹی 17 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔

گذشتہ رروز قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت منعقدہ پارلیمانی رہنماﺅں کے اجلاس میں قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستیں برقرار رکھنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے تاہم نئی حلقہ بندیوں کے لئے آئینی ترمیم لائی جائے گی جمعرات یا جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل منظور کرایا جائے گا جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

تحصیل سطح کا ڈیٹا آج ہونے والے اجلاس میں پیش کیا جائے گا، آبادی کے تناسب نشستیں نہیں بڑھائی جائیں گی بل کے متن کے مطابق قومی اسمبلی میں پنجاب کی 9 نشستیں کم ہوجائیں گی جن میں7 جنرل اور 2 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی قومی اسمبلی میں 5 نشستوں کا اضافہ ہوگا جن میں 4 جنرل اور ایک مخصوص نشست شامل ہے۔بلوچستان میں مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 3 نشستوں کا اضافہ ہوگا جن میں2 جنرل اور ایک مخصوص نشست شامل ہے، اسلام آباد کی ایک نشست کا اضافہ کیا جائے گا جب کہ سندھ کی قومی اسمبلی میں موجودہ نشستیں برقرار رہیں گی۔

قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 272 نشستوں پر ارکان براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنہیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ نئی مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی میں نشستوں کے رد و بدل بارے میں آئینی ترمیم کی منظوری سے پنجاب کی 9نشستیں کم ہو جائیں گی اب دیکھنا یہ ہے آئینی ترمیم کی بیل منڈھے چڑھتی ہے کہ نہیں۔ پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کو ہی اپنی نشستیں کم کرنے کی منظوری دینا پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Party Qaid Ke Bagair Koi Feslah Mumkin Nahi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 November 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.