پانامہ لیکس اور پاکستانی عوام

ترقی کے اس دور میں گندے نالوں میں بچے گر رہے ہیں۔ عام گلی محلوں سے بچے اغوا کئے جا رہے ہیں۔ بسوں،یگنوں اور ٹرینوں کے حادثات روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشوں پر کئی زندگیاں قتل قتال کی نذر ہو جاتی ہیں۔ تیزاب گردی ہمارے ملک میں عام ہے۔ فرقہ پرستی کا زہر اثر خطاب جاری ہے۔ بچوں کے اعضا کاکاروبار ہو رہا ہے۔ بچوں سے اینٹیں بنوائی جا رہی ہیں

جمعرات 24 نومبر 2016

Panama Leaks Or Pakistani Awam
ترقی کے اس دور میں گندے نالوں میں بچے گر رہے ہیں۔ عام گلی محلوں سے بچے اغوا کئے جا رہے ہیں۔ بسوں،یگنوں اور ٹرینوں کے حادثات روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشوں پر کئی زندگیاں قتل قتال کی نذر ہو جاتی ہیں۔ تیزاب گردی ہمارے ملک میں عام ہے۔ فرقہ پرستی کا زہر اثر خطاب جاری ہے۔ بچوں کے اعضا کاکاروبار ہو رہا ہے۔ بچوں سے اینٹیں بنوائی جا رہی ہیں ۔

بچوں سے سائیکل ‘ موٹرسائیکل اور کار ورکشاپ پر چھوٹے کا کردار ادا کروایا جا رہا ہے۔ ہر دکان پر بچہ صبح سویرے جھاڑو دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہر سڑک پر بچے ریڑھی چلاتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کے والدین مہنگائی کی وجہ سے نہ تو بچوں کو تعلیم دلوا سکتے ہیں‘ نہ ہی ان کی کمائی کے بغیر انہیں دو وقت کی روٹی فراہم کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

دوائی یا لباس تو دور کی بات ہے۔

بچے اگر گندے نالوں میں گر جائیں تو انہیں ان گندے نالوں سے نکالا نہیں جا سکتا کیونکہ نہ ہی وہاں پر مشینری ہوتی ہے اور نہ ہی بجلی کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہے۔ پھر سننے میں آتا ہے کہ نالے میں گرے ہوئے بچے کی لاش کو مناسب لائٹ کا بندوبست نہ ہونے پر کل صبح تک ریسکیو کا کام روک دیا گیا ہے۔ شہر کی چند بڑی سڑکوں کے علاوہ پرانے یعنی اندرون شہر کا برا حال ہے۔

ہر سڑک ہر گلی ایسے لگتی ہے کہ یہ سڑک یا یہ گلی تیس چالیس سال پہلے بنی تھی اور اب اس کا پرسان حال کوئی نہیں۔ ۹۶ سال گزرنے کے باوجود بھی ملک میں ہر طرف لوڈشیڈنگ کا دور دورہ ہے۔ بجلی کی ‘ سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ عوام کی زندگی کا حصہ ہے۔ نہ پانی وقت پر آتا ہے نہ گیس اور نہ ہی بجلی جا کر واپس وقت پر آتی ہے۔ سوائے بلوں کے جو صرف وقت پر یا وقت سے پہلے آتے ہیں۔

پاکستان میں وقت پر نہ پہلے کبھی کوئی کام ہوا اور نہ ہی آئندہ کوئی کام وقت پر ہوتا نظر آتا ہے۔ ماسوائے یوٹیلٹی بلوں کے یا ٹیکس والوں کی ٹیکس وصولی کے اور کوئی کام وقت پر ہو جائے تو عوام بیچاری اس خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ اب قیامت قریب ہے یا ایک عجیب سی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ ان کے سرکاری اہل کار شاید سدھر گئے ہیں۔ بچوں کی ناگفتہ بہ حالت کے علاوہ بوڑھے بزرگوں کا بھی پاکستان میں کوئی پرسان حاصل نہیں۔

نہ ان کا کوئی مفت علاج ہے اور نہ ہی بزرگوں کا کوئی وظیفہ مقرر ہے۔ قیامت ہے کہ انسان نوع انسان کا شکاری ہے۔ یہ ملک پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جتنے مدارس ،مساجد، مبلغ‘ تبلیغ،اسلامی تہوار، اسلامی اجتماع ہمارے ملک میں ہیں کہیں اور نہیں۔ بے عملی، بے حیائی، فحاشی اور عریانی ہمارے ملک میں عام ہو گئے ہیں۔ جتنے مسائل ہمارے ہیں کسی69 سالہ پرانے ملک کے نہیں۔

آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
69سال بعد بھی ہمارے شہروں میں گندے نالے بہتے ہیں۔ کہیں نالہ لئی ہے تو کہیں نالہ گجر ہے۔ ان نالوں کو بند کر کے نکاسی آب کا کوئی مناسب اور محفوظ بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا کہ آئے دن معصوم جانوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ 69 سال بعد بھی ہمارے ملک میں ٹریفک حادثات کو روکا یا کم نہیں کیا جا سکا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی حکومتوں سے لیکر چھوٹی حکومتوں تک اور پھر چھوٹی حکومتوں یعنی صوبائی حکومتوں سے لیکر بلدیاتی نظام تک حکومتیں قائم تو ہو جاتی ہیں مگر انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ پہلے پہل تو حکومتوں کے اہلکار لوٹ کھسوٹ میں غرق ہو جاتے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ سے باقی جو وقت ملتا ہے وہ وقت اپنی حکومت کو بچانے میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ پہلے دن سے ہی پاکستان کے جمہوری اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔

پہلے دس سال تو نہ آئین بن سکا اور نہ ہی مضبوط حکومت۔ یعنی پہلے دن سے ہی حکومتیں نہ تو کام کرتی نظر آئیں اور جو حکومتیں کام کرنا چاہتی ہیں انہیں کام کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ پہلے دس سال وزیراعظم کو آٹھ دس ماہ کے اندر رخصت کر دیا جاتا رہا۔ ایسے وزیراعظم بھی آئے کہ جنہیں دوچار ماہ میں ہی رخصت کر دیا جاتا رہا۔ پھر ایوب ،ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے تیس سالہ آمریت کا دور آگیا۔

فوجی حکومتیں اپنے طریقہ کار لے کر آتی ہیں۔ ملک میں امن و امان تو قائم ہو جاتا ہے مگر عام شہری کو فائدہ کم ہی ملتا ہے۔ جمہوری حکومتیں جب قائم ہوتی ہیں تو وزیراعظم پہلے دن سے ہی زیر عتاب آ جاتے ہیں جس دن وزیراعظم حلف اٹھاتا ہے اس دن صرف چند گھنٹوں کے بعد بیانات آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب ناکام ہو گئے ہیں۔ چند دنوں کے بعد بیانات آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔

دس دس ‘ بیس بیس سال پرانے کاموں کی امید لگائی جاتی ہے کہ پرانے کام دس ماہ میں ہو جائیں گے۔
مضبوط اپوزیشن ایک اچھی بات ہے مگر فسادی اپوزیشن ملک و قوم کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں۔ اب ساری قوم کی نظر پانامہ لیکس کی طرف لگا دی گئی ہے نہ کوئی واضع ثبوت ہیں اور نہ ہی عمران خان کے پاس کوئی اعلیٰ پائے کا وکیل ہے۔ وہ امور ریاست کو بھی کرکٹ میچ کی طرچ چلائے کھڑے ہیں ۔

پہلے دھرنے سے پورا سال حکومت اور قوم کا وقت ضائع کیا گیا اور اب پانامہ پر ملک و قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے۔ ایک ثبوت بھی موجود نہیں۔ ثبوت وہ لوگ لاتے ہیں جو الزامات لگاتے ہیں۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ جس پر الزام لگایا گیا ہے وہ خود آکر بتائے کہ اس نے یہ غلط کام کیسے کیا ہے ۔ یوسف رضا گیلانی کو خط نہ لکھنے کے الزام میں چلتا کیا گیا پھر خط لکھنے کے بعد کیا ملا۔

اور اب نوازشریف کو پانامہ میں الجھا دیا گیا ہے۔ سارے وزرا مشیر اور تمام تر سرکاری مشینری اپنی حکومت کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ 25 تیس سال پہلے کی رقم ملک سے باہر گئی یا نہیں اب اسے واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 65 سالہ عمران خان کو ملکی مسائل کا شاید علم ہی نہیں وہ غربت اور مہنگائی کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتا۔ بے روزگاری اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات نہیں کرتا۔ عمران خان صرف نوازشریف کو ختم کرنے کی بات کرتا ہے۔ سیاست میں سب سے اہم چیز برداشت ہے اور وہ عمران خان کے پاس نہیں ہے۔ برداشت کیلئے پاکستانی عوام جو ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Panama Leaks Or Pakistani Awam is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 November 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.