پانامہ کیس۔۔دراز ہوتی تحقیقات منطقی انجام کے قریب

پانامہ پیپرز لیکس پر قائم کردہ جے آئی ٹی کی کارروائی کا ”کاؤنٹ ڈاؤن“ شروع ہو گیا ہے۔ جے آئی ٹی 10 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کرائے گی۔اس کی تحقیقات اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے جے آئی ٹی کو اپنی رپورٹ پیش کرنے میں جلدی ہے

جمعہ 7 جولائی 2017

Panama Case
نواز رضا:
پانامہ پیپرز لیکس پر قائم کردہ جے آئی ٹی کی کارروائی کا ”کاؤنٹ ڈاؤن“ شروع ہو گیا ہے۔ جے آئی ٹی 10 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کرائے گی۔اس کی تحقیقات اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے جے آئی ٹی کو اپنی رپورٹ پیش کرنے میں جلدی ہے اس لئے وہ چھٹیوں کے ایام میں بھی رپورٹ تیار کر رہی ہے۔

بیگم کلثوم نواز کے سوا شریف خاندان کا کوئی فرد بچا نہیں جو تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوا ہو۔حتی کہ اب وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی پیش ہونا پڑا وہ اپنے صاحبزادے جنید صفدر کی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کے لئے برطانیہ میں مقیم تھیں۔ وہ اپنی مصروفیات منسوخ کر کے اسلام آبادپہنچ گئیں اور اپنا موقف جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا۔

(جاری ہے)

ان کی جی آئی ٹی کے سامنے پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف ،وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ، وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں حسن و حسین ، وزیر اعظم کے داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر اور وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور محمد اسحق ڈار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ حسن نواز تو تین بار اور حسین نواز چھ بار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔

اسی طرح وزیر اعظم کے کزن 79سالہ طارق شفیع بھی دوبار جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ان کے ساتھ جے آئی ٹی کے دو ارکان نے جو سلوک کیا وہ ریکارڈ پر موجود ہے انہیں سپریم کورٹ میں دئیے گئے بیان حلفی کو واپس لینے پر ڈرایا دھمکایا گیا تعاون نہ کرنے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی گئیں ایک گواہ کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا گیا کہ وہ آگ سے کھیل رہا ہے نواز شریف کو کچھ ہو یا نہ ہو تم جیل چلے جاؤ گے جاوید کیانی سمیت کچھ اور گواہوں کو ”وعدہ معاف “ گواہ بننے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔

کیپٹن (ر) محمد صفدر نے تو جے آئی ٹی کا پول کھول دیا انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ جے آئی ٹی کو باہر سوالات آرہے تھے۔”وٹس ایپ “پر جس طرح جے آئی ٹی کے ارکان کی نامزدگی کی گئی وہ بھی ایک پوری کہانی ہے جس کی تردید نہیں آئی۔ جے آئی ٹی نے جس طرح حسین نواز کو بلوا کر باہر بٹھائے رکھا اور ان کی تذلیل کی گئی حسین نواز کی تصویر لیک گئی۔ الغرض جے آئی ٹی نے ابتدا ء میں ہی طرز عمل سے اپنے آپ کو متنازعہ بنالیا۔

مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو بھی جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کا موقع ہاتھ جانے نہیں دیاسے اب تو مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی توپوں کا رخ مکمل طور پرجے آئی ٹی طرف ہو گیا ہے اور وہ کھلم کھلا جے آئی ٹی کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے جے آئی ٹی دستاویزات کے لئے برطانیہ یا دیگر ملکوں میں جائے گی اور نہ ہی قطری شہزادے کے متنازعہ خط کی تصدیق کرنے کی زحمت گوارہ کرے گی۔

مسلم لیگی قیادت جے آئی ٹی کے قطری شہزادے کا انٹرویو لینے سے انکار کرنے پر سراپا احتجاج ہے اور برملا یہ بات کہہ دی ہے کہ اگر جے آئی ٹی نے قطری شہزادے سے ملاقات کئے بغیر سپریم کورٹ پیش کی تو وہ اسے قبول نہیں کر ے گی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے جے آئی ٹی کی تمام تر توجہ حدیبیہ پیپرز ملز اور چوہدری شوگر ملز کے معاملات پر مرکوز ہے چونکہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا نام پانامہ پیپرز لیکس میں نہیں ہے لہذا جے آئی ٹی ان دو کارخانوں کے بارے میں بند کی گئی فائلوں میں سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کا نام تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

شایدجے آئی ٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف کیس بنانا مقصود ہے تو ان دو کارخانوں میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف کوئی مواد ملنے پر ہی ایسا کر سکتی ہے۔ جے آئی ٹی کے بارے معلوم ہو ا ہے کہ اس کے بیشتر ارکان کو تیار کردہ رپورٹ کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ ان سے رپورٹ کے مندرجات پڑھے بغیر دستخط کروائے جا رہے ہیں۔

کسی کو اس بارے میں علم نہیں کون رپورٹ تحریر کر رہا ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے مخالفین کو جس طرح ان کے خلاف گواہی دینے کے لئے بلایا جا رہا ہے اور ان پر ”وعدہ معاف“ گواہ بننے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی ہر قیمت پر وزیر اعظم محمدنواز شریف پر ”فرد جرم“ عائد کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے سیاسی امور آصف کرمانی نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کو بھی بلا کر رہی سہی کسر بھی نکال لے پانامہ پیپرز لیکس کیس میں میاں نواز شریف کا نام ہی نہیں پانامہ پیپرز لیکس میں جن دوسرے سیاست دانوں کے نام شامل ہیں جے آئی ٹی نے ان کے بارے میں” خاموشی “ اختیار کر رکھی ہے کیا یہ سیاست دان آئین اور قانون سے بالاتر ہیں مسلم لیگی قیادت کی طرف سے ”واویلا اور شور شرابہ“ کا جواز بنتا ہے کہ صرف ”شریف خاندان“ کا احتساب ہو رہا ہے ڈاکٹر آصف کرمانی کے موقف میں خاصا وزن پایا جاتا ہے جے آئی ٹی جس تیز رفتاری سے کام کر رہی ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

وہ جتنی جلدی ممکن ہو وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف چارچ شیٹ تیار کرنا چاہتی ہے اس تیز رفتاری میں جے آئی ٹی قطری شہزادے سے اس کے خط کی تصدیق کرنا ہی بھول گئی ہے وہ اسے سوالنامہ بھیجنے یا ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لئے تیار نہیں اس بات کاقوی امکان ہے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ہی تسلیم نہ کرے اور اسے جانبدارانہ قرار دے کر مسترد کر دے بہر حال10جولائی 2017ء دور نہیں ان سطور کی اشاعت کے چارروز بعد جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دے گی۔

جس کی روشنی میں سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ کر ے گی کہ موسم گرما کی تعطیلات میں بھی پانامہ پیپرز لیکس کیس کی مزید سماعت کرنی ہے کہ نہیں اس وقت پورے ملک کی سیاست جے آئی ٹی کے گرد گھوم رہی ہے نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے جے آئی ٹی سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ بڑی بے تابی سے نواز شریف کی ”نا اہلی“ کا انتظار کر رہے ہیں۔ عمران خان نے دھمکی آمیز رویہ اختیار کر لیا ہے وہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کو انتخابی میدان میں شکست دینے سے رہے اب وہ انہیں” نا اہل“ قرار دلوا کر سیاسی میدان میں پیدا ہونے والا خلا ء کو پر کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے بھی جولائی / اگست 2017ء میں اپنی سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے فیصلہ کر لیاہے اس مقصد کے لئے مسلم لیگ (ن) کی تمام ضلعی شاخوں کو ”سٹینڈ بائی “ رہنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں لہذا کسی وقت بھی مسلم لگی کارکنوں کو سڑکوں پر نکلنے کی کال دی جا سکتی ہے۔

وزیر اعظم کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز تیسری بار جے آئی ٹی کے بلائے جانے کھل کر بات کی ہے اور کہا ہے کہ ”مسئلہ صرف نوازشریف کا ہے ان کے بچوں کا نہیں۔ بچوں کو نوازشریف پر دباوٴ ڈالنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حسن نواز، حسین نواز یا مریم نواز سے کوئی مسئلہ نہیں وہ چاہیں ہمیں 100 دفعہ بلائیں، ہم 100 بار آ جائیں گے۔ مجھے اور پورے شریف خاندان کو پوری امید ہے جو جھوٹ ہے، وہ جھوٹ رہے گا اور جو سچ ہے وہ سچ رہے گا“ انہوں کہا کہ” ہمارا حق ہے کہ ہم پر عاید الزام بھی بتایا جائے، اور نہیں تو موٹرسائیکل چوری کا ہی الزام لگا دیں، نام تبدیل کر کے اور تاریخ تبدیل کر کے سمن جاری کرنے کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے، رات دن سمن جاری ہو رہے ہیں، دنیا میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو پہلے الزام لگتا ہے، پھر تحقیقات ہوتی ہیں اور پھر عدالت میں کیس چلتا ہے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

میں نے جے آئی ٹی سے کہا کہ ”مجھے برطانیہ سے بلا کر سوال کیوں پوچھ رہے ہیں؟ الزام تو کوئی لگائیں ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بالآخر وفاقی وزیرخزانہ اسحقٰ ڈار بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو گئے انہوں نے بھی دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی اور مطالبہ کیا کہ مریم نواز کو جے آئی ٹی میں بلانے کے بجائے انہیں سوالنامہ بھیجوایا جائے لیکن ان کے مطالبے کو پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔

انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف کوئی کیس نہیں ،یہ تماشہ ختم ہونا چاہیے۔ عمران خان ڈرپوک آدمی ہے اس نے اپنی شادی چھپائی، عمران خان کا نکاح پیرس میں نہیں ہوا ان کا نکاح سینٹ جان ووڈ میں ہوا ،انہوں نے عمران خان کے خلاف سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ وہ جواریے ہیں جھوٹے اور ٹیکس چور ہیں۔جو مشرف کی جوتیاں چاٹتے رہے اور زکوٰة کے پیسوں سے جوا کھیلا، ان لئے تو کیلیفورنیا کا کیس ہی کافی ہے۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ملکی سیاست فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوجائے گی سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا اس کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ایسا دکھائی دیتا ہے سیاسی میدان میں تلخیوں میں اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے قومی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں دی گئی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ہر میدان کے فاتح ہیں، اللہ کا کرم ساتھ رہے تو گزرا ہوا کل بھی اپنا تھا، آنے والا کل بھی اپنا ہے۔ وزیراعظم نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ” اس کو آپ کسی بھی طرف اپلائی کرسکتے ہیں یعنی ان کا اشارہ2018ء کے انتخابات کی طرف تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Panama Case is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.