پاکستان کے خلاف نئی جنگ کا آغاز

جان مکین کا دورہٴ پاکستان ،جنگ سے پہلے جنگ کی تیاری، امریکہ،نیٹو، خفیہ اداروں اور دہشت گردوں نے تیاری شروع کردی

جمعہ 14 جولائی 2017

Pakistan K Khilaf Nayi Jang Ka Aghaz
امتیاز الحق:
گزشتہ دنوں امریکی سینٹ کی رکن جان مکین کی قیادت میں امریکی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا بعد ازاں افغانستان میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے۔اس طرح پاکستان کے عوام کو ایک راستہ چننا ہوگا کہ وہ کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی قوم کے ساتھ امریکی رویہ بھی بدلنا ہوگا۔

وہ امریکہ جا کر وسیع تر حکمت عملی کا ایک منصوبہ پیش کریں گے جس کے تحت پاکستان پر اقتصادی وسفارتی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔کیونکہ وہ حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ا بھی جان مکین کا دورہ پاکستان و افغانستان ختم ہی ہوا تھا کہ 29 رکنی فوجی اتحاد نیٹو نے بھی افغانستان میں فوجیں بھیجنے کا اعلان کر دیا ۔

(جاری ہے)

فیصلہ گزشتہ جمعرات کر برسلز میں اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس میں کیا گیا سیکرٹری جنرل نیس ستوتسین برگ نے اجلاس کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے افغان حکومت اور فوج کو امداد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تقریباََ 6 ہزار مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کرچکے ہیں جو پہلے سے موجود 8 ہزار امریکی فوج سے جاکر مل جائیں گے جو افغانی فوج کی تربیت اور ضروری امداد کاکام کرتے ہیں۔امریکی کانگرس کی ایک کمیٹی کو بتاچکے ہیں کہ وزارت خارجہ افغانستان دیا پاکستان بارے تفصیلی نظر ثانی کر رہی ہے،اسی دوران افغانستان میں فوج بڑھانے کا اعلان بھی سامنے آیا ہے اور اب نیٹو کا اعلان کردیا ہے کہ وہ افغان جنگ میں مزید بھرپور طریقے سے شامل ہورہا ہے۔

اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھا ہے۔استعمال کے بل بوتے پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یہ تصور خود کو دھوکہ دینے افغانستان میں مصائب و مشکلات میں بڑھانے کیساتھ خطہ کے حالات و علاقہ کے ممالک کی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنگ بحران دہشت گردی درحقیقت مذکورہ قوتوں کی خوراک ،زندگی فوائد ایسی ہی حرکتوں اور پالیسیوں میں مضمر ہیں۔

امریکی صدر کے دباؤ میں نیٹو کا فیصلہ یورپی رائے عامہ کیساتھ پاکستان اور خطہ کے دوسرے ممالک قبول نہیں کریں گے۔نیٹو سیکرٹری جنرل اس سادہ سے سوال کا جواب نہیں سے سکے کہ 2011ء سے شروع افغان جنگ میں 16 برس کی لگاتار تباہی اور بربادی کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی۔تقریباََ 2 لاکھ اتحادی افواج اپنے خلاف مزاحمت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں تو اب ازسر نو اس فوج میں اضافہ سے کیا مقصد حاصل کرنا مقصود ہے۔

افغان طالبان ملک کے تقریبا 30 فیصد علاقہ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں افغان حکومت واتحادیوں سے اپنے کنٹرول کا علاقہ سکڑرہا ہے اس کے ساتھ افغان طالبان نے اپنی جنگ میں تبدیلی اور غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے پاکستان،روس،چین ایران،اور وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات بہتر بنائے ہیں۔انہوں نے اپنی جنگ اپنے ہی علاقے میں لڑی ہے اور دہشت گردی کو ایکسپورٹ نہیں کیا کیونکہ وہ اپنی زمین کو بیرونی قوتوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ القاعدہ کو امریکیوں نے منظم کیا اور اسی میں سے اس کے کچھ حصہ کو داعش میں تبدیل کرکے عراق و شام میں استعمال کیا ہے۔ طالبان اپنے علاقے سے نکل کر بیرونی دنیا میں دہشت گردی نہیں کر رہے بلکہ اسلام آباد ،بیجنگ،ماسکو،تہران اور دوہا میں امن مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں یہ ممکن ہی نہیں کہ مذاکرات کی میز پر نہ آئیں یو اس صورت میں نیٹو اپنے ممالک میں دہشت گردی وہ بھی طالبان کی کس طرح مئوقف اختیار کرسکتی ہے کہ افغانی دہشت گرد ان کے لوگوں کو مار رہے ہیں۔

امریکی اور نیٹو یورپی قیادت اصولی طور پر مذاکرات کی بات کی حمایت کرتی رہی ہے وہ طالبان کو ہتھیار پھینک کر پہلے مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں اور افغانی حکومت سے معاملات طے کریں،یہی بات 12 ملکی افغان امن اتحاد نے ماسکو میں کہی تھی کہ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کریں لیکن جونہی گزشتہ اپریل میں ماسکو اعلامیہ جاری ہوا ویسے ہی افغان جنگ کو تیز کردیا گیا۔

پہلے”بموں کی ماں“کا تجربہ کیا گیا بعد ازاں داعش کے عراقی بھگوڑوں کو تورا بورا اور پارچنار میں منصوبہ بندی طریقے سے داخل کر دیا گیا اور خطہ کے افغان امن حمایتی ملکوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں بڑھا دی گئیں۔سفارتی اور سیاسی اقدامات کرنے کی بجائے ایک بار پھر عسکری آپریشن اختیار کرنے کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔جبکہ خود امریکہ ،چین،پاکستان اور افغانستان حکومتی چار رکنی کمیٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے لیکن امریکہ اور اسکے اشارے پر نیٹو ممالک ایک بار پھر سے افغانستان میں فوج قوت میں اضافہ کرنا شروع کریں تو اس سے افغان جنگ اور طالبان کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسکے برعکس افغان صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔

نیٹو سیکرٹری جنرل نے مزید فوج بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی الزام کو بھی دہرایا کہ باغی گروہ افغانستان میں کاروائی کرکے ہمسایہ ملک پاکستان میں جا کر پناہ لیتے ہیں اس لئے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔درحقیقت یہ بات پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔جس میں اب بھارت اور افغانستان بھی اس سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جان مکین اوران کے وفد کو شمالی وزیرستان کے ان حصوں کا دورہ کرایا گیا ہے جہاں طالبان”القاعدہ دہشت گرد پناہ کے ساتھ اپنے مضبوط اڈے رکھتے تھے۔

اب یہ علاقہ واگزار کرانے کے بعد وفد کو قریب سے دیکھنے معائنہ کرنے اور خود مشاہدہ کرنے کا یہ موقع دیا گیا کہ ”سوبار سننے سے ایک بار دیکھنا اچھا ہوتا ہے کہ مصداق امریکی وفدنے پاک سر زمین پر تو اطمینان اور افغانستان جاتے ہی بے اطمینانی کا اظہار کردیا جبکہ اسی علاقہ میں روسی افواج کی جنگی مشقیں پاک افواج کے ساتھ کی گئیں۔لیکن جان مکین کا دورہ در حقیقت جنگ سے پہلے جنگ کی تیاری کے ضمن میں تھا اور نیٹو اور فوج کی جانب سے فوجیں بھیجنے کا اعلان اس جنگ کا حصہ ہے جو غیر اعلانیہ او ر غیر روایتی ہے اور ہوگی۔

گزشتہ تحریروں میں اس بات کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ امریکی پرائیوٹ خفیہ آرمی اور خفیہ اداروں کا نیٹ ورک جو پاکستان،چین،روس،ایران، اور وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے تشکیل دیا گیا ہے اسی کے ذریعے جنگ لڑی جائے گی اور اسکے تجرباتی اظہار پاکستان کے مختلف حصوں میں کئے گئے ۔خاص طور پر لاہور ،کوئٹہ، پارا چنار میں ہونے والے دہشت گردی بالخصوص بلوچستان میں چینی اساتذہ کا اغوا اور پاکستان نیوی کے اہلکاروں اور حال ہی میں سیاسی پارٹی کے رہنما اور اسکے ساتھی کا قتل اسی جنگ کا حصہ ہے جو کراچی میں بھی ایسی کاروائیاں جاری ہیں۔

پاکستان نے گزشتہ عرصہ میں واضح کیا ہے کہ اس کے علاقے میں ہونے والے واقعات افغان سرزمین پر موجود پرائیوٹ آرمی ،خفیہ ایجنسیوں اور بھارت نے جاسوسی کے نیٹ ورک کے ذریعے کرائے پاکستان کے خلاف پر اکسی وار تو پہلے سے شروع کر رکھی ہے اور پاکستان افغانستان میں قائم انہی اداروں کی کاروائیوں کاشکار ہے جبکہ الٹا اس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ امریکہ نیٹو الزام کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالتے ہیں جبکہ بھارتی ایجنٹوں،کلبھوشن ایسے لوگوں کی تحزیبی سرگرمیوں کو موضوع بحث نہیں بنایا جاتا۔

حالیہ امریکہ بھارت اور بھارت اسرائیل تعلقات میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل و بھارت دشمن کو دہشت گرد کہہ کر اس کے خلاف جدوجہد کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ ایران اسرائیل اور پاک بھارت دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔یہ وہ اشارے ہیں اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ آنے والی امریکی و اتحادی پالیسی بالخصوص پاکستان بارے کیا ہوگی ایک جانب چین روس اشتراک،پاک روس چین تعلقات یورپ اور امریکہ کے مفادات کو خطرہ محسوس کراتے ہیں۔

نیٹو اور امریکہ کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ دراصل دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے لڑرہے ہیں ناقابل قبول ہے۔عالمی دہشت گردوں کے گروہ حقیقتا خفیہ کرائے کی فوج پرائیوٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مراکز مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں الزام نواجون پر لگایا جاتا ہے جنہیں یہ مسلم عسکریت پسند اور،دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔

جو نام نہاد امریکی و یورپی پالیسیوں کی وجہ سے اُن کے ملکوں میں آباد ہیں انہی ملکوں کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں تبدیلی لانے کے لئے امریکہ اور یورپ کو جنگ پھیلانے کی بجائے اسے سمیٹنے کی ضرورت ہے لیکن اس پالیسی کی بجائے طاقت کے استعمال پر زور کے ساتھ کسی بھی ایسے مذاکراتی عمل سے اپنے آپ کو دور رکھنا اور اسے سبوتا ژ کرنا ہے ۔

اسی مقصد کے لئے نئی امریکی پالیسی کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی دباؤ پابندیاں اور رکاوٹیں ڈالی جائیں گی دہشت گردی کا دائرہ بڑھایا جارہا ہے۔ پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلحہ کی دوڑ تیز کردی گئی ہے۔جان مکین کا دورہ پاکستان افغانستان،نریندر مودی کا دورہ اسرائیل امریکی وزارت خارجہ کی نئی پالیسی جنگ کو تیز کرنے کی حکمت عملی اور اقدامات خطرہ کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی تیاری اورمزید بحران پیدا کرنے کی حکمت عملی کے تحت کاروائیاں ہوں گی۔پاکستان کو محتاط خارجہ پالیسی اور واضح حکمت عملی اپنے علاقائی اور اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ پر مبنی پالیسی بنانا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan K Khilaf Nayi Jang Ka Aghaz is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.