پاکستان کے عوام اور سیاسی تماشے

پاکستان میں اتنی تعداد میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا شاید ہی کسی پاکستانی کو علم ہو بہرحال اتنی وافر تعداد میں سیاستدانوں کو اپنا کھیل کھیلنے کیلئے ایک وسیع میدان کی ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان اپنی بڑی سیاسی آبادی کیلئے ایک چھوٹا ملک ہے اگر سیاستدانوں کی باہر کی منڈیوں میں خرید و فروخت کا رواج ہوتا تو پاکستان اپنی جمہوری اور سیاسی صنعت سے بہت بڑا زرمبادلہ کما سکتا تھا

بدھ 12 اپریل 2017

Pakistan K Awam Or Siasi Tamashe
پاکستان میں اتنی تعداد میں سیاسی جماعتیں موجود ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کا شاید ہی کسی پاکستانی کو علم ہو بہرحال اتنی وافر تعداد میں سیاستدانوں کو اپنا کھیل کھیلنے کیلئے ایک وسیع میدان کی ضرورت ہے۔ جبکہ پاکستان اپنی بڑی سیاسی آبادی کیلئے ایک چھوٹا ملک ہے اگر سیاستدانوں کی باہر کی منڈیوں میں خرید و فروخت کا رواج ہوتا تو پاکستان اپنی جمہوری اور سیاسی صنعت سے بہت بڑا زرمبادلہ کما سکتا تھا ۔

کیونکہ پاکستان میں سیاست کمائی کا بہترین اور کامیاب پیشہ ہے اس ملک میں جیسے جیسے بیروزگاری بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے یہاں سیاستدان بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ ملک کی ہر گلی اور ہر محلے میں درجنوں سیاستدان موجود ہیں بلکہ بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اگر کسی بچے کو گلی میں پڑی ہوئی کسی اینٹ سے ٹھوکر لگے تو آواز آتی ہے اے میاں! ذرا دیکھ کے چلو اس اینٹ کے نیچے ایک سیاستدان موجود ہے جو ملک کا مستقبل سنوار سکتا ہے۔

(جاری ہے)

مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ ہر وقت سیاسی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں جب اس موضوع پر بات کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو پھر مذہبی بحث پر آجاتے ہیں اور مذہب کے حوالے سے اتنا طویل اور تلخ مباحثہ کرتے ہیں کہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور بات پھر دور تک جاتی ہے۔ پاکستانی قوم کو مذہب اور سیاست کے رہنماوٴں نے کچھ اس انداز میں تقسیم کیا ہے کہ اب ایک قوم کا تصور بھی محال ہو گیا ہے۔

البتہ اس ملک میں بہت سارے گروہ دیکھے جا سکتے ہیں جو ایک دوسرے سے مذہبی یاسیاسی جنگ میں الجھنے کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ لوگوں کو یہاں لڑنے اور الجھنے کا شوق بھی ہے اور اسی قومی شوق نے تھانوں، کچہریوں اور عوامی جلسوں اور جلوسوں کی رونقوں کو بحال رکھا ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور قابل سیاسی رہنما موجود نہیں ہیں جہاں ہر انسان سیاسی رہنما ہے یا رہنما بننے کی کوشش کر رہا ہے۔

دنیا میں مذہب یا دین ایک طاقتور اور مقدس آئین زندگی تصور کیا جاتا ہے اور دین کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان اپنے خالق کو پہچانے اور مقصد تخلیق سے آگاہی حاصل کرے جس انسان نے اپنے جیسے انسان کو راحت پہنچائی وہ کامیاب ہوا۔ مذہب تو یہ کہتا ہے کہ اگر کسی نے راستے میں پڑا کوئی پتھر اس نیت سے ہٹا دیا کہ کسی گزرنے والے کو اس رکاوٹ سے تکلیف نہ پہنچے تو وہ انسان دوست انسان نہ صرف بامقصد زندگی گزار رہا ہے بلکہ وہ جہنم سے دور رہنے کی کامیاب کوشش بھی کر رہا ہے۔

اللہ سب سے بڑا رقیب بھی ہے اور انسان کے ہر عمل کا اس کے پاس حساب بھی ہے۔ دین اور مذاہب معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کے فروغ کی ترغیب دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ کر دیا گیا ہے۔ ہم مذاہب کو فساد اور نفرت پھیلانے کیلئے کام میں لاتے ہیں جس کے نتیجے میں یہاں ردالفساد جیسی مہم جوئی کرنی پڑتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو قوم دنیا بھر میں ہر قوم کے مقابلے میں مذہب پر سب سے زیادہ بحث کرتی ہے اسی قوم میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ فساد ہوتے ہیں اور وہی قوم ہی مذہب کو نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہی ہے۔

مقام حیرت یہ ہے ایک مضطرب اور غیر محفوظ قوم کے اندر سیاستدان، مولوی، پیر اور نعرے باز سب سے زیادہ محفوظ اور پرسکون موجود ہیں۔سرگودھا میں عبدالوحید نامی ایک گدی نشین پیر صاحب نے کم و بیش بیس انسانوں کو قتل کر دیا ہے لیکن سرگودھا پولیس کو ان مقتولین کے مقدمہ کو درج کرانے کیلئے کوئی مدعی دستیاب نہیں ہے۔ ان مقتولین کے وارثان بازگشت نے یہ کہہ کر مقدمہ کی پیروی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے کہ پیر کے ہاتھوں قتل ہونے والے جنت میں پہنچ گئے ہیں لہٰذا وہ قاتل کے خلاف کوئی کارروائی کرنا محض کارِ بیکار تصور کرتے ہیں۔

اس نئی سوچ کو آپ کیا نام دیں گے؟ جب لوگ اپنے پیاروں کے خون سے بھی لاتعلق ہو جائیں تو اس کیفیت کو ایک بہت بڑا حادثہ کہا جا سکتا ہے۔ کیا لوگ بے حس ہو گئے ہیں؟ کیا معاشرے کی موت واقع ہو گئی ہے؟ کیا معاشرے نے حالات کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور مزاحمت ختم ہو گئی ہے؟ یقیناً ہماری حالت زار افسوسناک ہے۔ موجودہ حالات میں پھنس کر قوم ایک خطرناک گھاٹی میں اتر گئی ہے لیکن کسی ایک شخص نے بھی اس حادثے پر ماتم نہیں کیا۔


امریکہ اپنی پرانی عادت کے مطابق ہمیں چھوڑ کر جا چکا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے جس کا اظہار بہت تاخیر کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں امریکہ اپنے ہی دوستوں کی مجلس میں ایک ناقابل اعتبار ساتھی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ اب ہمیں یہ مان لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان اپنی خارجہ حکمت عملی کو اپنے مفادات کے حق میں استعمال نہیں کر سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں الجھا ہوا ہے جو جلدی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور اب شاید افغانستان کے غیر واضح حالات ہی مستقبل میں پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

ذرائع کا کہناہے کہ پانامہ لیکس کا جو فیصلہ بھی عدلیہ کی طرف سے آئے گا وہ فوج سمیت سب کو قابل قبول ہو گا۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن کیا ”سب“ کی قطار میں ضدی سیاستدان بھی آتے ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ دو مخالف سیاسی دھڑوں میں جس دھڑے کے خلاف یہ فیصلہ آئے گا وہ ملک میں فساد پھیلانے کی کوشش کرے گا اور پھر فساد کو دفع کرنے کی کوشش کرنے کیلئے عزیز ہم وطنوں کو مدد کیلئے طلب کیا جائے گا لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب فیصلہ آئے گا۔ ہر کوئی اس فیصلے کا منتظر ہے لیکن یہ آئے گا کب؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pakistan K Awam Or Siasi Tamashe is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 April 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.