پاک امریکہ تعلقات، ایک عام پاکستانی کی نظرسے!

60 کی دہائی میں پاکستان امریکہ تعلقات اپنے عروج پر تھے ،اس وقت کے پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خاں نے جب امریکہ کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا تو امریکی حکومت پھولے نہیں سما رہی تھی۔

منگل 26 دسمبر 2017

Pak Amrica Taluqaat Aik Aam Pakistani Ki Nazar Main
مطلوب وڑائچ:
60 کی دہائی میں پاکستان امریکہ تعلقات اپنے عروج پر تھے ،اس وقت کے پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خاں نے جب امریکہ کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا تو امریکی حکومت پھولے نہیں سما رہی تھی۔ایوب خاں (مرحوم) اپنے وفد کے ہمراہ پہلے لندن پہنچے اور لندن سے امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے لیے پرواز تھی۔ امریکی حکومت نے اپنے دو خصوصی طیارے لندن بھجوائے اور ان کے پروٹوکول میں ایوب خاں اپنے طیارے میں روانہ ہوئے۔

یہ شاید جدید انسانی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا کہ میزبان ملک نے اپنے مہمان کے پروٹوکول کے لیے اپنے خصوصی طیارے بھجوائے تھے۔ جیسے ہی صدر ایوب خاں واشنگٹن پہنچے تو رن وے پر ان کے استقبال کے لیے امریکی صدر بنفس نفیس موجود تھے۔

(جاری ہے)

اور ایئر پورٹ سے لے کر سرکاری ریسٹ ہاؤس تک سڑک کے دونوں کنارے امریکی عوام ہاتھوں میں پاکستان اور امریکہ کے پرچموں کی جھنڈیاں لیے کھڑے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی اور پوری دنیا دودھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔اس سے پہلے صدر ایوب خاں کی کاوشوں سے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے وزیرخارجہ تھے ،ان کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کا بریک تھرو ہو چکا تھا۔ شومئی قسمت کہ ہمارے سیاستدانوں کو حالات کا ادراک نہ ہو سکا اور انہوں نے یہ قیمتی اور خوبصورت موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔

سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے تنگ آکر ایوب خاں نے سیاستدانوں پر ”ایبڈو “ کی پابندیاں لگا دیں۔پھر اس کے بعد خود پاکستان کو انڈیا کے ساتھ جنگ میں جھونک دیا گیا،جس کے بعد اس جیتی ہوئی جنگ کو دشمنوں کی نظر لگ گئی اور تاشقند کی میز پر ہم سب کچھ لٹا کے گھر کو لوٹے۔جس پر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خاں کے درمیان ناچاکی پیدا ہوئی اور انہی اختلافات کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو شہید نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد کبھی بھی دوبارہ ایوب حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔

جس کی بنا پر ایوب خاں نے حکومت جنرل یحییٰ کے سپرد کی۔اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب تاریخ کا ایک تلخ باب بن گیا ہے۔ جنرل یحییٰ خاں کی شخصی اور سیاسی نالائقیوں نے پاکستان کو ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا کہ ایک مضبوط پاکستان اپنا دایاں بازو کٹوا کر ہمیشہ کے لیے عالمی دنیا کے سامنے ایک اپاہج مملکت کے روپ میں نظر آیا۔اور 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران وعدے کے باوجود امریکی بحری بیڑاتادمِ تحریر پاکستان نہ پہنچا۔

یعنی امریکہ نے اپنی ترجیحات بدل لی تھیں اور اسی دوران ذوالفقار علی بھٹو شہید نے بدترین حالات میں عنانِ حکومت سنبھال لی اور امریکی سپرمیسی کے خلاف عالمی تحریک شروع کر دی اور اس گروپ کا نام ”تھرڈ ورلڈ“ رکھا۔یقینا اس دھڑے کو امریکی اور ریشین سپورٹ حاصل نہ تھی اور دنیا کے اس وقت کے ترقی یافتہ ممالک جرمنی، جاپان، برطانیہ، فرانس سمیت یورپ بھر کے ممالک ”تھرڈ ورلڈ“ کے لیے نرم گوشہ نہ رکھتے تھے۔

چائنا اس دوران ابھر کر سامنے آ رہا تھا مگر وہ اس قابل نہ تھا کہ سوشلزم اور ”تھرڈورلڈ“ کے نظریات کو مالی سپورٹ کر سکتا۔اس کے بعد ”تھرڈ ورلڈ“ تحریک کاخوفناک انجام ہوا۔سعودی عرب کے شاہ فیصل کو مروا دیا گیا ، مصر کے جمال عبدالناصر کو قتل کروا دیا گیا، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ لیکن اس پورے عمل کے دوران بھارت کو موقع مل گیا اور اس نے زرعی اصلاحات سمیت بے شمار نئے منصوبے اور اصلاحات متعارف کروائیں ۔

خاص طور پر جمہوریت کا ایسا راگ الاپنا شروع کیا کہ پوری دنیا میں وہ سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے لگا۔ضیاء الحق (مرحوم) کی آمد کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی اور یاد ستانے لگی کیونکہ اس دوران امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی اور امریکہ نے ایک زبردست پروپیگنڈے کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر روس گرم پانیوں تک پہنچ گیا تو وہ پوری دنیا کو نہ صرف اپنی لپیٹ میں لے لے گا بلکہ وہ مذاہب خصوصی طور پر اسلام اور عیسائیت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ تھی کہ عربوں سمیت پاکستان بھی اس جھانسے میں آ گیا اور ہم نے دس سال کی مسلسل جدوجہد ،لاکھوں مجاہدین کی شہادتوں کے بعد روس کو تو افغانستان سے مار بھگایا مگر اس کا نقصان سب سے زیادہ مسلم بلاک کو ہوا کیونکہ ریشیا ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد امریکہ واحد سپْر پاور کے طور پر ابھرکر سامنے آیا۔ وہ اسلامی ممالک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر چکا تھا لیکن وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسلامی ممالک معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط ہو کر یورپ اور امریکہ کے لیے مسائل پیدا کریں۔

پھر امریکی سازشوں کے ذریعے 9/11 کا ڈرامہ اسٹیج کیا گیا۔ جس کو بنیاد بنا پر ایک دفعہ پھر مسلمان ممالک خصوصی طورپران ملکوں کے سربراہان کو نشانہ بنانے کا منصوبہ سوچا گیا جو امریکہ کے خلاف بولنے میں شہرت رکھتے تھے۔اور پھر لائن کے اِس پار یا اْس پار کا فارمولااستعمال کیا گیا اور جنرل پرویز مشرف سیدھے امریکہ کی جھولی میں جا گرے۔ شاید ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا۔

اس دوران پاکستان نیوکلیئر پاور بن چکا تھا جو پورے یورپ سمیت امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ،اسرائیل اور بھارت کی نظروں میں کھٹکتا تھا۔ان تمام ممالک نے مل کر پاکستان کو افغانستان کے ساتھ جنگ میں الجھانا چاہا جب کہ اسی دوران ہمارے پاس 50لاکھ افغان مہاجرین طرح طرح کے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ پھر دنیا نے کیا خوب دیکھا کہ پاکستان کو امریکہ کی طرف داری کرنے پر دہشتگردوں کی طرف سے سزا ملنے کا دور شروع ہوا۔

کئی سو ارب ڈالر ز کی معیشت تباہ ہو گئی ، کم از کم ایک لاکھ معصوم پاکستانیوں کو بموں سے شہید کیا گیا اور دس ہزار کے قریب ملٹری جوانوں اور افسروں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ اور ان سب کے بدلے میں امریکہ کی طرف سے 10ارب ڈالر کا چندہ دیا گیا،جس کا ہمیں آج تک طعنہ دیا جاتا ہے۔ قارئین! میں متعدد بار محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ہمراہ امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور امریکن پینٹاگان کے دورے کر چکا ہوں۔

محترمہ یہ ساری باتیں بڑی تفاصیل سے امریکن آفیشلز کے ساتھ کرتی تھیں لیکن اس وقت بھی امریکن ڈپلومیٹ اور ملٹری قیادت محترمہ سے ”ڈومور“ کا مطالبہ کرتے تھے۔ آج جب کہ بھارت اور امریکہ کا نیا نیا ہنی مون جاری ہے، امریکہ نے بھارت کو روس سے توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا، اس طرح امریکہ کو 130کروڑ کی عالمی مارکیٹ تک رسائی دستیاب ہوئی ہے۔ اس لیے پاکستان کی حیثیت اب امریکن کی نظر میں ایک عضوے معطل کی سی ہے۔

قارئین! موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ،نائب امریکی صدر پنس اورامریکی وزیرخارجہ ٹیلرسن سمیت پوری امریکی قیادت اس وقت پاکستان کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔ ہمیں محتاط رویہ رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا، خصوصی طور پر سینیٹ کے اجلاس کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی دی گئی بریفنگ کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے جس طرح حقائق کی ادراک بینی کی ہے اور نبض پر ہاتھ رکھ کر صحیح تشخیص کی ہے ،اس کی روشنی میں ہمیں اپنی پالیسیاں طے کرنا ہوں گی ۔

ورنہ دشمن ہمیں خدانخواستہ ہڑپ کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کریگا۔آج حکومت کہیں کہ نہیں ہے ۔خارجہ تعلقات کی استواری کی ذمہ داری لا محالہ فوج پر آگئی ہے۔امریکہ دھمکیوں کے وارننگ پر آگیا ہے،وزیر دفاع اوروزیرخارجہ کو اپنے عبوری وزیراعظم کی طرح اپنے باس نواز شریف کے تحفظ کی پڑی ہے وہی ان کیلئے قوم ملک اور ایمان کا درجہ رکھتے ہیں۔انہیں بھارت کے معاندانہ اور جارحانہ رویے کی فکر ہے امریکی دھمکیوں کی پرواہ ہے امریکی نائب صدر نے منہ پھاڑ کر کہا کہ پاکستان کو نوٹس دیدیا ہے،گویا امریکہ جارحیت کیلئے تیار ہے ساتھ ہر امریکی امداد کا طعنہ بھی دیتا ہے ،اس ”نوٹس“ پر پاک فوج کو کہنا پر پاکستان برائے فروخت ہے نہ پیسوں کیلئے دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

ساتھ ہی افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑنے سے دو ٹوک انکار کردیا ۔ امریکہ کے عزائم خطرناک ہیں اگر پاکستان پر جارحیت کی گئی تو پاکستان یقینا تر نوالہ نہیں بنے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Pak Amrica Taluqaat Aik Aam Pakistani Ki Nazar Main is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.