نگران وزیراعظم کے نام پر قیاس آرائیاں

نگران وزیراعظم کے نام پر قیاس آرائیاں بروقت الیکشن کیلئے انتقال سقم دور کرنا ضروری ہے

جمعرات 10 مئی 2018

nigran wazeer e azam ke naam par qiyaas aaraiyan
نواز رضا
موجودہ حکومت کی آئینی مدت 31 مئی 2018 کوختم رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی سے ملاقات میں نگران وزیر اعظم کے نام پراتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے مشاورت کی ہے۔ ابھی تک حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے نگران وزیر اعظم کے لئے کوئی نام سامنے آیا ہے۔

اب تک جوبھی نام لئے جارہے تھے وہ قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں تاثر دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیان  نام پر اتفاق رائے ہو گیا ہے لیکن اس کے نام کا اعلان وسط مئی میں کیا جائے گا لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت میں پائی جانے والی” دوریاں“نگران وزیراعظم کے نام پراتفاق رائے پر اثر انداز ہوں گی جب تک میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کسی نام پر متفق نہ ہوئے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے درمیان پایا جانے والا اتفاق رائے “ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

(جاری ہے)

دونوں نے اپنی لیڈرشپ سے نگران وزیراعظم کے بارے میں منظوری لینی ہے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت 90 روز میں عام انتخابات کاانعقادچاہتی ہے اور یہ اسی صورت میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 31 مئی 2018 سے ایک روز قبل قومی اسمبلی تحلیل کر دیں۔ بصورت دیگر آئینی مدت پوری ہونے پر عام انتخابات60 روزکے اندرمنعقد کرنا لازمی امر ہے۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے ان کی تجویز مسترد کر دی اور کہا کہ ایک دن قبل قومی اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔

وزیر اعظم نگران حکومت کو دو ماہ سے زائد ایک دن بھی نہیں دینا چاہتے ان کی کوشش ہے کہ نگران حکومت بھی جلدی ممکن ہواپنا کام نمٹا کرچلی جائے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ایک اور قانونی معاملہ کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے اور کہا ہے کہ اگر الیکشن قانون میں سقم دور نہ کیا گیا تو انتخاسبات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہوگا۔

حلقہ بندیوں کے لئے حتمی نوٹیفیکیشن4 مئی 2018ء کو جاری کیا جا رہا ہے لیکن ا لیکشن قانون کی دفعہ 22 میں واضح طور درج ہے کہ حلقہ بندیوں کے بعد 120 دن درکار ہیں۔ اگر الیکشن قانون میں ترمیم نہ کی گئی توعدلیہ میں عام انتخابات کوچیلنج کر دیا جائے گا۔ وفاقی حکومت 27اپریل 2018 کو قومی اسمبلی اورسینیئٹ کے بجٹ اجلاس طلب کر لئے ہیں۔ اگر چاہے تو بجٹ پیش کرنے سے قبل الیکشن قانون میں ترمیم کرسکتی ہے۔

بصورت دیگر بجٹ کی منظوری کے بعد قانون میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ سید خورشید شاہ نے الیکشن قانون میں جس سقم کی نشاندہی کی ہے اسے دور کرنا ضروری ہے۔ ورنہ انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ میں رکاوٹ آ سکتی ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی سے قومی بجٹ 19 - 2018منظور کرانے میں حکومت اور اور اپوزیشن ایک ”صفحہ “ پر نہیں ۔بظاہرپیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں نگران حکومت کی مدت تک قومی بجٹ کرنے پیش کرنے کا مطالبہ تو کر رہی ہے لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت صوبائی بجٹ کی تیاری پر آماد ہ ہے۔

تین صوبائی حکومتیں بجٹ تیار کرنے سے انکار کر دیا ہے ، صرف خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے پورے سال کا بجٹ تیار کرنے سے انکار دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے ہر اقدام کی مخالفت کرنا تحریک انصاف اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔ یہی وجہ منقسم اپوزیشن کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی۔ تحریک انصاف کے چئیرمین پورے پانچ سال کے دوران گنتی کے چند دن ہی پارلیمنٹ میں آئے مگر پورے سال کی تنخواہ اور مراعات وصول کرتے رہے۔

اب بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ہوبھی گیا۔تحریک انصاف کسی صورت اتفاق نہیں کرے گی۔ سیاسی حلقوں میں سینٹ کے انتخابات میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کی باز گشت تا حال سنی جارہی ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ سے منتخب ہونے والے سینیٹر زایوان بالا میں حلف اٹھا کر یہ کہہ دیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ سے منتخب نہیں ہوئے تو وہ یہ معاملہ ختم ہوجائیگا۔

عمران خان نے تحریک انصاف کے 20ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کئے ممکن ہے ان میں وہ ارکان بھی شامل ہوں جنہوں نے اپنے ضمیر کا سودا کیا ہے۔ یہ سب کارروائی پولیٹکل مایکج حاصل کرنے کے لئے کی جاری ہے۔ اگر عمران خان مشکوک کردار کے حامل ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف واقعی ہارس ٹریڈنگ پر اپنی پارٹی کے ارکان کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں سب سے پہلے چوہدری سرور کے خلاف کارروائی کرنی چاہیئے جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے دس ارکان سے زائد ووٹ لئے ہیں پھر اس طرفہ تماشا یہ کہ عمران خان نے چیئر مین وڈپٹی چئیرمین کے انتخاب میں آصف علی زرداری کے نامزد کردہ امیدواروں کی حق میں ووٹ دلوائے تا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب نہ ہو سکیں لیکن جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسرا ج الحق جنہوں نے چئیر مین کے لئے راجہ ظفرالحق کو اپناووٹ دیا تھانے دلچسپ انکشاف کیا تحریک انصاف کی قیادت نے مجھ سے کہا کہ اوپر سے صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کا حکم آیا ہے انہوں نے اس حکم کے بارے میں حیر ت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ حکم عرشی معلی سے تھایا کہیں اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد سینیٹ میں عمران خان کے نہیں بلکہ آصف علی زرداری کے نعرے لگے ۔


عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی مرضی کی بناتی ہے سراج الحق کے بیان سے یہی نظر آتا ہے تحر یک انصاف اور جماعت اسلامی کے راستے الگ ہو گئے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے پی کے حکومت میں آخری دن تک رہناچاہتی ہے۔ جماعت اسلامی،متحدہ مجلس عامہ کا حصہ بن گئی ہے جس کے صدرمولا نافضل الرحمن ہیں دوسری طرف مولا نافضل الرحمن میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار ،نیشنل پارٹی کے صدرمیرحاصل برنجو، جمعیت علماء اسلام (ف)،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف ووٹ کا ووٹ کو عزت دو“ پرقومی سیمینار میں مل بیٹھنا مستقبل میں انتخابی اتحاد کی بنیادبن سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

nigran wazeer e azam ke naam par qiyaas aaraiyan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 May 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.