نواز شریف کا مستقبل سوالیہ نشان؟

ن لیگ کی عدالتی فیصلوں پر تنقید،،،، سینٹ الیکشن کی وجہ سے سیاسی کشمکش میں اضافہ مخالفین پر جوش متوالے سراپا احتجاج

منگل 6 مارچ 2018

Nawaz Sharif ka mustaqbil sawaliya nishan?
سالک مجید:
نواز شریف کو پارٹی صدارت کے لئے بھی نا اہل قرار دینے کے عدالتی فیصلے نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے عین سینٹ الیکشن کے موقع پر اس فیصلے کا سامنے آنا سیاسی جماعتوں اور چھوٹے صوبوں میں تشویش کا باعث بن گیا ہے جو چاہتے ہیں کہ ہر قیمت پر سینٹ الیکشن ہوں یا قومی اسمبلی کے الیکشن وہ ان کا انعقاد بروقت چاہتے ہیں موجودہ سیاسی منظر نامہ نواز شریف بمقابلہ سپریم کورٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے سیاسی قانونی اور سفارتی حلقوں میں نواز شریف کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل کی سیاست پر بھی مختلف پہلوﺅں سے بحث چھڑگئی ہے اداروں کے ٹکراﺅ اور محاذ آرائی کی فضا کو مجموعی طور پر ملک و قوم کے لیے نقصان دہ قرار دیا جارہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر مقننہ اور عدلیہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراﺅ کے راستے پر آگے بڑھتے ہیں تو اس سے ملک و قوم کے لئے کوئی خبر کا عمل نہیں نکلے گا بلکہ تباہی اور نقصان ہوگا لہٰذا اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ انتہائی بلندی پر پہنچے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے اقدامات کئے جائیں صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچایا جائے اے این پی کے سربراہ اسفند یارولی نے موجودہ صورتحال میں خارجہ اور داخلہ پالیسی ازسر نو مرتب کرنے کے لئے سانحہ اے پی ایس پشاور کی طرز پر ایک اور آل پارٹیز کا نفرس نلانے کا مطالبہ کیا ہے اور نئی پالیسی مرتب کرکے اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی تجویز پیش کر دی ہے انہوں نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ حالات جس طرف جا رہے ہیں یہ خطرناک راستہ ہے اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے ہم نہ عمران خان کے ساتھ ہوں گے نہ نواز شریف کے ساتھ ہم صرف پارلیمنٹ اور پاکستان کے ساتھ ہوں گے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف زرداری کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے عدالتی فیصلے کا احترام کرنا چاہئے اداروں میں تصادم ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا بلاول بھٹو زرداری کا موقف ہے کہ نواز شریف پارلیمنٹ کو عدلیہ سے لڑانا چاہتے ہیں مہم جوئی جہموریت کے لیے خطرناک ہوگی اپوزیشن لیڈر رسید خورشید شاہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ نا مانا گیا تو ملک میں انار کی پھیلے گی عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف مکمل طور پر عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار کای ہے اور اسلام آباد میں تاریخی شوکر نے کا اعلان بھی کیا ہے خود نواز شریف اوران کی جماعت نے عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی توقع تھی مشرف اور ایوب والا کا لا قانون بحال ہوگیا ہے مسلم لیگ(ن) کے فیصلے نواز شریف ہی کریں گے مسلم لیگی رہنماﺅں نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نواز شریف مائنس نہیں ہوںعدالتی فیصلہ ہماری کمٹمنٹ نہیں توڑسکتا ہمار الیڈر نواز شریف ہی ہے سیاسی اور قانونی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ اب کیا ہوگا اگر سینٹ الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو شکست دینے کے لئے یہ ماحول مخالفین کے لئے سازگار ہوگیا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی لاہور چکوال اور لودھراں کے ضمنی الیکشن کے نتائج اگر اس فیصلے سے رد ہوجائیں گے تو ان حلقوں کے عوام کا کیا قصور قرار دیا جائے گا جنہوں نے ضمنی الیکشن میں آئین اور قانون کے مطابق اپنا جہموری حق استعمال کیا نواز شریف کے حامی سراپا احتجاج ہیں کراچی پریس کلب سمیت مختلف مقامات پر نواز شریف کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے کئے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے نواز شریف کی تصاویر پر مبنی ٹی شرٹس مارکیٹ میں آگئی ہے جن پر لکھا گیا ہے میں بھی نواز شریف ہوں اور لیگی کارکنوں نے یہ ٹی شرٹس پہن کر نواز شریف سے اپنی محبت کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے سوشل میڈیا پر بھی نواز شریف کی حمایت کے ٹرینڈز چل رہے ہیں سیاسی شخصیات کا پسند کیا جانا اوران پر تنقید ہونا عام سی بات ہے لیکن موجودہ صورتحال اس لئے تشویشناک ہے کہ اس میں اہم ادارے بالخصوص عدلیہ بھی لپیٹ میں آرہی ہے اور قد آور سیاسی رہنماﺅں نے بلکہ خود منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پختہ ہوتا جارہا ہے کہ نواز شریف کو نہ صرف نشانہ بنالیا گیا ہے بلکہ دیوار سے لگایا جارہا ہے اس کے بعد نواز شریف اور ان کے حامیوں سے کس قسم کا ردعمل متوقع ہوگا بحث ہورہی ہے کہ کیا نواز شریف کو خود آج کا بھٹو بنایا جارہا ہے کیا نواز شریف کو آج کا شیخ مجیب بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسا کون کرنا چاہتا ہے اور کیوں کرنا چاہتا ہے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ 28 جولائی 2017 کے عدالتی فیصلے کے بعد سے آج تک اس ملک میں نواز شریف کی سیاسی مقبولیت میں مسلسل تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جتنے بھی جلسے ہوئے ہیں وہ نواز شریف کی حمایت میں تاریخی نوعیت کے ہوئے ہیں ورنہ ایک نااہل قرار پانے والے شخص کے جلسے میں عوام کیوں آتے اس کا مطلب ہے کہ لوگوں میں نواز شریف کے بیانیے کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے اورت عدالتی فیصلے کے بعد جس طرح نواز شریف کی مقبولیت میں کمی آنی چاہئے تھی وہ کمی نہیں آسکی بلکہ نواز شریف کی مقبولیت پہلے سے کئی گناہ بڑھ گئی ہے لاہور چکوال اور لودھراں کے ضمنی الیکشن میں نواز شریف کے سیاسی مخالفین کو شکست فاش ہوگئی عدالتی فیصلے کے بعد تو عوام کو نواز کے خلاف ووٹ دینا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اور ضمنی الیکشن میں نواز شریف کی حمایت میں پڑنے والا ووٹ بڑھ گیا اس کا صاف مطلب ہے کہ عوام نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اس کا دوسرا مطلب ہے کہ عوامی عدالت میں نواز شریف سرخرو ہورہے ہیں اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف ان کے خاندان اور پارٹی رہنماﺅں اور کارکنوں کے لیے یہ صورتحال نئی نہیں ہے مخالف قوتوں نے نواز شریف کو 1993 میں غلام اسحاق خان کے ہاتھوں وزیر اعظم ہاﺅس سے باہر نکالا تو سپریم کورٹ سے وہ اپنا مقدمہ جیت کر بحال ہوگئے تھے اس کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ نے غلام اسحاق خان اور نواز شریف کو ایک ساتھ گھر بھیجا تو نواز شریف نے میدان نہیں چھوڑا اور 1997 میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوگئے اور پاکستان کی ایٹمی قوت بنا دیا 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کو گرفتار کرکے اٹک قلعہ اور لانڈھی جیل میں قید رکھا گیا ان کے خلاف مختلف الزامات لگاکر مقدمات چلائے گئے اور مرضی کی عدالتوں سے ان کو عمر قید کی سزا دلائی گئی ہے 21 سال کے لیے نااہل کیاگیا اور جائیداد ضبط کرلی گئی اس کے بعد ملک بدر کردیا گیا 2007 میں نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کے وطن واپس آنے کی وجہ سے پاکستان کی اجازت ملی لیکن الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا اس کے باوجود 2008 میں مسلم لیگ(ن) کی پنجاب میں حکومت بنی اور 2013 کے الیکشن میں نواز شریف نے کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے 2017 میں ان کو وزارت عظمیٰ سے نا اہل کردیا گیااور اب فروری 2018 میں ان کو پارٹی صدارت کے لئے بھی نااہل قرار دیا گیا ہے 1999 میں بندوق کی نالی کے سامنے نواز شریف نے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا اور آج بھی وہ پُر اعتماد پرعزم دکھائی دے رہے ہیں وہ تمام تر حالات کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں اور انکی پارٹی بھی اس مرتبہ ابھی تک 1999 کے بعد جیسی صورتحال کے برعکس ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہے اور پورا ساتھ دے رہی ہے لہٰذا یہ باتیں ہورہی ہیں کہ نواز شریف کے لئے یہ حالات اور سختیاں اب کوئی نئی بات ہرگز نہیں وہ پہلے بھی سب کچھ دیکھ چکے ہیں اور سیاستدانوں کے کیرئیر میں ایسے خوفناک طوفان آتے رہتے ہیں جن کا انہوں نے ہمت اور صبرو تحمل سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے نواز شریف کے مخالفین خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ نواز شریف کا کھیل ختم ہوگیا ہے بالکل اسی طرح کے دعوے 1999 کے بعد2007 تک نواز شریف کے مخالفین کی زبانی کئی بار سنے گئے تھے لیکن وقت نے وہ سب دعوے غلط ثابت کردئیے تھے اب یہ باتیں بھی کہی جارہی ہیں کہ آنے والے دنوں میں نواز شریف پر بھی الطاف حسین کی طرح تقریر تصویر اور تشہیر کی پابندی لگ سکتی ہے اور ان کو نیب مقدمات میں سزا بھی ہوسکتی ہے گویا ان کو ایک بار پھر پابند سلاسک بھی کیا جاسکتا ہے دوسری طرف نواز شریف کے قریبی رہنماﺅں کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر ایسے حالات پیدا ہوئے تو نواز شریف جیل سے بھی سیاست کرتے رہیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Nawaz Sharif ka mustaqbil sawaliya nishan? is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 March 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.