نواز حکومت غیر یقینی کا شکار؟

خطے میں تیزی سے بگڑتے حالات‘پاکستانی اداروں کے پاس کم وقت رہ گیا، افغانستان میں امریکی ناکامی کے خوف سے بھارت مشرقی محاذ کھول سکتا ہے

جمعہ 9 جون 2017

Nawaz Hakoomat Ghair Yaqeeni Ka Shikar
محمد انیس الرحمن:
حال ہی میں سوشل میڈیا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی ایک تصویر شائع کی گئی ہے جس میں انہیں جے آئی ٹی ٹیم کے سامنے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔یہ سب کچھ کیوں ہوا؟کس نے کیا؟کیا حکومت کے کارندے اس میں شامل تھے؟ان سوالوں کا جواب ملنا فی الحال مشکل ہے۔اسلام آباد میں بیٹھے چند ذرائع کا خیال ہے کہ جن کاموں میں چند ہزار خرچ ہوسکتے تھے ان پر اگر کروڑوں خرچ ہوں گے تو ایسے امور کا ”لیک“ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں۔

۔۔۔شائد اس عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا مقصود ہو۔۔۔حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے بعد باہر آکر میڈیا کے سامنے یہی بیان دیتے رہے کہ”ہمارے خاندان کا احتساب پہلے بھی ہوا اگر کچھ ہوتا تو پہلے ظاہر ہوجاتا“اس کا اشارہ غالباََ مشرف دور کی جانب ہے کیونکہ وہی دور اس خاندان کے لئے سخت ترین تھا لیکن کوئی موصوف کو یہ نہیں سمجھا رہا کہ جناب مشرف دور میں تو ابھی احتساب شروع ہی ہوا چاہتا تھا کہ قطری اور سعودی بیچ میں کود پڑے تھے،یوں احتساب کی جگہ”ڈیل“ نے لی یا کم از کم کم انہیں سینئر صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ”غدار کون؟“ پڑھ لینی چاہیے تھی۔

(جاری ہے)

جو میاں نواز شریفن کے انٹرویوز پر مبنی ہے اور جس میں خود موصوف کے بیانات موجود ہیں جس میں انہیں بتایا تھا کہ کس طرح اس وقت سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر شریف خاندان کو سعودی عرب میں پناہ دی تھی۔۔۔اس وقت بھی یہ “سیاسی پناہ گزین“یہی دعوی کر رہے تھے کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی لیکن بعد میں عرب میزبانوں نے خود اسلام آباد میں میڈیا کے سامنے”ڈیل کی دستاویز لہرا کر ڈیل کی تصدیق کردی تھی۔

اس لئے شریف خاندان کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ان کا احتساب نہیں بلکہ ڈیل ہوئی تھی۔اور ساری پاکستانی قوم اس بات کی گواہ ہے اس کاحافظہ اتنا کمزور نہیں،یہی وجہ ہے کہ یہ خاندان اس مرتبہ بھی کسی سیاسی ڈیل کے انتظار میں تھا جو فی الحال ناممکنات میں سے نظر آتی ہے۔کیونکہ بین الاقوامی سیاست کا محور یکسر بدل چکا ہے۔دوسری جانب نون لیگ کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا معاملہ ہے جسے صحیح معنی میں قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

۔۔وہ ایک کارنر میٹنگ تھی جس میں نہال ہاشمی نے سمجھا ہوگا کہ اس ”غیر اہم“میٹنگ میں جو مرضی بول دو اس پر بھلا کون توجہ دے گا یو ”دیگ سے زیادہ چمچہ گرم“کے مصداق جب انہوں نے پاکستان کی محترم عدلیہ سے متعلق اشخاص کو دھمکیاں دیں تو ”بڑے صاحب“یا”صاحبہ کے لئے یہ غیر اہم میٹنگ زیادہ ”اہم“ہو گئی اور ان کے اس بیان کو ایک ”پیغام“ کے طور پر جاری کروادیا گیا۔

جو شاید نہال ہاشمی کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو۔بہر حال تیر کمان سے نکل چکا تھا نتائج سب کے سامنے ہیں ۔نہال ہاشمی کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے ان سے سینیٹ کی نشست پر اسعفیٰ لے لیا گیا۔اب خبر گرم ہے کہ خیر سے آصف کرمانی صاحب کی ”خدمات“ کے عوض انہیں یہ نشست سونپ دی جائے گی۔اس موقع پر مرحوم جنرل ضیاء الحق کے دور کا ایک واقعہ یاد آتا ہے جب انہوں نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل”عوامی رابطے“کی وزارت تخلیق کر کے اس کا قلمدان مرحوم مصطفی صادق صاحب کو سونپ دیا تھا۔

غالباََ ابھی مصطفی صادق صاحب نے ڈھنگ سے اس وزارت کا قلمدان بھی نہیں سنبھالا ہوگا کہ بہاولپور حادثے میں جنرل ضیاء الحق اپنے دیگر عسکری رفقا کے ساتھ ایک سازش کا شکار ہوگئے،یوں جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے ساتھ ہی عوامی رابطے کی یہ وزارت بھی شہید ہو گئی۔۔۔
ان تمام معاملات میں سب سے بڑا امتحان پاکستان کے مختلف اداروں کا ہے کیونکہ جس تیزی کے ساتھ خطے کی اور بین الاقوامی صورتحال نے کروٹ لی ہے اس میں اب وقت بہت کم بچا ہے ۔

ایک طرف متوجہ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیری اور بھارتی مسلمانوں پر بھارت کے ریاستی مظالم کئی گنا زیادہ ہوچکے ہیں۔دوسری جانب کابل کے درودیوار دھماکوں سے گونج رہے ہیں تو ذرا کچھ پرے مشرق وسطیٰ میں آگ لگی ہوئی ہے۔یہ صورتحال پاکستان کے انتہائی نازک ہے۔جہاں تک کابل کے حالیہ دھماکوں کو تعلق ہے تو سب سے حیران کن با ت یہ کہ نا تو داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی افغان طالبان نے۔

حالانکہ ان حالات میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے کسی بھی واقعے کی ذمہ داری قبول کرلینا کوئی بڑی بات نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔دوسری جانب اشرف غنی حکومت اور اس کی بھارتی طفیلی انٹیلی جنس ایجنسی نے آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کاپرانا راگ الاپنا شروع کردیا تاکہ افغان عوام کو پاکستان سے بدظن کیا جائے۔حال ہی میں افغان جنگ کا حصہ رہنے والے برطانوی میجر رابرٹ گیلی مورنے پاکستان کے خلاف بھارتی اور افغان سازشوں کا بھانڈہ پھوڑ کر بھارت اور این ڈی ایس کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔

برطانوی میجر کا کہنا ہے کہ افغان عوام اور افغان فوج میں بھارت ہی پاکستان کے خلاف بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔لیکن درحقیقت افغانستان میں پاکستان یا آئی ایس آئی کی مداخلت محض ایک افسانہ ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وہ تین مرتبہ افغانستان میں تعینات رہا ہے لیکن ہمیں آج تک افغانستان میں آئی ایس آئی کی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔برطانوی میجر کا یہ کہنا بھی ہے کہ قابل میں بڑھتا ہوا بھارتی اثرورسوخ خطے کے لئے بڑا خطرہ ہے۔

بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان میں پراپیگنڈے کے لئے باقاعدہ فنڈنگ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والے ہر دھماکے میں مغربی ممالک اور افغانستان میں یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔یوٹیوب پر موجود ان کے بیان کے مطابق”ماضی میں افغانستان میں روس اور برطانیہ کے درمیان”گریٹ گیم“لڑی گئی پھر اسی کی دہائی میں روس کی مداخلت کے بعددوسری گریٹ گیم جاری رہی اب موجودہ دور میں افغانستان پاکستان اور بھارت کے درمیان تیسری گریٹ گیم جاری ہے،میں نے جنوبی افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ متعدد بار جنگ لڑی ہے لیکن اس لڑائی کے دوران ہمیں کبھی پاکستانی مداخلت کے ثبوت نہیں ملے۔

ہم نے جاسوسی کے آلات کی مدد سے کئی بارافغان طالبان جنگجوؤں کی باتین سنی ہیں لیکن ان میں سے کوئی پاکستانی لہجے میں بات کرتا نظر نہیں آیا۔پاکستان کے خلاف افغانستان میں بھارت کی گریٹ گیم کی وجہ سے پورا خطہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہے“
یہ ایسے برطانوی فوجی افسر کے بیانات ہیں جو اپنے اور پرائیوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔

افغانستان میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کے بعد افغانستان میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔اشرف غنی کی حکومت جو امریکی ڈالروں کے سہارے افغانستان میں اپنی عملداری کا دعوی کرتی تھی بری طرح گرنے والی ہے۔خود امریکہ کے مفادات اس وقت افغانستان میں داؤ پر لگ چکے ہیں۔سولہ برس بعدامریکی جنگی مہمات پر سینکڑوں بلین ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں فوجی مروانے کے بعد امریکی امیدوں بر بری طرح اوس پڑچکی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سولہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اس سے وابستہ افراد اورحکومتوں نے امریکی عوام کے ٹیکسوں کے اربوں ڈالر ہڑپ کر لئے ہیں لیکن اب نتائج دینے کے لئے ان کی زنبیل میں کچھ نہیں،ٹرمپ نے نیٹو ممالک سے افغانستان کے لئے دوبارہ ہزاروں فوجی بھجوانے اور مزید عسکری فنڈنگ کی بھیک مانگ رہا ہے لیکن یورپین ممالک جنگ کی بجائے اسے مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود یورپ جوہری تبدیلیوں کی وجہ سے ہل چکا ہے۔برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوچکا ،باقی کئی یورپی ممالک اس اتحاد سے نکلنے کا عندیہ دے چکے اس ساری اتھل پتھل میں یورپی کی معاشی صورتحال تلپٹ ہوجانے کا پورا خطرہ موجود ہے اس لئے نیٹو کے ہزاروں فوجی دوبارہ افغانستان میں پھنسا کر وہ معاشی دیوالیہ نہیں ہوناچاہتے۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید خطرناک کروٹ لینے والی ہے امریکہ اور اسرائیل کے برسوں پرانے منصوبے کے تحت کردستان کی ”آزادریاست“کے قیام کا ڈول ڈال دیا گیا ہے جس پر ترک رہنما اردگان نے کھلے الفاظ میں امریکہ کو تنبہہ کی ہے کہ ترکی کسی صورت اپنی سرحدوں پر کرد دہشت گردوں کی ریاست برداشت نہیں کرے گا۔اس سخت بیان سے مسئلے کی شدت کا اندازہ گایا جاسکتا ہے۔


امریکہ اور اسرائیل کی پہلے روز سے یہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں روسی میزائلوں کو ”انٹرسپٹ“ کرنے کا نظام قائم کیا جائے تاکہ جس وقت اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں کھلی عسکری مداخلت کا لائسنس جاری ہوتو روس کی جانب سے میزائل حملوں کو روکنے کا بندوبست کیا جائے۔سب سے پہلے یہ کوشش پولینڈ میں کی گئی تھی جسے روس نے ناکام بنا دیا تھا اس کے بعد یہ کوشش جارجیا اور آب غازیہ کے علاقوں میں کی گئی جس پر روس نے مسلح مداخلت کرکے امریکی اور اسرائیلی عسکری ماہرین کوعلاقے سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا اس کے بعد یہ کوشش کی گئی کہ شمالی عراق اور شمالی شام کے کرد علاقوں کو آزاد کراکروہاں پر ایک ایسی امریکہ اسرائیل نواز انتظامیہ بٹھا دی جائے جس کی مدد سے میزائل شیلڈ پروگرام وہاں نصب کیا جائے یہی وجہ ہے کہ پہلے عراق کو ایران کے حوالے کیا گیا اس کے بعد ایران اور اس کی عسکری تنظیموں کو شام میں کھلی مداخلت کے مواقع فراہم کئے گئے پھر ایران کے ساتھ سابقہ اوباما انتظامیہ نے جوہری معاہدہ کرکے عالم عرب میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔

اس سارے معاملے میں یہی منصوبہ کارفرماتھا کہ وقت آنے پر ایران کے لئے خطے میں ایسے حالات پیدا کردیئے جائیں کہ وہ کردستان کے معاملے پر سودے بازی پر مجبور ہوجائے۔اب نئی ٹرمپ انتطامیہ نے آکر اس کے پہلے مرحلے پر یہ کام کیا ہے کہ دباؤ ڈالنے کی غرض سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا اس کے بعد ریاض میں کھڑے ہوکر ایران کو دہشت گرد ملک قراردے دیا گیا دوسری جانب ایک تیر سے دوشکار کرتے ہوئے عرب سے کئی سو بلین ڈالر کے اسلحے کا معاہدہ بھی کرلیا تاکہ عربوں کی رہی سہی پونجی امریکہ اور یورپ کے معاشی خسارے کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تو دوسری جانب اس معاہدے کی شکل میں ایران کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔

ایک طرف ایران کو عربوں کی نئی عسکری صف بندی سے ڈرایا جارہا ہے تو دوسری جانب عربوں کو ایران سے خوفزدہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔لیکن ہوا یہ کہ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے اختتام پر خود عربوں میں پھوٹ پڑچکی ہے۔اب ایک طرف قطر اور مصر ہیں تو دوسری جانب باقی عرب ملک۔اسی دجالی منصوبے کے لئے عراق اور شام میں تاریخ کی ایسی بھیانک ترین خونریزی کروائی گئی کہ انسانیت کا کلیجہ کٹ کہ رہ گیا۔

اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ امریکہ اور اسرائیل نواز کردریاست کا قیام اب سالوں کی نہیں بلکہ مہینوں کی بات ہے جس میں اقوام متحدہ جیسے صیہونی ادارے کو اسی طرح استعمال کیا جائے گا جیسے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو الگ کرنے کے لئے کام میں لایا گیا تھا اس کے بعد تاریخ انسانیت کی اس ہولناک ترین جنگ کا آغاز ہوگا جسے تمام”جنگجوں کی ماں“قراردیا گیا ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے بعد بھارت مشرقی سرحدوں پر تیزی کے ساتھ جنگی حالات پیدا کررہا ہے۔افغانستان میں ہونے والے حالیہ دھماکوں کا کھرا کابل کے بھاری سفارتخانے تک جاتا ہے۔اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ بھارت افغانستان میں امریکی بے بسی سے خوفزدہ ہے وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان کی سرزمین سے اس نے دہشت گردی کی جو چھتری پاکستان پر تانی ہوئی ہے وہ امریکی سہارے سے محروم ہوجائے یہی وجہ ہے کہ قابل میں دھماکے کروا کر امریکہ اور یورپی ممالک کو یہ تاثر دینامقصود تھا کہ افغانستان میں تاحال امریکہ اور نیٹو فوج کی مزید ضرورت ہے۔

لیکن ایسا ممکن کیسے ہو؟نیٹو میں شامل یورپی ممالک صاف جواب دے چکے اب رہ گیا امریکہ تو جس وقت ٹرمپ افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کی قرارداد امریکی کانگریس میں لے کر جائیں گے تووہاں سولہ برس سے افغانستان میں موجود امریکی موجودگی اور اس کے نتائج کے بارے میں سوال نہیں اٹھے گا؟یہ صورتحال بھارت کے لئے انتہائی مایوس کن ثابت ہوگی اور وہ ایسے خوف میں مبتلا ہوگا کہ اس وقت جب کابل میں پاکستان نوز حکومت یار موجود ہے اشرف غنی کی حکومت کا ناکام ہوجانا اور افغان عوام میں اشرف غنی کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوجانا بھارت کے لئے ڈراؤنا خواب نہیں بن جائے گا؟
اشرف غنی کے مخالف عبداللہ عبداللہ پہلے ہی روس کے قریب تصور ہوتے ہیں،افغان طالبان کی لیڈر شپ پہلے ہی ماسکو کے ساتھ رابطوں میں ہے پھر بھارت کونسا راستہ اختیار کرے گا؟یقینا وہ پاکستان پر عسکری مہم جوئی کا ارادہ کرے گا کیونکہ افغانستان میں امریکی ناکامی اور اشرف غنی حکومت کے زوال اور پختون حکمت یارکا سیاسی عروج مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی گرفت ڈھیلی کردے گا۔

ایسی صورت میں بھارت محسوس کرے گا مغربی سرحد سے پیٹھ محفوظ ہونے کے بعد اب پاکستان بھارت سے ان سولہ برسوں کا حساب چکائے گا۔جس میں اس نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا جال بنا تھا۔اس لئے وہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی پوزیشن میں آجائے گا۔ایسی صورتحال میں اسلام آباد پر ایسی حکومت کا مسلط ہونا جو ایک طرف بھارت نوازی اور دوسری جانب بے پناہ کرپشن کے حوالے سے بدنام ہوچکی ہے او ر جس نے ملک کا معاشی بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی ہو کسی طور بھی موجودہ صورتحال میں ملکی بقا کے لئے صائب نہیں ہوسکتی۔

اوپر بیان کردہ حالات تیزی سے رونما ہونے جارہے ہیں،ہر ملک ان آنے والے حالات میں اپنی بقا کے انتظامات میں مشغول ہے۔جبکہ پاکستانی قوم کے سامنے اداروں اور معاشی دہشت گردوں کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کیسوں کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچا کر اور دہشت گردوں کو چاہیے کہ وہ عسکری ہوں یا معاشی قرار واقعی سزادے کر جلد از جلد ملک اور قوم کو آنے والے وقت کہ لئے تیزی کے ساتھ تیارکیاجائے۔۔۔کیونکہ اب وقت بہت ہی کم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Nawaz Hakoomat Ghair Yaqeeni Ka Shikar is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.