این اے 120: (ن)لیگ اورپی ٹی آئی کے درمیان انتخابی معرکہ 17ستمبر کو ہوگا

پیپلزپارٹی اورجماعت اسلامی کی بھی انتخابی مہم جاری،ن لیگ بھرپور انتخابی مہم اورپی ٹی آئی قیادت میں اختلافات کابھی فائدہ اٹھائے گی،ن لیگ کو ساٹھ فیصد،پی ٹی آئی بیس اور باقی کو دس فیصد ووٹ ملنے کاامکان،الیکشن میں ہارجیت آئندہ پنجاب یامرکزمیں حکومت بنانے کی راہ ہموارکرے گی،تجزیاتی رپورٹ

Sanaullah Nagra ثناء اللہ ناگرہ ہفتہ 16 ستمبر 2017

NA 120 Intekhabi Maarka
پنجاب میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں17ستمبر کوضمنی الیکشن کا انتخابی معرکہ ہوگا،تخت لاہورکوحاصل کرنے کیلئے مسلم لیگ(ن)،پاکستان تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اورجماعت اسلامی کے امیدواروں کی انتخابی مہم فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے،تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120میں مسلم لیگ(ن)کی امیدوار محترمہ بیگم کلثوم نواز،تحریک انصاف کی امیدوارڈاکٹریاسمین راشد،پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل میر،جماعت اسلامی کے امیدوارایڈووکیٹ ضیاؤالدین انصاری اورآزادامیدوارمحمد یعقوب شیخ مدمقابل ہیں۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نوازگلے میں کینسرکے علاج کیلئے لندن میں مقیم ہیں،ان کی عدم موجودگی میں مریم نواز انتخابی مہم چلارہی ہیں،سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کی فعال اور منظم اندازمیں انتخابی مہم اور زمینی حقائق کاجائزہ لینے سے پتاچلتاہے کہ این اے 120میں مسلم لیگ ن کے امیدوارکوکل رجسٹرڈووٹوں میں سے60سے70فیصد،پی ٹی آئی کو 20سے 30فیصدووٹ ملنے کاامکان ہے،تاہم اس کافیصلہ حلقے کے عوام نے اپنے ووٹوں سے کرناہے۔

(جاری ہے)

شریف فیملی کی سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل بھی مستردکردی گئی ہے،تاہم نظرثانی اپیل کے فیصلے کے اثرات انتخابی نتائج پراثراندازنہیں ہوں گے۔الیکشن میں صرف3دن باقی رہ گئے ہیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی عمرا ن خان قرطبہ چوک جیل روڈپر ناکام پاورشوکے بعدمنظرسے غائب ہوگئے ہیں۔انتخابی مہم کے سلسلے میں داتادربارتک ایک ریلی کے سواعمران خان سمیت پی ٹی آئی کاکوئی اہم لیڈرووٹوں کیلئے سیاسی جوڑتوڑیاحلقے کی سیاسی شخصیات سے رابطے نہیں کررہا۔

لگتا ہے جیسے تحریک انصاف این اے 120میں اپنی جیت کی خوش فہمی میں مبتلا ہے لیکن یہ حلقہ مسلم لیگ ن کاگڑھ ہے اس کے باوجودن لیگ بھر پور انتخابی مہم چلائی جارہی ہے۔یہ حلقہ خالصتاً اندرون یعنی اولڈلاہورپرمشتمل ہے،یہاں برصغیرپاک وہند کی تاریخی عمارتیں جن میں تعلیمی ادارے،مساجد،اقلیتوں کی عبادگاہیں ،پرانے گھربھی موجودہیں۔اقلیتوں میں عیسائی،ہندواور سکھ برادری بھی کثیرتعدادمیں مقیم ہے۔

اس حلقہ کوانتخابی لحاظ سے لاہور کا دل یا تخت لاہور بھی کہا جا تاہے یہ انتخابی حلقہ ایبٹ روڈ،کوپرروڈ،بیڈن روڈ، انارکلی، اعظم مارکیٹ،بہاول شیرروڈچوبرجی،بندروڈچوہان پارک،بلال گنج چوک،بلال گنج ملک پارک،سرکلرروڈ،مزنگ،داتادربارموہنی روڈ،ڈیوسماج روڈ سنت گڑھ،دھوبی گھاٹ روڈ،فریدکورٹ مزنگ،فین روڈ،گردوارامزنگ،گورنرہاؤس ،واپڈاہاؤس،ہال روڈ،ہجویری داتادربار،اسلام گنج،اسلام پورہ،کریم پارک بلاک ون سے کریم پارک راوی روڈ،کھوکھرٹاؤن،لیک روڈ،مسلم گنج مزنگ،لٹن روڈ،لوئرمال انارکلی،مرضی پورہ،محلہ گنج بخش روڈ،مزنگ اڈا، مبارک پورہ،تاج پورہ،ناباروڈپرانی انارکلی،اولڈکیمپس پنجاب یونیورسٹی،نسبت روڈ،قصورپورہ،پریم نگرراج گڑھ،راوی کالونی ،راوی روڈ،ریگل چوک اسٹیٹ بینک،ساندہ روڈ،ریوازگارڈن،رائل پارک،شاہ عالم کالونی ،سنت نگر،ٹیمپل روڈ،ویٹرنری یونیورسٹی سمیت دیگرعلاقے شامل ہیں۔

یہ گنجان آبادی والاحلقہ ایک وسیع و عریض علاقے پرمشتمل ہے ۔حلقے کی کل آبادی 456960افرادہیں جن میں مرد 125877 اور خواتین کی آبادی106923ہے۔قریباًگزشتہ 30سالوں سے اس حلقہ میں مسلم لیگ(ن)کو انتخابی برتری حاصل رہی ہے۔یہ حلقہ بیگم کلثوم نوازکا میکہ بھی کہلاتاہے۔لاہورکے یہی وہ انتخابی حلقے ہیں جن میں مسلم لیگ(ن)کے ووٹروں،سپورٹروں کا سیاسی گڑھ ہونے کے باعث لاہور کو مسلم لیگ(ن)کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔

جس کی وجہ برادری ازم،رشتہ داریاں،کاروباری طبقات اور تاجر برادری،سیاسی وابستگی،سنجیدہ اور تعلیم یافتہ لوگ بڑی اہمیت کے حامل ہیں، جو ووٹ ڈالتے وقت مسلم لیگ(ن) کے انتخابی نشان شیر پر مہر ثبت کرنا نہیں بھولتے ۔جبکہ اس حلقے کے عوامی مسائل پرتوجہ ڈالی جائے تو بے ہنگم ٹریفک کے مسائل،سیوریج اور اندرون لاہورسڑکوں کی خستہ حالی ودیگرشامل ہیں۔

لیکن عام انتخابات 2013ء سے قبل ہونے والے انتخابات پراگر نظر ڈالی جائے تو تحریک انصاف این اے 120میں کہیں نظرواضح دکھائی نہیں دیتی۔تاہم اب عمران خان اس حلقے کے الیکشن کوملک کی تاریخ کافیصلہ کن الیکشن قراردے رہے ہیں۔عمران خان کے نزدیک یہی وہ حلقہ ہے جہاں سے ن لیگ کوشکست دے کرلاہورکوفتح کیاجاسکتاہے۔دراصل لاہورکوفتح کرنے کامطلب پنجاب میں برتری حاصل کرکے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کی راہ ہموارکرناہوتاہے۔

عام انتخابات 2013ء کودیکھاجائے تومسلم لیگ ن کے قائداورانتخابی امیدوار نوازشریف 91683ووٹوں سے اپنے مدمقابل امیدوارو ں سے واضح برتری حاصل کرکے تیسری مدت کیلئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔تاہم انہیں سپریم کورٹ میں پاناما کیس میں اقامہ کے الزام پرنااہل قراردے دیاگیا۔جس کے باعث ایک بارپھراین اے 120کی نشست خالی ہوگئی۔اب اس خالی نشست پرنوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نوازامیدوارہیں۔

الیکشن 2013ء میں نوازشریف کے مدمقابل پی ٹی آئی کی امیدوارڈاکٹریاسمین راشدنے 52354،پیپلزپارٹی کے امیدوار زبیرکاردارنے2605،جے یوآئی ف کے مولاناحافظ ثنااللہ نے1152ووٹ حاصل کرکے الیکشن ہارگئے۔حلقے میں کل ووٹوں کی تعداد153434جن میں 151403درست قراردیے گئے۔2008ء کے انتخابات میں کل رجسٹرزووٹوں کی تعداد268552تھی،جن میں 97435 کاسٹ ہوئے اور 96275ووٹ درست پائے۔

انتخابی نتائج کے مطابق این اے 120میں مسلم لیگ ن کے امیدواربلال یاسین نے65946ووٹوں سے مخالف امیدواروں کوشکست دی۔جبکہ پیپلزپارٹی کے جہانگیربدر(مرحوم)صرف24380ووٹ حاصل کرسکے۔الیکشن 2008ء میں نوازشریف جلاوطنی کے بعدوطن واپس آئے تھے تاہم انہیں جلاوطنی معاہدے کے تحت الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیاگیا،جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب اس معاہدے کی تردیدبھی کی گئی۔

جنرل (ر)پرویزمشرف کے آمرانہ دورحکومت میں الیکشن 2002ء میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدوارپرویزملک نے کل درست ووٹوں میں سے 71987ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔جبکہ پیپلزپارٹی کے الطاف احمد قریشی19483اور ق لیگ کے میاں محمد اشرف 15085ووٹوں سے الیکشن ہارگئے۔اگراس حلقے کی ماضی کی تاریخ کودیکھاجائے تو1990-93ء میں مخدوم جاوید ہاشمی نے اسلامی جمہوری اتحاد جبکہ 1997-99ء مسلم لیگ ن کے پلیٹ فورم سے الیکشن جیت کررکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

جبکہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اورسابق وزیراعظم شہید محترمہ بے نظیربھٹوکی قیادت میں1993-97ء کے الیکشن میں مخدوم شاہ محمودقریشی جیت کررکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اسی طرح محمدنوازشریف نے 1993-96ء ایبٹ آباہری پوراین اے 12 سے الیکشن جیتا۔ن لیگ کے قائد نوازشریف پھردوسری بار 1997-99ء کے عام انتخابات میں بھی ہری پورایبٹ آباداین اے 12 سے الیکشن جیت کردوسری مدت کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق الیکشن میں مسلم لیگ ن کوبلدیاتی نمائندوں،پی ٹی قیادت میں اختلافات،حکومتی جماعت ہونے سمیت ایک فائدہ یہ بھی ہواہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کوحلقے میں کاجاکرانتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔جبکہ اس کے برعکس سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازرکن قومی اسمبلی نہ ہونے کے باعث بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔

دونوں جماعتوں کی جانب سے کارنرمیٹنگزاور ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم کاسلسلہ بھی جاری ہے۔تاہم مسلم لیگ ن سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کیخلاف ووٹرزکی ہمدردی حاصل کررہی ہے جبکہ پی ٹی آئی نوازشریف کوسپریم کورٹ میں کرپشن پرنااہل کروانے کاکریڈٹ لینے کی کوشش کررہی ہے۔تاہم اصل فیصلہ 17ستمبر کو عوام نے اپنے ووٹ سے کرنا ہے ۔ ضمنی انتخاب این اے 120 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 3لاکھ 21ہزار 786 ہے۔جبکہ کل 220پولنگ اسٹیشنزبنائے گئے ہیں۔جن میں 39بائیومیٹرک پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ضابطہ اخلاق کے مطابق ہفتہ کی درمیانی شب جلسے جلوسوں کی شکل میں انتخابی مہم کا عمل ختم ہو جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

NA 120 Intekhabi Maarka is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.