ن لیگ کی پختونخواہ میں کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے تگ و دو

خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی تبدیلی کے سبب کیا مسلم لیگ ن اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر پائے گی۔یہ وہ سوال ہے جو ہر عام و خاص کے ذہن میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر مقام نو منتخب صدر مرتضی جاوید عباسی، نو منتخب جنرل سیکرٹری میں وہ صلاحتیں موجودہیں جو کے پی کے میں مردہ مسلم لیگ میں جان ڈال سکتی ہیں

پیر 8 مئی 2017

N League Ki KPK Main Khoya Muqaam Hasil Karne Ki Tag o Du
راجہ منیر خان:
خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی تبدیلی کے سبب کیا مسلم لیگ ن اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر پائے گی۔یہ وہ سوال ہے جو ہر عام و خاص کے ذہن میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر مقام نو منتخب صدر مرتضی جاوید عباسی، نو منتخب جنرل سیکرٹری میں وہ صلاحتیں موجودہیں جو کے پی کے میں مردہ مسلم لیگ میں جان ڈال سکتی ہیں، کیوں 2000ء کے بعدمسلم لیگ ن کے پی کے میں صرف ہزارہ تک محدودہوکر رہ گئی تھی بلکہ ہزارہ میں بھی اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں تھے۔

1997ء سے قبل مسلم لیگ ن کے پی کے میں الیکشن نتائج کے اعتبار سے پہلے یا ایک آدھ سیٹ کی کمی سے دوسرے نمبر پر آتی تھی لیکن 2000ء کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے اس میں مسلم لیگ پہلے دوسرے تو دور کی بات ہے چوتھے پانچویں نمبر کی جماعت بن کر رہ گئی تھی جو مسلم لیگی قیادت کے لیے لمحہ فکریا تھا۔

(جاری ہے)

پختون بیلٹ میں مسلم لیگ ختم ہو کر رہ گئی تھی جس کی بنیادی وجہ مرکزی قیادت کی عدم توجہی تھی۔

مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف کا فوکس صرف پنجاب تھا صوبے کی قیادت خانہ پوری کے لیے بنائی ہوئی تھی وہاں سابق صوبائی قیادت کی بھی نااہلی تھی پیر صابر شاہ کیساتھ جنہیں جنرل سیکرٹری بنایا گیا ان کا فوکس پارٹی کی بہتری نہیں بلکہ اپنے مفادات کومضبوط کرنا تھا، جس کا نقصان پارٹی کو ہوا۔رحمت سلام خٹک پارٹی کے پروگرام ترتیب دینے کی بجائے اپنے کاروبار میں مگن رہے جس وجہ سے صوبہ کے پی کے میں مسلم لیگ ن ایک چھوٹی جماعت بن کر رہ گئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ امیرمقام اورمرتضی جاوید عباسی کیسی ٹیم بناتے ہیں اور وہ ضلعوں میں کس طرح کے لوگوں کو لاتے ہیں جو پارٹی کو کھویا ہوا مقام دے پائیں گے وہاں امیر مقام کا بھی امتحان ہے۔ اگر انہوں نے صرف اپنے گروپ کو مضبوط کیا اور نظریاتی لوگوں کو نظر انداز کیا تو اس سے مسائل پیدا ہونگے امیر مقام نے صوبہ کے پی کے میں پچھلے ایک سال کے اندر پختون بیلٹ میں مسلم لیگ میں اچھے سیاسی ناموں کو شامل کیا ہے ۔

جس کا فائدہ یقینا مسلم لیگ ن کو ہوگا ا نکے ساتھ صوبائی جنر ل سیکرٹری مرتضی جاوید عباسی حقیقی مسلم لیگی ہیں وہ صوبے میں اپنے پرانے اور نظریاتی لوگوں کو مضبوط کریں گے صوبے میں گروپ بندی کا شکار مسلم لیگ میں گروپ بندیاں ختم کر کے ضلعوں میں باہمی مشاورات کے ساتھ عہدیدارلائیں۔سابقہ ادوار کی طرح ڈکٹیٹر شپ کا طریقہ نہیں اپنائیں گے تو یقینا صوبہ کے پی کے میں مسلم لیگ ایک بھر پور قوت بن کر ابھرے گی وہا ں صوبائی صدرامیر مقام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا گروپ مضبوط کرنے کی بجائے مسلم لیگ ن کو مضبوط کریں تو انکی عزت میں مزید اضافہ ہوگا۔

پیر صابر شاہ نے اپنا بھر پور وقت پارٹی کو دیا ہے اور ہمیشہ سے ہر مشکل حالات میں بھی وہ پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں مرکزی قیادت کی جانب سیپچھلے چار سال سے عملی طور پر وہ نظر انداز ہیں انکے پاس صوبائی صدارت تو تھی لیکن اختیارات نہ تھے جس سے وہ پارٹی کارکنوں کے مسائل حل کرتے جس کا نقصان پارٹی کو ہوا اور پارٹی صوبے میں کمزور ہوتی گئی۔ صوبے میں مسلم لیگ ن کی جہاں کمزور ہونے کی قصوروار صوبائی قیادت تھی وہاں مرکزی قیادت بھی برابر کی شریک تھی جس کا نقصان پارٹی کو ہوا۔

اب جو صوبے میں قیادت امیر مقام اور مرتضی جاوید عباسی کی صورت میں آتی ہے ان کے پاس اختیارات بھی ہیں امیر مقام وزیر اعظم کے مشیر مرتضی جاوید عباسی ڈپٹی سپیکر ہیں وہ کارکنوں کے مسائل حل کریں گے تو یقیناً صوبے میں قوت بن کر ابھرے گی یہ الیکشن کا سال ہے جہاں دیگر جماعتیں صوبے میں صف بندیوں میں مصروف ہیں وہاں مسلم لیگ ن بھی نئے سرے سے اپنی صف بندی کرے تاکہ آئندہ انتخابات میں وہ بہتر نتائج دے سکے۔

1997ء میں مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک ایسا الیکشن بھی ہوا جس میں مسلم لیگ ن کے پاس صرف دو نشستیں تھیں ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نئی صوبائی قیادت کو آگے بڑھنا ہوگا ۔تب کامیابی ممکن ہو پائے گی صوبہ کے پی کے میں پاکستا ن تحریک انصاف کی صوبائی قیادت اپنے دور اقتدار میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔ اس لیے مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت کو ایک اچھا میدان ملا ہے جس کا وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن صوبہ کے پی کے میں الیکشن میں مخصوص ہاتھوں کا بھی کردار ہوتا ہے وہ بھی صوبے کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ اپنی مضبوطی کے لیے ایسی جماعت کو آگے لے آتے ہیں جو نا تجربہ کار ہوتی ہیں الیکشن 2002ء میں ایم ایم اے جبکہ الیکشن 2013ء میں پی ٹی آئی کو لایا گیا ان دونوں حکومتوں نے صوبے کے مسائل کم کرنے کے بجائے بڑھائے ۔

الیکشن 2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنائی گئی ا ن میں تجربہ کار لوگ تو موجود تھے لیکن اکثریت کرپشن کے بادشاہ تھے جنہوں نے صوبہ کے وسائل کو صوبے پر لگانے کے بجائے اپنے بینک بیلنس بھرے۔اب جبکہ امیر مقام نے پختون بیلٹ میں بڑا کام کیا ہے اس کا فائدہ ن لیگ کو پہنچے گا کیونکہ پچھلے پندرہ سالوں سے صوبہ کے پی کے میں مسلم لیگ ن نے پختون بیلٹ پر توجہ نہیں دی تھی جس سے پختون بیلٹ تقسیم ہوجانے کی وجہ سے درست قیادت کا انتخاب نہیں ہوسکا تھا جس کا نقصان صوبے کو ہوا ہے۔

اس دفعہ مسلم لیگ ن نے جہاں ہزارہ پر توجہ دی ہے وہاں پختون بیلٹ پر بھی امیر مقام کی صورت میں بھر پور توجہ دی گئی ہے جس سے آئندہ انتخابات میں مخصوص ہاتھ وہ کام نہیں کر پائیں گے جو پچھلے تین الیکشن میں کرتے آئے ہیں۔البتہ وہ ماحول بنانے کی کوشش ضرورکریں گے کہ کسی مخصو ص جماعت میں وہ صوبے کی اہم شخصیات کو اکھٹا کرنے کی کوشش کریں گے لیکن صوبہ کے عوام اگر صوبہ کی ترقی چاہتے ہیں تو سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں ماحول کو نہ دیکھیں۔اس ماحول نے صوبے کے مسائل بڑھائے ہیں۔ایسی قیادت کو لائیں جو صوبے کے مسائل ختم کرسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

N League Ki KPK Main Khoya Muqaam Hasil Karne Ki Tag o Du is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.