مائنس کا جواب پلس کئے جانے کی کوشش

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف اپنے عہدے سے فارغ ہو گئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62,63جس پر تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات رکھتی ہیں، اس کی تلوار مسلم لیگ کی حکومت پر چل گئی ہے

جمعہ 4 اگست 2017

Minus Ka Jawab Plus Kiay Jany Ki Koshish
امین یوسف :
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف اپنے عہدے سے فارغ ہو گئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62,63جس پر تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات رکھتی ہیں، اس کی تلوار مسلم لیگ کی حکومت پر چل گئی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس کی زد میں مزید کون کون آئے گا؟ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف بھی اسی نوعیت کا ایک کیس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔

مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں عمران خان کو آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ اس کیس کافیصلہ بھی متوقع ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدالت عمران خان کو اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کا مرتکب قراردیتے ہوئے نااہل قرار دیتی ہے تو پھر یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور ملک کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟ کچھ حلقوں نے پہلے بھی اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ سیاستدانوں کو اپنی داڑھی عدالت کے ہاتھوں میں نہیں دینی چاہیے۔

(جاری ہے)

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ معاملہ سیاستدانوں کے ہاتھوں سے نکل کر سپریم کورٹ کے پاس چلاگیا ہے۔ میاں نواز شریف کے بعد عمران خان بھی نااہل ہوجاتے ہیں تو ان دونوں جماعتوں کی باگ ڈور کون سنبھالے گا اور عوام ان مقبول رہنماو¿ں کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا صرف ان کی جماعتوں کو ووٹ دیں گے یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل سیاسی حلقوں میں گردش کررہے ہیں ۔

مسلم لیگ (ن) کے بارے میں جائے تو کہا جاسکتا ہے میاں نواز شریف کا ایک اچھا متبادل میاں شہباز شریف کی شکل موجود میں ہے۔ پنجاب میں میاں صاحب کی کارکردگی ایسی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک متحرک شخصیت ہیں اور مسلم لیگ (ن)کی قیادت کے اہل بھی ہیں تاہم کیا عوام بھی انہیں اسی طرح ووٹ دیں گے جس طرح میاں نواز شریف کے نام پر دیتے تھے اس کا جواب 2018کے انتخابات میں ہی مل سکتا ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف کی صورت حال یکسر مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کو ہم عمران خان کا دوسرا نام قرار دے سکتے ہیں۔ اگر ان کو سیاسی میدان سے آو¿ٹ کردیا جاتا ہے تو ان کی پارٹی میں کوئی متبادل نہیں۔ گو کہ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی اوراسد عمر کا نام لیا جارہا ہے لیکن کیا ان کے ناتواں کاندھے قیادت کا یہ بوجھ اٹھابھی سکیں گے اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف اگرچہ جشن منارہی ہے لیکن پس پردہ صورت حال یہ نظر آرہی ہے کہ معاملات عدالتوں میں لے جانے کا حقیقی نقصان پی ٹی آئی کو ہی اٹھانا پڑے گا۔پاناما کیس کا فیصلہ آئندہ عام انتخابات میں کس حد تک اثر انداز ہوگا اس کے بارے میں فی الحال اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر صوبہ سندھ کی صورتحال دیکھیں تو یہاں کی سیاست بھی پاناما لیکس جیسے الزامات سے مبرا نہیںکیونکہ پیپلز پارٹی کے سربراہ پر سرے محل اور دیگر الزامات کا سامنا رہا ہے۔

دوسری طرف ایم کیو ایم کے قائد ملکی سیاست سے مائنس کئے جا چکے ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کا صوبے میں کوئی بڑا اسٹیک نہیں ہے۔ دیہی علاقوںمیں پیپلزپارٹی اور شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی جڑیں اب بھی مضبوط ہیں۔ اس وقت بظاہر اندرون سندھ پیپلز پارٹی کو کوئی بڑا سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے لیکن اگر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ممتاز علی بھٹو، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم، مسلم لیگ (ن) اور ان جیسے دیگر پیپلز پارٹی مخالف ہیوی ویٹس شخصیات انتخابات سے قبل اگر کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیتی ہیں یا کوئی نیا اتحاد تشکیل دے کر مسلم لیگ (فنکشنل)، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم سے انتخابی اتحاد کرتی ہیں تو پیپلز پارٹی کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

کراچی، حیدر آباد، سکھر اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کی صورت حال 22اگست کے بعد یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ ”مائنس الطاف“ کے بعد ایم کیو ایم کے مختلف گروپس اپنے آپ کو ”پلس“ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی بطن سے جنم لینے والی پاک سرزمین پارٹی قومی سیاست کا نعرہ لگا کر مہاجر سیاست سے باہر نکل گئی ہے۔ فاروق ستار کی ایم کیو ایم (پاکستان )22اگست کے بعد کراچی میں ہونے والے 2ضمنی الیکشن ہار چکی ہے۔

مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد مہاجر ووٹ بینک بچانے کی صدا لگا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے کراچی کو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ”اوپن“ کر دیا ہے۔ مہاجر سیاست سے وابستہ کچھ شخصیات اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ انتخابات سے قبل مہاجر ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچایا جائے۔ پہلی کوشش یہ ہے کہ ان تینوں میں جماعتوں کا انضمام ہو جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ جماعتیں کم از کم انتخابی اتحاد کر لیں اور ایک دوسرے کے مدمقابل اپنے امیدوار نامزد نہ کریں۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات سے قبل اس عمل میں پیش رفت نہیں ہو سکی تو کراچی کے انتخابی نتائج ”سرپرائزنگ “ہوسکتے ہیں۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جس کے انتخابی نتائج ملک میں مرکزی حکومت کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ سینٹرل پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن مضبوط ہے لیکن اگر پی ٹی آئی پاناما کیس کے فیصلے کو بنیاد بنا کر شریف برادران کے خلاف ایک بھرپور مہم چلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔

لیکن سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کو عدالت نااہل قرار دے دیتی ہے تو تحریک انصاف کی قیادت کون کرے گا؟ اور کیا وہ ایسی شخصیت ہوگی جو شریف برادران کو چیلنج کر سکے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب کی طرف زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ اگر جنوبی پنجاب کے سیاسی ہیوی ویٹس کو وہ اپنا ہمنوا بنا لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پنجاب میں ایک اچھا مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

خیبرپختونخوا ہ کے ووٹرز ملک کے سب سے باشعور ووٹرز کہے جاسکتے ہیں، جو کارکردگی کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ہر انتخابات میں یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ صوبے کی برسراقتدار جماعت عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے ۔ تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی اس وقت صوبے میں حکمرانی کررہی ہے لیکن صوبے میں کتنی تبدیلی آئی ہے اس کا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہی ہوگا۔

تحریک انصاف خیبرپختونخوا ہ اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے۔ ارکان اسمبلی کو وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے شکایات ہیں اور یہ اندرونی اختلاف آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان میں ہمیشہ سے قبائلی سردار ہی انتخابات میں اثر انداز ہوتے رہے ہیں جبکہ جمعیت علماءاسلام (ف)بھی اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں اس وقت زیادہ تر ارکان وہ ہیں جنہوںنے آزاد حیثیت سے انتخاب جیتا تھا اور بعد میں پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔

بلوچستان کے ارکان کی روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ جیتنے والی جماعت کا ہی ساتھ دیتے ہیں اور مستقبل میں یہی امید ہے۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 19سال بعد ملک میں مردم شماری کا عمل مکمل کرایا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن مردم شماری کے اعداد و شمار کو مدنظررکھتے ہوئے نئی انتخابی حلقہ بندیوں اور حلقوں کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے تو پھر یہ عمل یقیناً آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہوگا۔

اس حوالے سے سندھ میں صورتحال یکسر تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔ اگر شہری آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور شہری حلقوں کی نشستیں بڑھ جاتی ہیں تو اس کا فائدہ ایم کیو ایم کو مل سکتا ہے اور اس مفروضے کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے کہ صوبے کا وزیراعلیٰ محض سندھی زبان بولنے والا شخص ہی ہوسکتا ہے۔ اگر نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں شہری حلقوں کی نشستوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سندھ میں ایک اردو بولنے والا وزیراعلیٰ بھی سامنے آسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Minus Ka Jawab Plus Kiay Jany Ki Koshish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.