معمولی بحث پر مایوس ذہنوں کا بھونچال کا گمان

جب سے میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھا لا ہے شاید ہی ان کا کوئی دن سکھ کا گذرا ہو ، ہر روز انہیں ایک نئے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا ”پھن “پھیلائے ان کا منتظر ہو تا ہے

ہفتہ 6 مئی 2017

Mamooli Behes Per
نواز رضا:
جب سے میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھا لا ہے شاید ہی ان کا کوئی دن سکھ کا گذرا ہو ، ہر روز انہیں ایک نئے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا ”پھن “پھیلائے ان کا منتظر ہو تا ہے۔ بحرانوں نے میاں نواز شریف کو ”کندن “ بنا دیا ہے نواز شریف بحرانوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں وہ نتائج کی پروا کئے بغیر ہر بحران کا آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے نہیں گھبراتے نہیں۔

بحرانوں سے کھیلنے کی وجہ سے ہی وہ طویل عرصہ تک ”جلاوطنی“ کی زندگی بسر کر چکے ہیں ان کے تینوں ادوار میں ”سول ملٹری تعلقات“ میں با رہا کشیدگی کا باعث بنے 12اکتوبر2017ء کو سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی ”مارشل لاء“ کے نفاذ کا باعث بنی۔

(جاری ہے)

پچھلے 4سال سے پوری اپوزیشن انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کبھی اپوزیشن فوج سے ضرورت سے زائد ”امیدیں“ وابستہ کر لیتی ہے کبھی’امپائر“ کے اشارے کی منتظر ہوتی ہے اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دئیے جانے کے خواب دیکھنے لگتی ہے لیکن اسے مسلسل مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب بھی حکومت اور فوج کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے اپوزیشن رہنما ؤں بالخصوص عمران خان کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے لیکن حکومت میں چوہدری نثار علی خان جیسی شخصیات جو دونوں ریاستی اداروں کے درمیان ”پل “ کا کردار کرنے والی شخصیات کی موجودگی سے صورت حال کی خرابی آخری حدود کو نہیں چھوتی۔

اپوزیشن پانامہ پیپرز لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ”وکٹ“ نہ گرنے پر مایوس دکھائی دے رہی ہے اب اس کے پاس وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبہ کے سوا کوئی نعرہ نہیں بچا۔اپوزیشن کی تین جماعتیں تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر وزیر اعظم محمد نواز شریف پر استعفیٰ ٰکے لئے دباؤ بڑھانے کے لئے ایجی ٹیشن کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جب کہ دوسری طرف وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھی اپوزیشن کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے ”جارحانہ“ انداز میں” سیاسی کھیل“ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے انہوں نے میگا پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھنے یا افتتاحی تقریبات پر بڑے جلسوں سے خطاب کر کے رابطہ عوام مہم شروع کر رکھی ہے پچھلے کچھ دنوں سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے لب و لہجہ میں قدرے سختی آگئی ہے۔

وہ اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کا نام لئے بغیر اس کو اپنا ٹارگٹ بنا رہے ہیں ایسا دکھائی دیتا ہے ملک انتخابی ماحول میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ خدا خدا کر کے 7ماہ کی کوششوں کے بعد ڈان انکوائری رپورٹ پر اتفاق رائے ہوا تھالیکن وفاقی حکومت نے ڈان لیکس پر نامکمل سفارشات جار ی کر کے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے رہی سہی کسر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفورکے اس ٹویٹ نے نکال دی جس میں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے خط کے مندرجات کو یکسر مسترد کر دیا۔

ایک مرحلے پر تو ایسا دکھائی دیا جیسے کوئی ”بھونچال“ آگیا ہو۔ اپوزیشن تو اسی دن کی منتظر تھی پہلے وہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے خط کو ”مک مکا“ قرار دے رہی تھی لیکن جب فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا ٹویٹ پر رد عمل آیا تو” ڈفلیاں“ بجانے لگی بلکہ ان کے لب و لہجہ میں تبدیلی آگئی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی ڈان لیکس پر وزیر اعظم کے ڈائریکٹو کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیااور فوجی ترجمان کی ”ہاں میں ہاں “ ملانا شروع کردی۔

30 اپریل 2017کی دوپہر وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد کی جانب سے ڈان لیکس انکوائری کے پیرا18 کی وزیر اعظم کی جانب سے منظوری بارے میں سیکریٹری داخلہ کو جاری ہونے والاخط ہی تنازعہ کا باعث بنا۔ اسٹیبلشمنٹ، کابینہ اور اطلاعات ونشریات کے سیکرٹریوں کو اس کی نقول بھجوائی گئیں اس خط کو” نوٹیفیکیشن “ قرار دے کر سماجی رابطہ کے لئے ”ٹویٹر“ پر” قلمی جنگ“ شروع ہو گئی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اس ٹویٹ نے جہاں ”سول ملٹری تعلقات“ پر سوال کھڑے کر دئیے وہاں اپوزیشن جو ہر وقت ایسے مواقع کی منتظر رہتی ہے کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے ٹویٹر پرجاری کردہ میں کہا گیا ”ڈان لیکس پر نوٹیفیکیشن نامکمل ہے انکوائری بورڈ کی سفارشات کی روح کے مطابق نہیں لہٰذا یہ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے“ اس ٹویٹ کے سامنے آنے سے” سول ملٹری تعلقات “ ہم آہنگی بارے میں قائم تاثر کو شدید دھچکا لگا۔

جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ”ٹویٹر“ پر قلمی جنگ لڑی جارہی تھی اس وقت وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کراچی کے دورے پر تھے۔ انہوں نے صورت حال کی نزاکت بھانتے ہوئے فوری طور وزیر اعظم محمد نواز شریف اور عسکری قیادت سے رابطہ قائم کیااور ڈان لیکس پر حکومتی خط جسے انہوں نے وفاقی وزارت داخلہ کے لئے وزیر اعظم کا ”ریفرنس “قرار دیا پرٹویٹ سے پیدا ہونے والی صورت حال ”تشویش“ کا اظہار کیا۔

انہوں نے صورت حال کو مزید خراب ہونے بچا نے کے لئے ڈان لیکس انکوائری رپورٹ پر بیان بازی سے گریز کیا تاہم انہوں نے اس حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ”اس معاملے پر اتنا بھونچال کیسے آگیا؟ انکوائری بورڈکی سفارشات کی روشنی میں وزارت داخلہ نوٹیفیکشن جاری کرے گی‘ انہوں نے اہم سرکاری معاملات پر ٹوئیٹس پر اظہار” ناپسندیدگی“ کرتے ہوئے اسے جمہوریت اور پاکستان کے نظام اور انصاف کے لئے” زہر قاتل“ قرار دیا۔

ان کا موقف تھا کہ ”یہ نوٹیفکیشن جاری کرنا وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے“۔انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ ”ورکنگ ڈے“ پر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے گا “ انہوں نے ہفتہ کے روزوفاقی وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری کو بھی گھر بھجوا دیا لیکن منگل بھی گذر گیا۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ڈان لیکس انکوائری رپورٹ پر مزید کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی کوئی نیا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔

پورا دن پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے اقدامات کی ”کھوج“ میں رہا لیکن اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سارا دن پنجاب ہاؤس میں بیٹھ کر چار روز کی زیر التوا فائلوں پر احکامات جاری کرتے رہے لیکن وفاقی وزارت داخلہ میں ”پر اسرارخاموشی“کے باعث کوئی خبر نہ بن سکی۔ اتوار کو وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت جاتی امرا میں ”کچن کیبنٹ“ کے منعقد ہونے والے غیر معمولی اجلاس میں شرکت کے لئے چوہدری نثار علی خان لاہور گئے۔

اجلاس کے بعد الیکٹرانک میڈیا نے ”در فتنی“چھوڑ دی کہ ڈان لیکس انکوائری رپورٹ پر پیدا ہونے والی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے چوہدری نثار علی خان اور محمد اسحقٰ ڈار کو ٹاسک دے دیا گیا ہے غالباًیہ پہلا موقع ہے ”کچن کیبنٹ “کے اجلاس کے بعد دو وزراء کو ”ٹاسک “دئیے جانے والی قیاس آرائیوں کی وزیراعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹویٹر پر تردید کردی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز کو ایک ”قیاس آرائی “کی تردید کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ وزیر اعظم نے دو وزراء کو ٹاسک دئیے جانے کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کیوں کی؟پانچ روز گذرنے کے با وجود حکومت اورفوج دونوں اطراف نے ”ڈان لیکس“پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جس سے صورت حال مزید”گھمبیر“ہوتی جارہی ہے لہذا ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے منظر عام آنے تک کوئی بات حتمی طور نہیں کہی جا سکتی کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

سول ملٹری تعلقات کو خرابی سے بچانے کے لئے ”مٹی“ ڈال کر آگے نکل جانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔ سر دست وزیر اعظم کے خصوصی معاون سید طارق فاطمی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ابھی تک صورت حال واضح نہیں کہ ان سے صرف وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے یا سبکدوش کر دیا گیا ہے۔ صورت حال واضح نہیں سیاسی حلقوں میں سید طارق فاطمی کو ”موسمیاتی تبدیلی“ کی وزارت کا قلمدان دئیے جانے کی ”افواہ“ بھی گرم ہے جب کہ راؤتحسین کو پی آئی او کے منصب سے ہٹا کر”افسر بکار خاص “ بنا دیا گیا ہے تاہم انہوں نے بھی اپنے خلاف 1973ء کے قواعد وضوابط کے تحت ہونے والی کارروائی کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

خدا خیر کرے ڈان پیپرز لیکس کس کس کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے اس کے لئے ہمیں کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو تین نسلوں سے عسکری پس منظر رکھنے والے واحد سیاست دان ہیں ان کا فوج میں وسیع حلقہ احباب ہے۔ یہی بات ہے جب بھی حکومت اور فوج کے درمیان ”تناؤ “کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو چوہدری نثار علی خان ہی واحد شخصیت ہیں جو ”پل “ کا کردار ادا کرتے ہیں پی او ایف واہ ان کا حلقہ انتخاب ہے ایک دوبار کی بجائے وہ ہمیشہ اس حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں ان کی کوششوں سے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے پی او ایف واہ کے محنت کشوں کے لئے ایک ارب20کروڑ روپے کا تاریخی پیکج منظور کرایا جس کا یوم مئی پر اعلان کے لئے پی او ایف واہ جا رہے تھے انہیں ممکنہ دہشت گردی کا خوف دلا کر جلسہ منسوخ کرنے پر مجبور کیا گیا لیکن چوہدری نثار علی خان سیکیورٹی ایجنسیوں کی ”ایڈوائس “ کو یکسر نظر اندازکر کے جلسہ شرکت کرکے ایک جراتمندانہ فیصلہ کیا تاہم وہ سیکیورٹی ایجنسیوں پر ان کی کارکردگی کے حوالے سے برستے رہے۔

ان کا انتہائی جارحانہ لب و لہجہ دیکھ کر ٹی وی اینکرپرسنز نے سول ملٹری تعلقات کی کشیدگی کا” شاخسانہ “ قرار دینے کی کوشش قرار دیا لیکن انہیں معلوم نہیں چوہدری نثار علی خان کاسار غصہ پی او ایف واہ جلسہ میں جانے سے روکنے کی راہ میں حائل تھیں ان اداروں پر تھا جو ان کو ممکنہ دہشت گردی سے خوف زدہ کرنا چاہتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mamooli Behes Per is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.