مفاہمتی سیاست زندہ ہونے کا وسیع امکانات

آصف زرداری ، نواز شریف کو بحران سے نکالنے کیلئے نیم رضا مند

پیر 28 اگست 2017

Mafahmti Siyasat
شہزاد چغتائی۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد بدلتے ہوئے منظر نامے میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے صدر آصف زرداری ڈرائیونگ سیٹ پر آگئے ہیں ۔ میثاق جہموریت کو جھاڑ پونچھ کر نکالا گیا اور اس کی اہمیت بڑھ گئی۔ نیا ائین بنے گا یااداروں کے اختیارات محدود کرنے کے لیے آئینی ترامیم ہوگی۔ آصف زرداری کو ساتھ ملا کر نواز شریف ناممکن کو ممکن بنا سکتے تھے۔

اب تک میاں نواز شریف کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ خوشامدی تو بہت ہیں۔ لیکن اپنے بیگانے نکلے۔اب ان کی لاج آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ جو چاروں ا طرف سے گھرے نواز شریف کو بحران سے نکال کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرسکتے ہیں ۔سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ، عمران خان ، قاضی حسین احمد ، ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔

(جاری ہے)

لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور کی جانب لانگ مارچ کیا۔

مسلم لیگ (ن) کا لانگ مارچ درست فیصلہ تھا یہ غلط یہ وقت بتائے گا اسکرپٹ لکھنے والے نے نواز شریف کو اندھیرے میں رکھانہ صرف ادھورا اسکرپٹ لکھا بلکہ ڈنڈی مارتے ہوئے ادھا مشورہ دیا۔سابق وزیر اعظم اگر اتحادیوں کے ساتھ نکلتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ آصف زرداری بعض شرائط کے ساتھ حکومت کی حمایت پر تیار ہے بلکہ نیم رضامندی کو مکمل امادگی میں تبدیل کرکے نواز شریف بڑھا دھماکہ کرسکتے تھے۔

اسمبلی ٹوٹے یا رہے مسلم لیگ (ن) کے لیے پیپلز پارٹی اہم ہے ، دونوں جماعتیں مل کر ہی اداروں کا مقابلہ کرسکتی ہیں ، سابق وزیر اعظم نے منصب پر بحالی کیلئے نہیں بلکہ ریلیف کے لئے لانگ مارچ کیا۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت بند گلی میں پھنس چکی ہے ۔ اس لیے جو فیصلہ بھی ہوگا وہ آصف زرداری کی شرائط پر ہوگا ۔ آصف زرداری اپنی باری پر اصرار کریں گے وہ پنجاب بھی مانگیں گے،اور پھر پنجاب سے دستبردار ہوکر وفاق اور سندھ کی حکومت پر اتفاق کرلیں گے۔

پئپلز پارٹی کے حلقوں کو یقین ہے ۔ کہ اب دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی2023 تک پیپلز پارٹی راج کرئیں گی۔
حالات کے جبر اور نظریہ ضرورت نے میثاق جہموریت کی گنجائش پیدا کردی ہیں پیپلز پارٹی سینئر کے رہنماء اس طریقہ کار کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں جس کے تحت وزیر اعظم کو بے دخل کیا گیا ہے۔ چیرمین سینیٹ رضا ربانی اور سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی نے سارا وزن ایک دن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیا ، سراج درانی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ پر حملے کا نیا طریقہ کار ڈھونڈلیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ سمجھتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ 62,63 کو ختم کرنے کا فیصلہ سابق صدر آصف زرداری مشاورت کے بعد ہی کرسکتے ہیں ۔اس دوران وہ بلال بھٹو اور فریال تالپور کو اعتماد میں لیں گے۔دونوں جماعتوں کے درمیان آئین کے آرٹیکل 62,63 کو ختم کرنے کے لیے ابتدائی رابطے ہوگئے ہیں ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے درمیان گلے شکوؤں کے بعد بات اگے بڑھی ہے ۔

آصف زرداری نواز شریف کو بحران سے نکالنے پر نیم رضامند ہوگئے ہیں۔ جس کے ساتھ مفاہمت کی سیاست زندہ ہونے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ چترال کے جلسہ عام میں بلاول بھٹو مسلم لیگ اور نواز شریف پر برستے رہے ۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 62,63 کی مخالفت اُسے امریت کی یاد گار قرار دیا ۔ لیکن آئین کے اس آرٹیکل کو ختم کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔ سیاسی حلقوں کا دعوی ہے کہ آنیوالا طوفان تیزی سے دونوں جماعتوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

پیپلز پاڑٹی کی سینئر قیادت وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے پر خوش نہیں بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ہماری باری بھی آسکتی ہیں ۔ سندھ پر آپریشن تیز ہونے کے بادل منڈلا رہے ہیں بات اگے بڑھی تو دونوں جماعتیں مل کر 62,63 کو ختم کردیں گی۔پیپلز پارٹی تو شروع دن سے ہی62,63 کے خلاف ہیں ۔ افہام تفہیم کے تحت دونوں جماعتیں ڈرامائی انداز میں آئین میں ترامیم کرکے اس شق کے تحت دی جانے والی نااہلی کی سزائیں کالعدم قرار دے سکتی ہیں ۔

جس کے ساتھ میاں نواز شریف بحال ہوجائیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پاناما کیس کو پارلیمنٹ کے اندر حل کرنا چاہتی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر عدالت کے دائرہ کار کو تسلیم کرلیا۔ اسلام آباد میں تبدیلی کے بعد سندھ میں دوسرا سیاسی دھماکہ ہونے کی پیشنگوئی کی گئی لیکن سندھ میں اس قدر تبدیلی آئی کہ کابینہ میں توسیع پر غور ہونے لگا۔

جب عمران خان نے سابق صدر آصف زرداری کو للکارا تھا تو سیاسی حلقوں نے انہیں احمق سیاستدان قرار دیا تھا۔سیاسی حلقے اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے لیے واضح پیغام تھا کہ وہ مسلم لیگ کو بچانے اور آئین کے آرٹیکل 62,63 کو ختم کرنے کیلئے میدان میں نہ اُترے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہم اہنگی کی بیل کہیں نہ کہیں منڈھے ضرور چڑھ رہی ہے۔

کیونکہ دونوں جماعتوں کے مفادات جہموریت پارلیمنٹ اور میثاق جہموریت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایک دن دونوں جماعتیں سب کو سرپرائز ضرور دیں گی۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے نواز شریف کو یہ مشورہ دیا ہے،کہ وہ اجتحاجی سیاست ترک کردیں ۔ لیکن یہ دو پارٹنرز کا آپس کا اختلاف ہیں جہموریت پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔

صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایک کشتی کے سوار ہیں اس وقت صوبائی حکومت وفاق سے زیادہ طاقتور ہے۔ کیونکہ 18ویں ترامیم کے تحتسندھ ایک ملک ہے اور اس قدر اختیارات حاصل ہیں جو ڈکٹیٹر کو بھی نہیں مل سکے ۔ ماضی میں دونوں جماعتیں سیاسی ضرورتوں اور مفادات کے تحت ایک ہوچکی ہیں ایم آر ڈی کی تحریک میں پیپلز پارٹی کو ایک ایسی جماعت کے ساتھ بیٹھنا پڑا تھا ۔

جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں ۔ جس پر بیگم نصرت بھٹو کو یہ کہنا پڑا کہ جہموریت بچانے کے لیے ان کو بھٹوں کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کا خیال ہے کہ آج کسی کی باری ہے تو کل ہماری بھی باری آسکتی ہیں ۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہیں ۔ اس پر پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت کو تشویش ہے ‘کہتے ہیں جب تک نواز شریف پرائم منسٹر ہاوس میں تھے آصف زرداری بلا روک ٹوک پاکستان آتے جاتے تھے۔

اب حالات نے دونوں جماعتوں کو ایک کشتی کا سوار بنادیا ہے۔جس کے بعد دونوں جماعتیں اپنی اپنی بقاء کے لیے ایک دوسرے سے تعاون پر مجبور ہیں۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ کابینہ میں ردو بدل کی منظوری دیدی ہے۔ جس کے بعد کابینہ میں نئے وزرا شامل جبکہ پرانے وزرا فارغ کیے جائیں گے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی نے میاں نوا زشریف کو نااہل قرار دینے کا خیر مقدم کیا ہے۔

لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت بہت خوش نہیں خدشات سراُٹھا رہے ہیں انجانے اندیشے موجود ہیں جشن تو تحریک انصاف نے بھی نہیں منایا کیونکہ عمران خان پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ نواز شریف نے اجتحاجی سیاست شروع کردی اور زبان بندی ختم کرنے کا اعلان کیا۔تو بڑے بڑے ایوانوں میں زلزلہ اگیا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت نواز شریف فیملی کو سیاست سے آؤٹ کرنے اور احتساب عدالتوں سے سزا دلوانے کا پروگرام موجود ہیں بظاہر حالات تصادم اور محاذآرائی کی جانب ہے لیکن شریف خاندان تناؤ میں اضافہ نہیں چاہتا تھا ۔

مخالفین کی خواہش ہے کہ شہباز شریف سمیت شریف خاندان کو آئندہ الیکشن سے قبل سیاسی اُفق سے ہٹا دیا جائے لیکن نواز شریف چاہتے ہیں کہ حالات کشید ہ نہ ہوں ۔ا ٓصف زرداری پہلے دن سے ہی مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہونے کو بے چین تھے۔ وہ بار بار کہتے تھے مسلم لیگ سازش کے بارئے میں اعتماد میں لے لیکن یہ وہ وقت تھا ۔جب مسلم لیگ کی قیادت پیپلز پارٹی کو لفٹ دینے کو تیار نہ تھی۔

لیکن اب میثاق جہموریت کو جھاڑ پونچھ کر نکالنے کو تیار ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اب تک پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوسکی اور توقعات کے مطابق 40سے 60اراکان قومی اسمبلی نہیں ٹوٹ سکے۔ عدالتی فیصلے کے بعد شاہد خاقان عباسی کا انتخاب مسلم لیگ(ن) کی پہلی کامیابی اور فتح ہے۔ مسلم لیگ (ق) پہلی ناکامی کے بعد زخم چاٹ رہی ہیں اب ساری اُمیدیں احتساب عدالتوں سے وابستہ کررکھی ہیں ۔

کہ فیصلے شریف خاندان کے خلاف آئے تو مسلم لیگ (ن) کے اراکان قومی اسمبلی میں بددلی پھیل جائے گی۔ لیکن احتساب عدالتوں کے کام کرنے کے بعد پہیہ اُلٹا جائے گا محمد نواز شریف کی مقبولیت کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔ فیصلے کے بعد مناسب ہوتا کے مخالفین سانس لینے کے لیے رُک جاتے، وقت کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا گراف بڑھاہے۔

اپوزیشن اور عوام میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں ۔ بدلتے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے سیاسی حکمت عملی واضح کرلی ہیں اور نئی صف بندی کے لیے آصف زرداری نے پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ اب تک مائنس ون فارمولے سے بچے ہوئے ہیں الطاف اور نواز شریف اس کی زد میں اچکے ہیں آصف زرداری نے مائنس ون سے بچنے کا حل یہ نکالا ہے کہ انہوں نے بلاول بھٹو کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا اور خود پس منظر میں بیٹھ گئے۔

ملکی سیاست میں فعال ہونے کے لئے آصف زرداری نے مشاورت مکمل کرلی ہیں۔ اور محتاط سیاست کی منصوبہ بندی کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے نے رومانس پر پیپلز پارٹی کو نہ صرف تشویش ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے صدر آصف زردار ی سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اوردوسرے رہنماؤں نے تحفظات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میثاق جہموریت کے بندھن میں بندھے ہیں ان کے درمیان جہموریت کے تسلسل پر ہم اہنگی موجود ہے ۔ اب کیا پیپلز پارٹی برداشت کرلے گی کہ ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن) کی گود میں بیٹھ کر صوبائی حکمران کو ٹف ٹائم دے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mafahmti Siyasat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.