لندن قیام کو سیاسی فرار قرار دینے والے ششدر !

رواں ہفتے کی سب سے بڑی خبر سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی برطانیہ سے وطن واپسی ہے میاں نواز شریف نے اپنے خلاف دائر ”نیب کیسز“ کا سامنا کرنے کے لئے وطن واپسی کا فیصلہ کر کے ان تمام نام نہاد سیاسی تجزیہ کاروں کے ”اندازے اور تجزیے“ غلط ثابت کر دئیے ۔

جمعرات 28 ستمبر 2017

London Qayam Ko Siyasi Farar qarar Deny Waly Shashadar
نواز رضا:
رواں ہفتے کی سب سے بڑی خبر سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی برطانیہ سے وطن واپسی ہے میاں نواز شریف نے اپنے خلاف دائر ”نیب کیسز“ کا سامنا کرنے کے لئے وطن واپسی کا فیصلہ کر کے ان تمام نام نہاد سیاسی تجزیہ کاروں کے ”اندازے اور تجزیے“ غلط ثابت کر دئیے جو پچھلے تین ہفتوں سے چیخ چیخ کر کر یہ کہہ رہے تھے کہ شریف خاندان ”نیب کیسز“ کا سامنا کرنے پاکستان واپس نہیں آئے گا۔

میاں نواز شریف نے اچانک پاکستان واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کا اعلان کر کے سیا سی حلقوں کو ”سرپرائز“ دیا ہے۔ نواز شریف مخالف عناصر نواز شریف کی ”لندن یاترا“ کو سیاسی فرار“ قرار دے رہے تھے لیکن میاں نواز شریف نے ایک بار پھرسیاسی مخالفین کو مات دی ہے۔

(جاری ہے)

قبل ازیں ر اقم بارہا یہ بات کہہ چکا ہے میاں نواز شریف unpredictable سیاست دان ہیں جو آسانی سے اپنی مٹھی نہیں کھولتے لہذا ہر باران کے سیاسی مخالفین ان کے بارے میں صحیح اندازے لگانے اور قیاس آرائیاں کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ہماری اطلاع کے مطابق میاں نواز شریف کی وطن واپسی ان ”خاموش رابطوں“ کے نتیجے میں ہوئی ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ”مقتددر حلقوں“ سے کر رہے ہیں۔چوہدری نثار علی خان جن کا شروع دن سے یہ موقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے تو نواز شریف حکومت کے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے بآسانی ایک بار پھر انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

نواز شریف مخالف قوتوں کی شکست سے ملک کا سیاسی منظر ہی تبدیل ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی لندن میں پارٹی قیادت سے دو دن مسلسل ہونیوال ملاقاتوں کا نتیجہ ہے ۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد لندن پہنچنے پر وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر خارجہ خواجہ آصف، مریم نواز شریف اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے درمیان صلاح و مشورے جاری رہے۔

سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے فوری طور پاکستان آنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہمراہ اس طیارے میں سفر کرنے سے گریز کیا جو پچھلے سوا چار سال سے ان کے استعمال میں رہا ہے۔ وہ پی آئی اے کی پی کے786 پر اسلام آباد آئے جس پر وہ چند سال قبل اسی ماہ جلاوطنی ختم کر کے لندن سے اسلام آباد آئے تو ”پرویزی مارشل لائ“ کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے ان کو واپس جدہ بھجوا دیا تھا۔

اب وہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد منگل کو احتساب کورٹ میں پیش ہوچکے ہیں ۔میاں نواز شریف جو بیگم کلثوم نواز کی تیسری سرجری کی وجہ سے لندن میں قیام پذیر تھے وہ ایک دو روز میں دوبارہ لندن جا رہے ہیں۔ یکم اکتوبر 2017ءکو وطن واپس آکر وہ 2اکتوبر2017ءکو احتساب کورٹ میں دوبارہ پیش ہوں گے۔میاں نواز شریف کو بیگم کلثوم نواز کی مزید سرجری کے باعث اپنی واپسی کا پروگرام مو¿خر کر کرنا پڑا تھا۔

اب ان کی وطن واپسی کے یہ بھی معنی نکالے جا رہے ہیں کہ انتخابی بل 2017 ءکی شق نمبر 203 کی منظوری کے بعد میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کی دوبارہ صدارت کیلئے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ یہ بل قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شکل اختیار کرلے گا۔ جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنے آئین کے آرٹیکل 120سی میں ترمیم کر کے انہیں دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا صدر بنا سکتی ہے۔

میاں نواز شریف کے لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا صدر بننے کی راہ ہموار ہونے کے بعد پارٹی میں صدر کے انتخاب پر ہونے والی”رسہ کشی“ ختم ہو جائے گی فی الحال نواز شریف وطن واپس آئے ہیں حسین نواز‘ حسن نواز اور مریم نواز فی الحال اپنی والدہ کلثوم نواز کے ہمراہ لندن میں قیام کرینگے۔ میاں نواز شریف کی اسلام آباد آمد کے فوراً بعد مسلم لیگی رہنماو¿ں کے غیرمعمولی اجلاس پنجاب ہاو¿س میں منعقد ہو چکے ہیں جن میں آئندہ کا سیاسی و قانونی لائحہ عمل تیار کیا گیا۔

میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے سب سے اہم خبر مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما و سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پنجاب ہاﺅس میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف سے اہم ملاقات ہے، دونوں رہنماﺅں کے درمیان ڈیڑھ ماہ بعد ہونے والی ملاقات کو سیاسی حلقوں میں غیرمعمولی اہمیت حاصل رہی۔ ڈیڑھ گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان نے ملکی سیاسی صورت حال اور جماعتی امور پر تبادلہ خیال کیا۔

چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف ملاقات کے بعد تمام قیاس آرائیاں اور افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان نے میاں نواز شریف سے کہا کہ کہ وہ اپنے خلاف تمام مقدمات کا سامنا کریں وہ بالآخر سرخرو ہو کر نکلیں گے۔ انہوں نے میاں نواز شریف سے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اس حکومت کو مستحکم کرکے نامکمل ترقیاتی ایجنڈا مکمل کرنا چاہئے‘ اداروں میں کشمکش سے نقصان ہو گا۔

اس تاثر کو زائل کرنا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں ہے۔ اگلے روز بھی چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف دوسری ملاقات ہوئی ہے اہم بات یہ کہ احتساب عدالت میں پیشی کے میاں نواز شریف نے پنجاب ہاﺅس میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا جو سپریم کورٹ کے ججوں کی رہائش گاہوں سے چند قدم کے فاصلے پر ہیں انہوں نے پریس کانفرنس میں چوہدری نثار علی خان کو اپنے پہلو میں بٹھایا لیکن انہوں نے اپنی نشست پارٹی کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق کے لئے خالی کر دی۔

میاں نواز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں تحریری بیان پڑھ کر سنایا انہوں نے کوئی سوال نہیں لیا۔اس موقع پر جہاں انہوں نے جارحانہ انداز میں اپنے ساتھ عدالتی سطح ہونے والی زیادتیوں کو بیان کیا وہاں انہوں نے خوبصورت الفاظ کا چناﺅ کر کے اپنا کیس خوب لڑا اگرچہ انہوں نے کہا ہے انہیں معلوم ہے انہیں کیوں نکالا گیا ہے لیکن انہوں نے اس کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ” مجھے انصاف نہیں دیا گیا چونکہ مجھے پانامہ میں سزا نہیں دی جاسکتی اس لئے اقامہ کی آڑ لی گئی ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی ندامت ہوتی ہے۔ تمیزالدین سے لے کر نوازشریف تک ایک ہی کہانی کے باب بکھرے پڑے ہیں۔سینیٹ کے 266 ویں سیشن کی آخری نشست میں مسلم لیگ(ن) نے ایوان میں اقلیت میں ہونے کے باوجود انتخابات بل 2017 کی شق نمبر 203 ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کروا کر جہاں اپوزیشن کو چاروں شانے چت کر دیا ہے وہاں اس نے پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ءسے ناہلی کی شق جو اس وقت ایک فوجی آمر نے نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے شامل کی تھی کو اڑا کر میاں نواز شریف کے لئے دوبارہ صدر بننے کی راہ ہموار کر دی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے انتخابی اصلاحات پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کمیٹی میں 2014ءمیں پیپلز پارٹی کی تجویز پر پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 سے نااہلی کی شق نکلوائی گئی تھی۔ انتخابی اصلاحات پر بل کے مسودہ کی متفقہ طور منظوری کی گئی یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو کر آگیا کسی نے 203 کی شق کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن جب یہ بل سینیٹ میں منظوری کے لئے آیا تو قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کی جانب سے بل کی شق نمبر203 میں ترمیم پیش کر دی پارلیمانی تاریخ میں ایسی سیاسی بے اصولی کی کی نظیر نہیں ملتی۔

سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے اپوزیشن بالخصوص پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو چاروں شانے چت کر کر دیا انہوں نے اپوزیشن کے کچھ ارکان کو بل کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا اور کچھ کو ووٹنگ کے موقع پر ایوان میں غیر حاضر رہنے پر راضی کر لیا بل کی منظوری میں راجہ محمد ظفر الحق کا ”کلیدی کردار“ ہے تاہم وفاقی وزراءزاہد حامد ، خواجہ سعد رفیق اور مشاہد اللہ خان نے بھی سرگرم عمل رہے مسلم لیگی رہنما چوہدری تنویر خان نے بھی ایوان میں پورا پہرہ دیا وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں کورس میں شریک تھے۔

وہ خاص طور بل کے حق میں ووٹ دینے کے لئے آئے اور ایوان میں ا رکان کے گرد گھیرا ڈالے رکھا۔ جن سے بل کے حق میں ووٹ دینے کی کمٹمنٹ لی گئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے مسلم لیگ (ن) کے ”باغی “ رکن ذوالفقارکھوسہ نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا سینیٹ کا اجلاس ختم ہو نے کے بعد چوہدری تنویر خان اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے چوہدری تنویر خان ذوالفقار کھوسہ اور مسلم لیگی قیادت میں صلح کرانے کے لئے کوشاں ہیں۔

سینیٹ نے قومی اسمبلی سے منظورشدہ ”انتخابات بل2017“کی کچھ ترامیم کے ساتھ منظوری دی ہے لہذا یہ بل دوبارہ منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں بھیج دیا گیا ہے جہاں سے من و عن منظوری کے بعد صدر مملکت کو بھجوا دیا جائے گا۔ صدر مملکت کی توثیق کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہو جائے گی جس کے تحت کوئی بھی نااہل یا سزایافتہ شخص پارٹی سربراہ بن سکے گا اور مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ ایم کیو ایم نے حکومت کا ساتھ دینے پر میاں عتیق کی رکنیت ختم کر دی ہے جب کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اپنے ان ارکان کو شو کاز نوٹس جاری کر دئیے ہیں جنہوں نے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرانے میں حکومت کا ساتھ دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

London Qayam Ko Siyasi Farar qarar Deny Waly Shashadar is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.