لیگیوں کی ایک کے بعد دوسری بڑی کامیابی

جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان انتخابات میں دراصل سیاسی جماعتوں کی تنظیمی کارکردگی نمایاں ہوئی۔ امیدواروں کے چناؤ سے انتخابی مہم تک اور بالآخر پولنگ ڈے پر ثابت ہو گیا کہ تجربہ اور عملیت پسندی بڑی چیز ہے

جمعرات 5 نومبر 2015

Leagueiyoon Ki Aik K Baad Dosri Bari Kamyabi
فرخ سعیدخواجہ:
صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جن 12 اضلاع میں 2 کروڑ 85 ہزار 329 ووٹروں نے اپنے نمائندگان کا چناؤ کیا۔ ان میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت سے لاہور کے 43 لاکھ 6 ہزار 885 ووٹروں نے 274 یونین کونسلوں میں اپنے 548 چیئرمین، وائس چیئرمین اور 1644 جنرل کونسلروں کا انتخاب کرنا تھا۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان انتخابات میں دراصل سیاسی جماعتوں کی تنظیمی کارکردگی نمایاں ہوئی۔

امیدواروں کے چناؤ سے انتخابی مہم تک اور بالآخر پولنگ ڈے پر ثابت ہو گیا کہ تجربہ اور عملیت پسندی بڑی چیز ہے۔ جس کے تحت مسلم لیگ ن نے اپنے عہدیداران اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو انتخابی میدان میں اتارا۔ ان کی جانب سے امیدواروں کے چناؤ کے لئے جن مراحل کو اختیار کیا گیا ان کاذکر آگے آئے گا لیکن ان کی سب سے بڑی حریف تحریک انصاف نے تنظیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے میڈیا کا سہارا لیا۔

(جاری ہے)

بلاشبہ تحریک انصاف پنجاب کے آرگنائزر چودھری محمد سرور اور ان کی ٹیم میڈیا پر چھائی رہی جبکہ ان کی مد مقابل مسلم لیگ ن کے صدر پنجاب وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور جنرل سیکرٹری راجہ اشفاق سرور کا لاہور کے امیدواروں کے چناؤ یا انتخابی مہم سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ چودھری محمد سرور نے دیگر سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی تحریک، مسلم لیگ ق، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اس سلسلے میں اے پی سی منعقد کی تاہم تحریک انصاف کی اپنے اندر سے ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی مخالفت سامنے آئی۔

بالآخر تحر یک انصاف نے صرف جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر توجہ دے سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی طرف بھی دوستی کا دم بھرتے رہے۔ سب نے دیکھا جماعت اسلامی کے ان امیدواروں کا کیا بنا۔ پیپلز پارٹی کا لاہور میں بجھا ہوا سیاسی چراغ بلدیاتی انتخابات میں بھی روشن نہ ہو سکا۔ مسلم لیگ ق، مجلس وحدت المسلمین نے لاہور کی سطح پر امیدوار دینے میں انتہائی بخل دکھایا۔

پاکستان عوامی تحریک نے 152 امیدوار میدان میں اتارے مگر سب پاکستان تحریک انصاف گھن گرج کے ساتھ خاموش ہو کر رہ گئے۔ پی ٹی آئی کے صوبائی آرگنائزر چودھری محمد سرور نے مقامی ہوٹل میں انتخابی مہم کا آغاز صحافیوں کو شاندار دعوت دے کر کیا۔ اس تقریب میں شفقت محمود آرگنائزر لاہور بھی موجود تھے۔ یکم جولائی ہی سے بلدیاتی امیدواروں کو درخواست فارم جاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔

ادھر مسلم لیگ ن نے 18 جولائی سے 25 جولائی تک امیدواروں کو درخواست فارم جاری کرنے کا اعلان کیا پھر اس کے بعد امیدواروں کے چناؤ کے مرحلے میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں فرق بڑھتا گیا۔ مسلم لیگ ن لاہور کے صدر پرویز ملک اور جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر کو پارٹی کی قیادت نے پہلی مرتبہ کھل کر کام کرنے کا موقع دیا۔لاہور کے قومی اسمبلی کے 12 حلقوں کے تین تین حلقوں پر مشتمل زون میں کوآرڈی نیٹرز اور ممبران مقرر کئے گئے۔

ہز زون کے کوآرڈی نیٹر اپنے ساتھی ممبران کے ہمراہ متعلقہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں گئے اور ارکان اسمبلی، صوبائی حلقوں کے صدور اور جنرل سیکرٹریوں کے ہمراہ انہوں نے کارکنوں کے انٹرویو کئے اور اپنے اپنے حلقہ کے امیدواران کی سفارشات لاہور مسلم لیگ کو دیں۔ اس کے بعد میاں حمزہ شہباز کی نگرانی میں پارٹی بورڈ بنایا گیا جس میں پرویز ملک، خواجہ احمد حسان، میاں مرغوب، مہر اشتیاق، خواجہ عمران نذیر، ملک افضل کھوکھر، چودھری شہباز، سید توصیف شاہ، رمضان صدیق بھٹی، ڈاکٹر اسد اشرف، نذیر خان سواتی، اظہر فاروقی ہمراہ حلقہ ممبران اسمبلی، صدور اور جنرل سیکرٹری شامل تھے۔

یہ پارلیمانی بورڈکے ساتھ انٹرویو میں طے پانے والے فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ کہ 274 میں سے صرف 8 حلقوں کو اوپن چھوڑ دیا گیا۔ اور پارلیمانی بورڈ نے امیدواروں کیلئے ایسے افراد کی نامزدگی کی منظوری دی کہ آج ایک منظم سیاسی جماعت اس پر فخر کرنے میں حق بجانب ہے۔ بعض حلقوں میں اگرچہ اختلافات بھی سامنے آئے۔ شیخ روحیل اصغر اور ان کے ممبران اسمبلی ملک وحید اور وحید گل کے درمیان اختلاف رائے سامنے آیا۔

این اے 127 میں بھی کچھ ایسی صورتحال رہی۔ این اے 118 میں سابق رکن پنجاب اسمبلی رانا اقبال خاں، موجودہ ایم این اے ملک ریاض کے بھائی ابرار ملک اور پی پی 138 کے ایم پی اے غزالی سلیم بٹ کی بعض امیدواروں کے ساتھ ہمدردی رہی۔ جس کے باعث بہت سے امیدوار ٹکٹ نہ ملنے پر ا?زاد حیثیت میں کھڑے ہو گئے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حلقہ این اے 120 میں بھی صورت حال خوش کن نہ تھی۔

صوبائی وزیر بلال یٰسین پر بھی ایک آزاد پینل کی حمایت کا الزام لگتا رہا۔ مگر مجموعی طور پر پارٹی کی تنظیم پر گر فت برقرار رہی۔
دراصل تحریک انصاف کے لاہور میں کم از کم پانچ دھڑے فعال ہیں۔ ان میں چودھری اعجاز، میاں محمود الرشید، عبدالعلیم خان، ولید اقبال کے دھڑے میں شامل ہیں جبکہ شفقت محمود کو چودھری سرور صاحب آرگنائزر لاہور مقرر کر رکھا تھا۔

اس طرح تحریک انصاف میں بھی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے آزاد حیثیت میں میدان میں آ گئے یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کر سکا البتہ مسلم لیگ ن کے آزاد حیثیت میں کھڑے ہونے والے لگ بھگ آدھے امیدوار ”شیر“ اور ”بلے“ دونوں کو ہرا کر کامیاب بھی ہو ئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کے حصول میں ناکام رہنے والے کارکن بھی بلاشبہ مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کے ساتھ دل و جان سے رہے ہیں لیکن پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے کا اس سیاسی جماعت میں سفر ختم ہو جانا چاہیئے۔


مسلم لیگ ن نے لاہور کے سابق لارڈ میئر خواجہ احمد حسان، ان کی کزن رابعہ نسیم فاروقی، سابق ڈپٹی میئر حاجی محمد حنیف، نظافت چودھری، سابق ممبران پنجاب اسمبلی وسیم قادر، قیصر امین بٹ، چودھری اللہ رکھا اور اپنی لاہور تنظیم کے نائب صدور ریاض مغل، حاجی امجد علی مرزا، الیاس خان، محمد خالد ملک ، جوائنٹ سیکرٹری خواجہ سعد فرخ سمیت درجنوں صوبائی حلقے کے صدور اور جنرل سیکرٹریوں کو چیئرمین اور وائس چیئرمین کے ٹکٹ دیئے۔

ان میں سے الیاس خان بدقسمت رہے کہ کامیاب نہ ہو سکے۔ خواجہ احمد حسان یونین کونسل 107 سے چیئرمین کے امیدوار تھے۔ ان کے ہمراہ وائس چیئرمین کے امیدوار چودھری جعفر حسین تھے۔ ان کے مقابل عم نواز اور رانا اصغر امیدوار تھے۔ یہاں مسلم لیگ کے چودھری محمد نواز کی دوستی رنگ لائی اور انہوں نے چودھری عمر نواز کو خواجہ احسان کے حق میں دستبردار کروا دیا۔

واضح رہے کہ یہ دونوں حلقے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 126 جہاں سے تحریک انصاف کے شفقت محمود رکن اسمبلی اور میاں محمود الرشید پی پی 151 میں رکن پنجاب اسمبلی ہیں ان میں آتے ہیں اس طرح شفقت محمود اور میاں محمود الرشید کے لئے یہ بات شرمساری کا باعث بنی ہے۔ خواجہ احمد حسان کی کزن رابعہ فاروقی این اے 126 کی مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیٹر ہیں اور انہوں نے این اے 126 میں خواتین کو مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم پر منظم کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

انہیں میاں حمزہ شہباز کے کوآرڈی نیٹر سید توصیف شاہ کی یونین کونسل 217 سے چیئرمین کا الیکشن لڑانے کا فیصلہ سیاسی حلقوں میں بہت دلچسپی سے دیکھا گیا۔ وہ 4 ہزار 477 ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہیں جبکہ ان کے حریف تحریک انصاف کے امیدوار چودھری سلیمان صرف 1 ہزار 873 ووٹ حاصل کر سکے۔ ایک اور اہم شخصیت حاجی محمد حنیف یونین کونسل 35 رنگ محل سے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔

مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر تھے۔ چودھری پرویز الٰہی نے انہیں 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں توڑ لیا اور مشیر وزیراعلیٰ بنا دیا جبکہ ان کے صاحبزادے ادریس حنیف ضلع نائب ناظم لاہور منتخب کروائے گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ لیڈروں میں رہنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد انہیں پرائمری کلاس سے دوبارہ سیاست شروع کرنا پڑی ہے۔

وہ اپنے مدمقابل تحریک انصاف کے شاہد بلال کو ہرا کر کامیاب ہوئے ہیں۔
چودھری نظافت سابق ڈپٹی میئر لاہور ہیں، یونین کونسل نمبر 36 لوہاری گیٹ سے 2 ہزار 850 ووٹ لے کر چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے مقابل تحریک انصاف کے عبدالرؤف نے 1 ہزار 871 ووٹ لئے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن پنجاب اسمبلی چودھری اللہ رکھا یونین کونسل 184 ڈرائی پورٹ مغلپورہ سے 2 ہزار 688 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

ان کے مدمقابل آزاد امیدوار نزاکت حسین نے 1 ہزار 904 ووٹ حاصل کئے۔ سابق رکن پنجاب اسمبلی چودھری وسیم قادر یونین کونسل 31 فیض باغ سے 3 ہزار 289 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ن کے مدمقابل تحریک انصاف کے عاصم میر صرف 910 ووٹ حاصل کر سکے۔ مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ کے نمایاں لیڈر اور مسلم لیگ (ق) کے دور میں رکن پنجاب اسمبلی رہنے والے قیصر امین بٹ کو مسلم لیگ (ن) میں لے تو لیا گیا تھا لیکن انہیں بھی پرائمری سے شروع کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے یونین کونسل 15 قلعہ لچھمن سنگھ سے چیئرمین کا الیکشن جیتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) لاہور کے نائب صدر ریاض مغل یونین کونسل 42 دھوبی گھاٹ سے 4 ہزار 122 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ حاجی امجد علی مرزا یونین کونسل 156 ساھو واڑی سے 4ہزار 98ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ایک اور نائب صدر محمد خالد ملک نے یونین کونسل 172 بی بی پاکدامن 2 ہزار 636 ووٹ لیے جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار جاوید یوسف نے ایک ہزار 906 وٹٹ حاصل کیے۔

مسلم لیگ (ن) لاہور کے جوائنٹ سیکرٹری خواجہ سعد فرخ نے وائس چیئر مین کا الیکشن چیئر مین مہر شبیر میرو کے ساتھ مل کر یونین کونسل 218 سے لڑا اور 3ہزار 851 ووٹ حاصل کیے۔ تحریک انصاف کے چوہدری شفیق گجر نے 2ہزار 408 ووٹ حاصل کیے۔ یونین کونسل 3کوٹ کمبوہ سے مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ لاہور کے جنرل سیکرٹری ساجد چوہان 3ہزار 714 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ یونین کونسل 19 صدیق پورہ سے چیئر مین عمران علی اور وائس چیئر مین راجہ شاہجہاں 3ہزار 221 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تحریک انصاف کے رحمت اللہ بٹ ایک ہزار 816 ووٹ لے سکے۔

یونین کونسل 20 لاریکس کالونی سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر کارکن مشتاق مغل 3ہزار 763 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ یونین کونسل 34 شاہ عالمی سے مسلم لیگ ن کے عارف نعیم کشمیری نے 3 ہزار 844 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے محمد امتیاز صرف 790 ووٹ حاصل کر سکے۔ یونین کونسل 51 امین پارک سے مہر غلام نبی بگا اور وائس چیئر مین چوہدری سلیم نے 3ہزار 732 جبکہ تحریک انصاف کے حافظ زبیر گلزار نے 1 ہزار 999 ووٹ لیے۔

یونین کونسل 61 پرانی انارکلی سے چیئر مین حاجی اسحاق نے 3ہزار 388 لیے جبکہ تحریک انصاف کے شیر بہادر نے 1180 ووٹ حاصل کیے۔ یونین کونسل 71 شبلی ٹاؤن، ساندہ کلاں سے زاہد حسین سرا وائس چیئر مین ملک لیاقت علی نے 3 ہزار 268 ووٹ لیے جبکہ تحریک انصاف کے جہانگیر خان نے ایک ہزار 547 ووٹ لیکر شکست کھائی۔ ایک کانٹے دار مقابلہ یونین کونسل 72 عثمان گنج میں ہوا جس میں مسلم لیگ (ن) کے ملک عبدالستار نے بطور چیئر مین اور مہر محمد اسلم نے وائس چیئر مین کے طور پر 3 ہزار 712 ووٹ حاصل کیے جبکہ تحریک انصاف کے شاہد منیر جو کہ مسلم لیگ (ق) کے سابق ناظم ہیں 3ہزار 460 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔

مسلم لیگ ن پنجاب یوتھ ونگ کے سابق سینئر عہدیدار رانا اعجاز حفیظ یونین کونسل 76 نیو چوبرجی پارک سے 2 ہزار 928 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے ساتھ وائس چیئرمین جماعت اسلامی کے حاجی منیر احمد تھے ان سے شکست کھانے والے تحریک انصاف کے شاہد سعید نے 1 ہزار 820 ووٹ لئے۔ یونین کونسل ضلع سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر کارکن طاہر سندھو نے چیئرمین اور جماعت اسلامی کے چودھری احسان نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست دی۔

یونین کونسل 101 کوٹ کمبوہ میں مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین میاں بشارت علی ڈولہ اور وائس چیئرمین حاجی شوکت علی نے (4) 596 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے ذوالفقار احمد اور مہر افتخار کو 1 ہزار 825 ووٹ ملے ایک اور کانٹے دار مقابلہ یونین کونسل 114 جوہر ٹاؤن میں ہوا۔ جہاں تحریک انصاف کے چودھری اظہر حسین اور وائس چیئرمین چودھری عبدالقیوم گجر نے 2 ہزار 732 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چودھری شاہد حسین اور رانا ظفر اقبال 2 ہزار 380 ووٹ لے کر شکست کھا گئے۔

یونین کونسل 116 ای ایم ایم سوسائٹی میں بھی زبردست مقابلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے محمد اعظم اور آصف جاوید نے 2 ہزار 447 ووٹ حاصل کئے جبکہ تحریک انصاف کے چودھری محمد اعظم اور چودھری سرور نمبر دار کو 2 ہزار 236 ووٹ ملے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Leagueiyoon Ki Aik K Baad Dosri Bari Kamyabi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 November 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.