کیا اسے وزیراعظم کی رابطہ عوام مہم سمجھا جائے ؟

پانامہ کیس نے جو سیاسی گرد اڑائی ہے اس نے مسلم لیگ ن کو کتنا متاثر کیا ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی قسمت کافیصلہ ان کے ووٹروں نے کرنا ہے جو بظاہر اب بھی مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے ساتھ ہیں

پیر 12 جون 2017

Kiya Isse Wazir e Azam Ki Rabta Awam Muhim Samjha Jaye
خواجہ فرخ سعید:
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں سیاسی رونقیں عروج پر ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بجٹ 2017-18ء پیش ہو چکا ہے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث بجٹ تقریر کرنے کھڑی ہوئیں تو انہیں خیال تک نہ تھا کہ اپوزیشن انہیں ناکوں چنے چبوا دے گی۔ سیاسی ماحول خاصا خوشگوار تھا لیکن جونہی ڈاکٹر عائشہ نے بجٹ تقریر کا آغاز کیا پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) کے ارکان نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

اس موقع پر جماعت اسلامی کے واحد رکن ڈاکٹر سید وسیم اختر موجود نہیں تھے بلکہ وہ اس روز تشریف ہی نہیں لائے۔ قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید سمیت تینوں جماعتوں کے ارکان نے نشستوں سے اٹھ کر احتجاج شروع کر دیا مردوں نے جیبوں اور خواتین نے اپنے اپنے ہینڈ بیگ سے سیٹیاں نکالیں۔

(جاری ہے)

سیٹیوں اور ایجنڈے کے مسودے میزوں پر پٹخنے کی آواز میں جھوٹ جھوٹ، گو نواز گو کے نعروں نے ایسا ماحول بنا دیا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

میاں محمود الرشید، شعیب صدیقی، عارف عباسی، آصف محمود، نبیلہ حاکم علی سمیت متعدد ارکان اپوزیشن سپیکر ڈائس کے سامنے آکر احتجاج کرتے رہے۔ وزیر خزانہ کی دو گھنٹے کی تقریر کے دوران ان اراکین اسمبلی کی طرف سے ایجنڈا پھاڑ کر پھینکنے اور نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ جس کا جواب حکومتی بنچوں کی خواتین نے قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کی بجٹ پر بحث کے آغاز کیلئے 2 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی تقریر کے دوران دیا۔

تاہم اس دوران وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی ان کی مدد کو آئے اور اپنے ساتھیوں کو خاموش کروا دیا۔ اب بجٹ پر بحث جاری ہے اور روزانہ ہلکی پھلکی موسیقی سنائی دیتی ہے۔
ادھر تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا اعلان کر دیا ہے اوراس کے چیف الیکشن کمشنر نے تمام پارٹی عہدیداروں کو فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

اس مرتبہ امید ہے کہ پی ٹی آئی کے ہاتھ گوہر مقصود آ جائے گا۔ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور پہنچ گئے ہیں ان کی یہاں سیاسی مصروفیات کا ہفتے بھر کاشیڈول تیار کیا گیا ہے۔ ویسے بھی پاکستان کی سیاست ڈرائنگ روموں سے نکل کر سڑکوں اور کھلیانوں میں آنے کو ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان تو پچھلے سال سے مسلسل جلسہ جلوس کی سیاست کر ہے ہیں۔

لیکن اب ملک کی دیگر دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی میدان میں نکلنے کی ٹھانی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف عام طور پر ہفتے میں ایک مرتبہ لاہور آتے ہیں لیکن یہاں ان کی مصروفیات زیادہ تر جاتی عمرہ یا ماڈل ٹاوٴن تک محدود رہتی ہیں جیسے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری لاہور کے بلاول ہاوٴس تک محدود رہتے ہیں، مگر اس ہفتے وزیراعظم نواز شریف لاہور آئے تو اتوار کو میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے مشورے کے بعد سوموار کو این اے 119 میں واقع شاہی قلعہ اور شاہی محلہ سے ملحقہ فوڈ سٹریٹ میں کارکنوں کے ساتھ ملاقات کیلئے ایک تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔

گویا اسے رابطہ عوام مہم کا آغاز سمجھ لیا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔جس جگہ یہ اجتماع رکھا گیا اسے ہم قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 119 کا قلب کہہ سکتے ہیں غالباً اس اجتماع کیلئے کارکنوں کو مدعو کرنے کا کام میاں حمزہ شہباز کو سونپا گیا تھا جو کہ اس حلقہ انتخاب میں الیکشن 2013ء میں قومی اورصوبائی اسمبلی کے بیک وقت رکن منتخب ہوئے تھے انہوں نے صوبائی اسمبلی پنجاب کی نشست خالی کی تھی جس پر ضمنی الیکشن میں خواجہ سلمان رفیق رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے جو اب پنجاب کے وزیر صحت ہیں قبل ازیں یہاں سے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق بیک وقت ممبران قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے رہے تھے۔

اس لحاظ سے جس طرح لاہورکو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے یہ حلقہ لاہور کا دل ہے۔ دل والوں کے اس حلقے کیلئے جن 90 سے 100 کارکنوں کو دعوت دی گئی ان کو پروگرام کی نوعیت کاپہلے سے کوئی علم نہیں تھا انہیں ہدایت کی گئی کہ گیارہ بجے دن فوڈ سٹریٹ پہنچ جائیں اور اپنا شناختی کارڈ ساتھ لانانہ بھولیں۔البتہ صوبائی وزیر صحت پرائمری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر کو اس تقریب کی نظامت کے سلسلے میں مطلع کر دیا گیا۔

دروغ بہ گردن راوی میاں حمزہ شہباز نے مدعو کئے گئے پارٹی عہدیداروں کے ناموں کی فہرست جس کے مشورے سے فائنل کی اس نے این اے 119 کی آٹھ یونین کونسلوں میں سے پانچ یونین کونسلوں کے چیئرمین حضرات کے نام شامل نہیں ہونے دیئے۔ یہ پانچوں چیئرمین یونین کونسل سیاسی قد کاٹھ کے مالک ہیں ان میں یونین کونسل 35 کے چیئرمین حاجی محمد حنیف، یونین کونسل 34 کے چیئرمین عارف نسیم کشمیری، یونین کونسل 33 کے چیئرمین طارق ننھا، یونین کونسل 32 کے چیئرمین حفیظ پیا او ریونین کونسل 36 کے چیئرمین فیصل چودھری شامل ہیں۔

بہر حال تین یونین کونسلوں کے چیئرمین نظافت چودھری، چودھری طاہر اور چودھری اسلم بلائے گئے تھے۔ حاجی محمد حنیف مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر تھے ان کی کارکردگی مثالی تھی لیکن 2005ء کے بلدیاتی الیکشن کے موقع پر وہ ڈکیٹیر حکومت کا دباوٴ برداشت نہ کر سکے اور حلقہ بگوش چودھری پرویز الٰہی ہو گئے۔ جنہوں نے انہیں مشیر وزیراعلیٰ اور ان کے صاحبزادے ادریس حنیف کو ضلع نائب ناظم لاہور بنا دیا۔


بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کو اس وقت بہت بڑا دھچکا لگا تھا لیکن میاں نواز شریف، شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد الیکشن 2013ء میں حمزہ شہباز نے حاجی حنیف کو مسلم لیگ ن میں واپس لے لیا اور ا س نے میاں حمزہ کا الیکشن دل و جان سے لڑا۔ موجودہ بلدیاتی نظام میں انہیں یونین کونسل کے چیئرمین کا ٹکٹ دے دیا گیا اور وہ کامیاب بھی ہو گئے لیکن لگتا ہے کہ دلوں کی کدورتیں دور نہیں ہوئیں۔

عارف نسیم کشمیری اندرون لاہور میں پیپلز پارٹی کے شریف ترین جیالوں میں سے ایک تھے انہیں کئی سال پہلے خواجہ سعد رفیق مسلم لیگ (ن) میں لئے آئے تھے باقی کا بیک گراوٴنڈ بھی پیپلز پارٹی کا رہا ہے لیکن وہ کئی برس سے اب مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔ ان کو کارنر کرنے سے مسلم لیگ ن کو فائدہ نہیں ہوگا۔پانامہ کیس نے جو سیاسی گرد اڑائی ہے اس نے مسلم لیگ ن کو کتنا متاثر کیا ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی قسمت کافیصلہ ان کے ووٹروں نے کرنا ہے جو بظاہر اب بھی مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے ساتھ ہیں۔

میاں نواز شریف کی این اے 119 میں سیاسی سرگرمیوں سے بلاشبہ تیزی آئے گی۔ بلاول بھٹو زرداری لاہور پہنچ چکے ہیں اور آصف زرداری پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف پیپلز پارٹی کو نقب لگا رہی ہے راجہ ریاض کے بعد فردوش عاشق اعوان اور اب نذر محمد گوندل کی تحریک انصاف میں شمولیت نے یقیناً پیپلز پارٹی کو صدمہ پہنچایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جوں جوں سیاست گرم ہو گی سیاسی مسافروں کے ٹھکانے تبدیل کرنے کا عمل مزید تیز ہو جائے گا مگر 2018ء میں اقتدار کا ھماکس کے سر بیٹھتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Kiya Isse Wazir e Azam Ki Rabta Awam Muhim Samjha Jaye is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 June 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.