کشمیریوں پر مہلک ترین ہتھیاروں کا استعمال جاری

مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے، مہلک ہتھیار ”پیلٹ گن“ سے 500 سے زائد معذورواندھے ہوچکے ہیں

جمعہ 7 جولائی 2017

Kashmirion Par Mohlik Tareen Hathyaron Ka Istamal Jari
محمد عبداللہ گل:
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجی درندوں کی وحشت و بربریت کا کھیل ہنوز جازی ہے اور ا ب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری جدوجہد آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں ۔دس ہزار سے زائد لاپتہ ہیں اور ڈیڑھ ہزار مسلم خواتین کو بے آبرو کیا جا چکا ہے۔
افسوس کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر اقوام متحدہ سمیت دیگر حققوق انسانی اداروں نے چپ سادہ رکھی ہے۔

انڈونیشیا سے مشرقی تیمور الگ ہو سکتا ہے،اسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق خود مختاری مل سکتی ہے کیونکہ وہاں اکثریت غیر مسلموں یعنی عیسائیوں کی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان گذشتہ 68 برسوں سے برہمن کے ناجائز تسلط کیخلاف برسرپیکار ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن انہیں مارا جارہا ہے ۔مقبوضہ وادی دنیا کا واحد ایسا بد قسمت خطہ ہے جہاں پر آٹھ لاکھ بھارتی فوج چپے چپے پر قابض ہے ۔

ہر کشمیری کے گھر کے باہر فوجی چھاؤنی بنا رکھی ہے۔کشمیریوں کی زندگیاں مسلسل محاصرے میں ہیں۔انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے بھی چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے ۔کشمیری خواتین کی عزت و آبرو بھی بھارتی درندہ صفت فوجیوں کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں۔کشمیر میں تعینات قابض فوج کو کالے قانون ”افسپا“ کے تحت بے گناہ کشمیریوں کو مارنے کا لائسنس حاصل ہے اور اس جرم پر ان سے کوئی باز پرس نہیں کی جاسکتی۔

لیکن تمام تر ہتھکنڈے اور ظالمانہ حربے آزمانے کے باوجود ہندو بنیاء کمشیریوں کی تحریک آزادی کو کچل نہیں سکا اور نہ ہی انہیں دبا سکا۔
بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کشمیریوں کی تحریک آزادی میں تیزی آتی جارہی ہے۔اسرائیلی مہلک ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج نہتے کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے سے دستبردار کروانے میں ناکام ہوچکی ہے۔
انٹرنیشنل فورم فار جسٹس”ہیومن رائٹس فورم“ کی ایک رونگٹے کھڑے کردینے والی رپورٹ کے مطابق حقوق انسانی کے علمبردار بھارت نے کشمیری نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن بنانے کے لئے انہیں معذور ،اپاہج اور اندھا کرنے کے لئے ”پیلٹ گن“ جیسے مہلک ترین ہتھیار کا استعمال شروع کردیا ہے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق وادی میں 2008ء سے 31 مارچ 2016ء تک ساڑھے پانچ سو افراد پیلٹ گن کے قہر کا شکار ہوچکے ہیں۔جن میں سے 73 کی بینائی جا چکی ہے۔174 لوگوں کے بازوناکارہ اور 100 کی ٹانگیں بے کار جبکہ ڈھائی سوافراد کے جسم کے دیگر اعضاء ناکارہ ہوچکے ہیں اور مہلک اسلحے سے متاثرہ نوجوان زندگی بھر کے لئے معذور ہوچکے ہیں۔جبکہ زخمی نوجوانوں کی بڑی تعداد گرفتاری سے بچنے کے لئے ہسپتال ہی نہیں آتی اس کے اعدادوشمار رپورٹ میں شامل ہی نہیں کئے گئے۔

یاد رہے کہ کشمیری نوجوان کوزخمی ہونے کے بعد ہسپتالوں میں جانے پر بھارتی فورسز زخمی حالت میں گرفتار کرکے لے جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیلٹ گن سے زخمی نوجوانوں میں سے کسی کی نس کٹ گئی تو کسی کے جسم میں اس طرح پیلٹ پیوسٹ ہوگیا کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کو فوری طور پر جسم سے نہیں نکالا جاسکتا ہے۔اس طرح کی زندگیاں خطرے میں ہیں اور ان کے جسم کے اندرونی حصوں میں جو پیلٹ لگے ہیں وہ کسی وقت بھی جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔


سال 2008 ء اور سال 2010ء اور اس کے بعد کئے گئے مظاہروں اور احتجاجوں میں شدت آئی تو بھارت سکیورٹی اہلکاروں نے براہ راست نوجوانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا اس غیر انسانی اقدامات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تو ریاستی حکومت نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے غیر مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ اعلان کیا کہ اب مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے گولیاں نہیں چلائی جائیں گی لیکن دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونگتے ہوئے”پیلٹ گن“ کا استعمال شروع کر دیا کہ یہ ایک غیر مہلک ہتھیار ہے۔

معمولی نوعیت کے مظاہروں کے دوران پولیس اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے ابتدائی طور پر پیلٹ گولیاں ہی چلائی جاتی ہیں اور اس کے بعد براہ راست فائرنگ کی جاتی ہے۔کپوڑاہ میں ایک نوجوان کے سر پر ٹیئر گیس کا گولہ پھینکا گیا جس کا مقصد یہی تھا کہ وہ زندہ نہ رہ پائے اور ہوا بھی وہی جس نوجوان کو گیس شیل کا نشانہ بنایا گیا وہ جانبر نہ ہوسکا۔مقبوضہ کشمیر میں تعینات پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب ست اب ”پیلٹ گن“ کو غیر مہلک ہتھیار قرار دیا جارہا ہے حقیقت یہ ہے کہ پیلٹ بھی خطرناک قسم کا ہتھیار ہے جس سے انسان عمر بھر کیلئے معذور ہوجاتا ہے اور اس کی بینائی بھی ختم ہوجاتی ہے۔

یعنی کشمیریوں کی نوجوان نسل کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دائمی معذور بنایا جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں غیر مہلک ہتھیاروں کے نام پر ایسے ایسے خوفناک ہتھیار یہاں متعارف کرائے گئے ہیں جن سے انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے یہ وہ ہتھیار ہے جو عمومی طور پر جانوروں کی خلاف استعمال ہوتا ہے اور وادی کشمیر میں انسانوں کے خلاف اس ہتھیار کے استعمال سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے حکمرانوں کے نزدیک انسان کی کیا وقعت ہے۔

”پیلٹ گن“ غیر مہلک ہتھیار کے طور پر متعارف کروائے گئے اسلحے نے وادی میں تباہی مچا دی ہے ۔کشمیر کے نوجوانوں کو تباہ وبرباد کیا جارہا ہے تاکہ وہ جینے کے قابل ہی نہ رہیں۔
پیلٹ گن میں ربڑ کی چھوٹی چھوٹی بال نما گولیاں ہوتی ہیں۔ایک وقت میں اس میں 400 سے 500 گولیاں نشانے پر داغی جاتی ہیں اور ایک ساتھ سینکڑوں گولیاں اس دہانے سے نکل کر سامنے کھڑے انسان کے جسم کے ایک حصے کو چیرتی ہوئی جاتی ہیں اور اسے جیتے جی موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

بھارتی فوج پیلٹ گن کے ذریعے اکثر وبیشتر کشمیری مظاہرین کے چہروں کو نشانہ بناتے ہیں جس سے ان کی زد میں آنے انسانوں کی بینائی ضائع ہوجاتی ہے۔بھارتی انگریزی روزنامہ ”HINDU “کی ایک رپورٹ کے مطابق 2010ء سے 2013ء کے دوران سرینگر کے دو معروف ہسپتالوں میں پیلٹ گن کا شکار ایسے 36 نوجوانون کا علاج کیا گیا تھا جن کی آنکھوں میں شدید قسم کے زخم آچکے ہیں اور ان کی بینائی متاثر ہوئی ہے۔

صرف2010ء میں دس کشمیری نوجوانوں کی بینائی چلی گئی۔گزشتہ سال مئی میں دسویں جماعت کے ایک طالب علم کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا تو ڈاکٹر کئی دنوں کی انتھک کوششوں کے باوجود اس معصوم کی آنکھوں کی روشنی کو نہ بچا سکے۔مقبوضہ کشمیر کے انسپکٹر جنرل نے اس ہتھیار کے استعمال کو یہ کہتے ہوئے جائز ٹھہرایا کہ ”سنگ بازی“کو قابو کرنے کے لئے سکیورٹی اہلکاروں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

حالانکہ احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کیلئے مہذب دنیا نے جائز حدود قیود کا تعین پہلے ہی کر رکھا ہے۔
ایک اور خطرناک پمپ ایکشن گن پی اے جی ہے اس کی بناوٹ عام شکاری بندوق کی طرح ہے،پی اے جی استعمال کرنے والے پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ یہ بندوق تین سو فٹ تک اپنا ہدف لے سکتی ہے۔
سرینگر کے پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس بندوق کے استعمال سے شمالی کشمیر میں مظاہروں کو روکنے میں پولیس کو کافی مدد ملی ہے،اسے پی جی کے استعمال پر پولیس اور انتظامیہ کو تنقید کا سامنا ہے۔

محکمہ صحت کے سینئر معالج کے مطابق گولی تو ایک جگہ لگتی ہے اور آپریشن کے ذریعہ نکالی جاسکتی ہے لیکن اے جی کے ریزے پورے جسم میں ہوتے ہیں،پھر تو زخمی جسم پر درجنوں آپریشن کرنا ہونگے ۔یہ ہتھیار مہلک ہے۔ایک اور بندوق میں سرخ اور کالی مرچ اور دوسرے اجزاء سے بنائی گئی گولیوں کا استعمال ہوتا ہے۔یہ بندوق ان گولیوں کو گیس کی مدد سے پھوڑتی ہے جس سے کالے گھنے دھویں کے بادل پیدا ہو جاتے ہیں اور ہجوم میں شامل لوگوں کا دم گھٹنے لگتا ہے۔


اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اس بندوق کا نام پیپر بال لانچر یا بی بی ایل ہے اور یہ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کی مدد سے فائر کرتی ہے۔لئیررایکس 26 ایک پستول نما گن ہے،جس میں تانبے کی تار کے چھلے استعمال ہوتے ہیں ،انگریزی کے صرف ڈبلیو کی بناوٹ کے یہ چھلے گولی ہی کی رفتار سے چلتے ہیں،گیس کے دباؤ سے فائر ہونے والے سکے ان چھلوں میں برقی رو پیدا ہوتی ہے جس سے زد میں آنے والے کو بھی جھٹکا لگتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے تاہم اس گن سے متعلق پولیس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اکیس فٹ سے کم فاصلے سے فائر کیا گیا تو اس کی زد میں آنے والا مر بھی سکتا ہے۔


علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں مہلک ہتھیار ”پیلٹ گن“ کے استعمال سے نوجوانوں کو عمر بھر کیلئے معذور بنانے کی کہانیوں پر مشتمل کتاب ”کشمیر پیلٹ گن سے خوفزدہ“میں پیلٹ گن کے شکار نوجوانوں کی کہانیوں کو یکجا کرکے کتابی شکل دی گئی ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر لوگ بھارتی مظالم سے باخبر ہو جائیں۔کتاب کی تقریب رونمائی میں کئی متاثرہ نوجوان بھی موجود تھے جو پیلٹ لگنے سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔

حریت لیڈر میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ کشمیر میں ایک جائز جدوجہد میں مصروف عرام کے خلاف جہاں انسان کش کالے قوانین کے تحت مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری ہے،وہیں نہتے مظاہرین کے خلاف پیلٹ گن جیسے مہلک ہتھیار جس کے استعمال کو بین الاقوامی پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔کے استعمال سے اب تک کئی نوجوانوں اور کمسن طالبعلموں کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے اور متعدد نوجوان عمر بھر کیلئے اپاہج ہوکر رہ گئے ہیں۔


ایک اندازے کے مطابق وادی میں سینکڑوں افراد ہیں جو پیلٹ گن کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے اور کئی سال سے علاج کرواتے آرہے ہیں۔2013 ء میں سرینگر کے دو ہسپتالوں میں دو سو کے لگ بھگ ایسے افراد آئے تھے جو پیلٹ گن لگنے سے زخمی ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں چلی گئیں۔انسانی حقوق کیلئے مقامی طور پر سرگرم تنظیموں اور کارکنوں کیساتھ ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چھرے دار بندوق کا انسانوں پر استعمال عالمی ضوابط کے مخالف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kashmirion Par Mohlik Tareen Hathyaron Ka Istamal Jari is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 07 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.