کیسا استعفیٰ؟ وزیراعظم کا پہلی مرتبہ ٹھونک کر جواب

پاناما لیکس پرعدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں نے اسے تسلیم کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے دو فاضل ججوں کے اختلافی نوٹ کی روشنی میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کے اس مطالبے کی تکرار میں کسی سے پیچھے نہیں رہی

جمعہ 5 مئی 2017

Kaisa istiifa
احمد کمال نظامی:
پاناما لیکس پرعدالت عظمیٰ کا فیصلہ آنے کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں نے اسے تسلیم کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے دو فاضل ججوں کے اختلافی نوٹ کی روشنی میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کے اس مطالبے کی تکرار میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔

کسی نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کی انکوائری اور تفتیشی رپورٹ مرتب کر کے عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے کیلئے 60روز کی مدت مقرر کر رکھی ہے۔ عدالت نے وزیراعظم پاکستان کو اپنے منصبی فرائض سے نہیں روکا اور نہ ساٹھ روز تک انہیں معطل کرنے کی ضرورت محسوس کی۔میاں محمد نوازشریف پر ابھی تک صرف الزام ہے جو تاحال ثابت نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

اس کا فیصلہ ساٹھ روز بعد ہو گا جب تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش ہو گی۔ گویا چالان پیش ہو گا اور یہ عدالت کی صوابدید پر ہے چالان میں کون سے نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اصولی طور پر اپوزیشن کی جماعتوں کو ساٹھ روز انتظار کرنا چاہیے تھا لیکن تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کو جواز بناتے ہوئے دراصل وزیراعظم میاں محمد نوازشر یف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے پنجاب کو فتح کرنے کی تحریک شروع کر دی۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے استعفیٰ مانگنا منشور قرار پا چکا ہے اور گزشتہ چار برسوں سے عمران خان اپنی دکان سیاست کا سائن بورڈ استعفیٰ کو بنائے ہوئے ہیں لیکن عوام میں پذیرائی پھر بھی حاصل نہیں کر سکے۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق میئر کارپوریشن چوہدری شیرعلی نے کہا ہے عوامی تحریک چلنے کا زمانہ بیت گیا۔

1970ء اور 1977ء کا زمانہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور نہ اب اس زمانہ جیسے حالات ہیں لہٰذا اب قومی اتحاد جیسی تحریک کے چلنے کا کوئی امکان نہیں۔چوہدری شیرعلی کی اس بات میں بڑا وزن ہے۔ 1977ء کی تحریک میں عوام نے اس لئے پرجوش اور دیوانہ وار حصہ لیا تھا کہ ان کی رائے پر ایک سول ڈکٹیٹر نے ان انتخابی نتائج پرڈاکہ مارا تھا اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر ظلم و ستم کی انتہا ہو گئی تھی۔


اب حالات یکسر مختلف ہیں پانامہ کا مسئلہ کرپشن کے حوالہ سے اہم ہونے کے باوجود عوامی مسئلہ نہیں ۔ جہاں تک کرپشن کا مسئلہ ہے بدقسمتی سے حکمران اشرافیہ کرپشن ایسے تکنیکل انداز میں کرتی ہے کہ کرپشن کو ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آج تک سیاست دانوں پر کرپشن کے متعدد الزامات عائد کئے گئے اور ان پر مقدمات بھی چلائے گئے۔ مثال کے طور پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات میں جتنے بھی مقدمات چلائے گئے ایک مقدمہ میں بھی سزاوار قرار نہیں پائے حالانکہ ان کی کرپشن کے اوراق تو ہواوٴں میں اڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔

عوام جس کو کرپشن قرار دیتے ہیں وہ کرپشن ہوتی بھی ہے لیکن حکمران اشرافیہ اسے اپنا حق خدمت قرار دیتے ہیں۔ بازار سیاست گرم ضرور ہے اور اب تو حکمران مسلم لیگ(ن) نے بھی اپوزیشن کو اسی کی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے بھی جلسوں کے ذریعے اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔

عمران خان کے اسلام آباد میں جلسہ کے دوسرے روز بعد میاں محمد نوازشریف نے اوکاڑہ میں جلسہ عام سے خطاب کیا اور اپنے خطاب میں دوٹوک الفاظ میں نہ صرف مستعفی ہونے سے انکار کر دیا بلکہ اس مطالبہ کو غیرآئینی، غیرقانونی، غیرعوامی اور غیراخلاقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو عوام نے منتخب کیا ہے کسی میں اتنی جرات نہیں کہ عوام کے فیصلہ کو مسترد کر سکے۔

میاں محمد نوازشریف نے اپنے ترقیاتی پروگرامو ں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالہ سے بھی اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا اور بجلی بحران پر بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی پر الزام عائد کیا کہ کوڑھ کی یہ کاشت پیپلزپارٹی نے کی ہم اس کوڑھ کی فصل کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے اور آئندہ سال پاکستان میں روشنیوں کا سال ہو گا اور لوڈشیڈنگ ماضی کا قصہ بن جائے گی۔


پاکستان میں سی پیک خوشحالی، ترقی، استحکام اور بے روزگاری کے خاتمہ کی نوید دیتا ہے جو عوام دشمنوں کو گوارا نہیں ہے جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نے سرگودھا میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عوام کے مصائب و مسائل کے حل کے لئے اپنے اقدامات سے عوام کو آگاہ کیا اور کہا کہ ماضی کی کسی حکومت نے کسانوں کو درپیش مسائل سے نجات دلانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔

ہم نے کسان پیکج کے ذریعے نہ صرف کسانوں کے مسائل حل کئے ہیں اور کرتے رہیں گے بلکہ چھوٹے کسانوں کے محدود وسائل کے باوجود بلاسود قرضے فراہم کرتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی مملکت بنانے کی طرف پیش قدمی کی ہے اور ہم تیزی سے سنگ میل سے سنگ میل طے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں محمد نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے اپنے نامہ اعمال پر ایک نظر ڈال لیں۔

زرداری کی لوٹ مار اور نیازی صاحب کی جھوٹی سیاست نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ ملک سے اندھیرے چھٹ جانے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور میاں محمد نوازشریف چوتھی بار بھی ملک کے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔ میاں محمد شہبازشریف نے عمران خان کو 10ارب روپے کا جھوٹا الزام عائد کرنے پر عدالت کے کٹہرے میں لانے کا اعلان بھی کیا۔ دیکھتے ہیں کہ میاں محمد شہبازشریف عمران خان پر کب مقدمہ دائر کرتے ہیں یا محض دھمکی سے ہی کام لیتے ہیں۔

اگر میاں محمدنوازشریف اور میاں محمد شہبازشریف نے مقدمہ دائر کر دیا تو یہ ایک نئی روایت کے جنم لینے کی ابتدا ہو گی اور ہماری سیاست جو بدقسمتی سے سیاست کے مسلمہ اصولو ں کی بجائے دشنام تراشی کی فیکٹری بن گئی ہے اس کے آگے بند باندھنے والی بات ہو گی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ میاں محمد نوازشریف کو ہٹانے کے لئے تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلای اور ان کی اتحادی قوتیں کس طرح کوئی سیاسی تحریکچلانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔

اس کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل سکے گا۔
دریں اثناء لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نوازشریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ نیا فیکٹر ہے اور کسی سیاسی تحریک کا رخ بھی متعین کر سکتا ہے لیکن لاہور ہائی کورٹ بار نے جو وزیراعظم کو مدت دی تھی وہ ختم ہو چکی ہے اور پنجاب کی کسی بھی بار ایسوسی ایشن نے اس کی آواز سے آواز نہیں ملائی۔

اس کی غالب وجہ یہی ہے کہ ضلعی بار ہو یا تحصیل بار اس کی قیادت پر مسلم لیگ(ن) کے حامی فائز ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس تحریک میں وکلاء برادری شامل نہ ہو وہ تحریک کی شکل اختیار نہیں کرپاتی۔ اس کے ساتھ ہی وکلاء برادری دو حصوں میں تقسیم ہے اور غالب امکان یہی کہ ساٹھ روز تک وکلاء برادری خود کو کسی قسم کی تحریک سے الگ رکھے گی اور وکلاء بحیثیت برادری اپوزیشن کی تحریک کا حصہ نہیں بنے گی اور اہم ترین بات جو پورے دعویٰ اور وثوق سے ہی جا سکتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف، جماعت اسلامی مل کر تحریک نہیں چلائیں گے۔

لہٰذا میاں محمد نوازشریف کو ہٹانے کے نعرے تو بلند ہوں گے لیکن یہ صرف نعرے ہی رہیں گے اور نوازشریف وزارتعظمیٰ کے منصب پر اس طرح فائزرہیں گے اور مخالفین کو جوابی جلسوں میں جواب بھی دیتے دکھائی دیں گے۔!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kaisa istiifa is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 May 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.