جارحانہ سیاست کے بدلتے انداز

چار سال تک جارحانہ سیاست کرنے کے بعد پیپلز پارٹی نے قومی سیاست میں سافٹ پالیسی اپنالی جبکہ اس کی مبینہ حریف جماعت مسلم لیگ نے نئی پوزیشن لے لی جس کی وجہ یہ ہے کہ پانامہ کیس کی اپیل مسترد ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پاس قانونی آپشن ختم ہوگئے۔

جمعہ 22 ستمبر 2017

Jarhana Siyasat Ke Badalty Andaaz
شہزاد چغتائی:
چار سال تک جارحانہ سیاست کرنے کے بعد پیپلز پارٹی نے قومی سیاست میں سافٹ پالیسی اپنالی جبکہ اس کی مبینہ حریف جماعت مسلم لیگ نے نئی پوزیشن لے لی جس کی وجہ یہ ہے کہ پانامہ کیس کی اپیل مسترد ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پاس قانونی آپشن ختم ہوگئے۔ اب جو بے شمار راستے بچے ہیں ان میں پاپولر سیاسی جماعتوں کا اتحاد اہمیت کا حامل ہے۔

المیہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کی توجہ اس جانب کم ہے سیاسی حلقے کہتے ہیں مسلم لیگ تن تنہا یہ جنگ نہیں جیت سکتی اس کو اب مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔مسلم لیگ کو جارحانہ سیاست کا راستہ پیپلز پارٹی نے سکھایا ہے پیپلز پارٹی نے محاذ آرائی کی سیاست سے بہت کچھ سیکھا اورسکھایا۔ ریلیف بھی حاصل کیا 11سو ارب کے بجٹ کی مالک صوبائی حکومت پر کسی کو میلی نظر نہ ڈالنے دی۔

(جاری ہے)

خود کو بچایا اور فوائد بھی حاصل کئے۔ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی ملک سے باہر چلے گئے آصف علی زرداری بری ہوگئے ان کے قریبی دوست انور مجید اور شرجیل میمن وطن واپس آگئے اور پھرآصف علی زرداری کو بھی محفوظ راستہ مل گیا۔ این آر او کی بساط بچھائی گئی۔اب پیپلز پارٹی کھلی سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے بیک وقت کئی کشتیوں میں سوار ہے۔ اس کا کسی کے ساتھ تصادم نہیں۔

این آر او کی کوششیں جاری ہیں تو مسلم لیگ (ن) کیلئے دروازے بھی کھلے ہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری کا شمار خوش نصیب سیاستدانوں میں ہوتا تھا۔سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی ان سے شادی ہوئی تو بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ 2008ءمیں انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر حکومت حاصل کرلی صدر بھی بن گئے۔اس دوران وہ گڑھی خدا بخش کے جلسوں میں ہاتھ کاٹنے اور آنکھیں نکالنے کا اعلان کرتے رہے اور ان دھمکیوں کے عوض ریلیف بھی حاصل کرتے رہے۔

ذوالفقار مرزا نے سابق صدر کی موجودگی میں اعتراف کیا کہ ہم پاکستان توڑ نے والے تھے۔ آصف علی کی یہ سیاست اب دوسروں کیلئے بھی مشعل راہ بن سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی نگاہیں اب اقتدار پرمرکوز ہیں آصف علی زرداری کی ساری توجہ اداروں کو منانے پر مرکوز ہے سابق صدر آصف علی زرداری تسلسل کے ساتھ ایسے اقدامات کررہے ہیں جن کا مقصد مصالحت کے پیغامات دینا ہیں۔

اچھا بچہ بننے کیلئے پیپلز پارٹی بہت ہاتھ پیر مار رہی ہے۔وقت کے ساتھ دونوں جماعتوں کی سیاسی رسائی میں تبدیلی آرہی ہے چار سال تک پیپلز پارٹی ناراض رہی۔ اب مسلم لیگ برہم ہے۔ مسلم لیگ نے حالات سے یہ سبق لیا ہے جو ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اس کو اسپیس مل جاتا ہے۔لاکھ اختلافات کے باوجود دونوں جماعتوں کے درمیان بیک ڈور رابطے قائم ہیں۔

گو حالات کا جبر جاری رہا مگرکسی مرحلے پر دونوں جماعتیں ایک ہوسکتی ہیں۔ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی کی حمایت کھودی۔ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر120 میں 85ءسے مسلم لیگ(ن) کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ جہاں کسی دوسری جماعت کے امیدوار کا جیتنا ناممکن ہے۔ لیکن مسلم لیگ(ن) کے منصوبہ سازوں نے پہلے اس حلقے میں مقابلہ کی مصنوعی فضا پیدا کی مخالفین کو جیت کے سحر میں مبتلا کیا۔

ایک حلقے کے الیکشن کو پورے ملک کا محور بنایا پھر اپنے حلقے میں کمال مہارت سے مخالفین کو سیاسی طورپر ذبح کرکے سب کو ششدد کردیا جس کا سب سے زیادہ نقصان سیاسی بصیرت سے عاری تحریک انصاف کو ہوا اور اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔حلقہ 120 کے نتائج کے اثرات آئندہ الیکشن تک برقرار رہیں گے اورا س کی قیمت تحریک انصاف 2018ءکے الیکشن میں ادا کرے گی۔

تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ اس کی قیادت بلا سوچے سمجھے انتخابی میدان میں کود پڑتی ہے۔ کراچی کے حلقہ نمبر 246 میں بھی تحریک انصاف نے بلا سوچے سمجھے چھلانگ لگا کر ہزیمت اٹھائی تھی۔ جہاں اس کے امیدوار کو 5ہزار ووٹ اورمتحدہ کو 93ہزار ووٹ پڑے تھے۔لاہور میں تحریک انصاف کی پوزیشن کچھ بہتر ہوگی لیکن یہ دونوں حلقے تحریک انصاف کیلئے لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔

ممکن ہے تحریک انصاف 2018 کے انتخابات میں شرمندگی اٹھا کر فخر سے کہے کہ اس بار وہ ہار تو گئی لیکن ووٹ زیادہ ملے۔ لاہور میں تحریک انصاف کے الیکشن سیل نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا۔ ووٹروں نے مسلم لیگ کو ایک بڑے بحران سے نکال لیا اور اس پوزیشن پر لاکرکھڑا کردیا کہ مخالفین اب مصالحت کیلئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ستمبر کو ستمگر مہینہ کہاجاتا ہے۔ لیکن 17ستمبر کی رات مریم نواز کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ نے مسلم لیگ کو ایک نیا حوصلہ دے دیا۔

اوندھے منہ پڑی ہوئی مسلم لیگ سینہ تان کرکھڑی ہوگئی۔ کلثوم نواز پہلی بار رکن قومی اسمبلی بن گئیں ان کو روکنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ یہ درحقیقت سیاسی افق پر مریم نواز شریف کی کامیابی تھی۔ مسلم لیگ اورمریم نواز کو روکنے کی بہت کوشش کی گئی۔ لیکن انہوں نے تن تنہا انتخاب جیت لیا اورمخافین کو ووٹ کی طاقت سے سخت جواب دیا سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے بیٹی کو زبردست خراج تحسین کیا مسلم لیگ کے رہنماو¿ں نے بھی مریم نواز کی صلاحیتوں کا اعتراف کرلیا۔

یہ کامیابی انہوں نے مسلم لیگ کے بڑے بڑے قدآور رہنماو¿ں کی مدد کے بغیر حاصل کی اورمخالفت کے طوفان میںکشتی کو بھنور سے نکال لیا۔ اس کے ساتھ مریم نواز نے اپوزیشن کے سامنے 2018 کے الیکشن کا منظرنامہ بھی واضح کردیا۔ انہوں نے یہ راز بھی کھول دیا کہ آئندہ الیکشن کون جیتے گا۔ ادھر ایک ماہ پہلے تک پیپلز پارٹی اداروں سے تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا تھی سندھ میں نیب کے خاتمہ کا بل منظور کرنے کے بعد پیپلز پارٹی رینجرز کے خلاف بل لانے کی تیاریاں کررہی تھی کہ اس نے اچانک یوٹرن لے لیا لیکن اب ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کی گرفتاری پرپیپلز پارٹی اوروفاق کے درمیان نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ہٹنے کے بعد پیپلز پارٹی نے سکون کا سانس لیا تھا جبکہ اس دوران آصف علی زرداری کو کرپشن کیس میں بری کرنے کا فیصلہ آگیا تھا اور ڈاکٹر عاصم حسین علاج کیلئے لندن چلے گئے تھے لیکن اب نئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی موجودگی میں ایف آئی اے نے مہم جوئی کی ہے۔ پیپلزپارٹی نے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اوربلدیاتی اداروں میں پڑنے والے چھاپوں کا بہت برا منایا تھا اوروفاق سے کہا تھا کہ وہ نیب اورایف آئی اے کو روکے کرپشن کے خلاف ہم خود کارروائی کریں گے اورقانون بنائیں گے۔

بعد ازاں پیپلز پارٹی نے نیب کو غیر فعال کردیا اورنیب کے مقدمات صوبائی احتساب کمیشن کو منتقل کردیئے جس کے بعد عدالت نے نیب کو کام کرنے کی اجازت دیدی لیکن نئے مقدمات قائم کرنے سے روک دیا ہے۔23دسمبر 2016 ءکو رینجرز نے سابق صدر آصف علی زرداری کے دوست انور مجید کی شوگرمل آفس اور گھر پر چھاپے مارے تھے اور سابق صدر کے ساتھی لاپتہ ہوگئے تھے۔

لیکن بعد میں سکون ہوگیا تھا اب اچانک چھاپوں اور گرفتاریوں کی لہر آگئی ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہر محاذ پرپسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے اور سمجھوتے پر سمجھوتے کرنے پڑ رہے ہیں۔ عدالت نے آئی جی اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کےلئے پیپلز پارٹی کی استدعا مسترد کردی اور ان کو 3سال تک عہدے پر کام کرنے کی اجازت دیدی جس کے بعد حکومت سندھ نے آئی جی کو قبول کرلیا۔

وزیرداخلہ انور سیال منہ تکتے رہ گئے جوکہ آئی جی کا نام سننے کو تیار نہیں تھے جس کی وجہ یہ ہے کہ اے ڈی خواجہ کے کولمبس انورسیال تھے لیکن آصف علی زرداری نے ای ڈی خواجہ کو براہ راست تعینات کردیا تھا۔کراچی کے سوک سینٹر پر چھاپے اور ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کی جعلسازی کے مقدمہ میں گرفتاری کو ہلکا پھلکا آپریشن قرار دیا گیا۔ ان معمولی چھاپوں اور گرفتاریوں کے بعد اقتدار کے ایوان لرزہ براندام ہوگئے اورغلام گردشوں میں ارتعاش پیدا ہوگیا۔

تحریک انصاف کے رہنما عمران اسمٰعیل نے ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے کو کرپشن کا بادشاہ قرار دیدیا۔ ناصر عباس کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کو سانپ سونگھ گیا۔ دریں اثناءسابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ چار سال سیاست سے دور رہے۔ اور اب آخری سال سیاست کریں گے آصف علی زرداری کی طرح 4سال تک خاموش رہنے کے بعد حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارا اوران کی سیاسی جماعت بھی میدان میں کود پڑی ہے اور بہت زیادہ سرگرم ہوگئی ہے۔

اب تک فنکشنل مسلم لیگ کے کئی جلسے اورکنونشن ہوچکے ہیں جس کا کریڈٹ فنکشنل مسلم لیگ سندھ کے صدر اورسابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے سابق دست راست اور دوست سردار عبدالرحیم کو جاتا ہے۔ جنہوں نے فنکشنل مسلم لیگ میں نئی جان ڈال دی۔کراچی کی سیاست آئے دن کروٹ لیتی رہی ہے ایم کیو ایم کئی برس کراچی صوبے کا مطالبہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتی رہی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے ایک مرتبہ پھر مہاجر صوبہ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے جس کے بعد سوال کیاجارہا ہے کہ کیا آفاق احمد سنجیدہ ہیں یا وہ متحدہ کی طرح کراچی کے عوام جذبات سے کھیل کرسیاسی الو سیدھا کرناچاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Jarhana Siyasat Ke Badalty Andaaz is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 September 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.