جمہوریت اور پاکستان

تمام سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی بالادستی کا نعرہ لگاتے، قوم کو جمہوریت کے فروغ کا درس دیتی، برسراقتدار حکمرانوں کے غیر جمہوری افعال اور آمرانہ روش کا واویلا کرتی نظر آتی ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں

ہفتہ 5 اگست 2017

Jamhoriyat Our Pakistan
محمد سلیمان خان:
تمام سیاسی پارٹیاں جمہوریت کی بالادستی کا نعرہ لگاتے، قوم کو جمہوریت کے فروغ کا درس دیتی، برسراقتدار حکمرانوں کے غیر جمہوری افعال اور آمرانہ روش کا واویلا کرتی نظر آتی ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں لیکن خود انکے درمیاں جمہوری روایات کی پاسداری کی جھلک دکھائی نہیں دیتی جبکہ آمرانہ روش رکھنے والے پارٹی سربراہان نے اپنی پارٹیوں کو ایسا گروہ بنایا ہوا ہے جس میں بے شمار ڈان ہوں اور وہ خود گاڈ فادر ہوں۔

پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں 17وزیر اعظم آئے۔ انکے علاوہ چھ نگران وزراءاعظم نے بھی اقتدار میں حصہ ڈالا۔

(جاری ہے)

ایسے وزیراعظم بھی نامزد ہوئے یا انتخاب کئے گئے جو عالمی اداروں سے امپورٹ کئے گئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکا اور سول اسٹیبلشمنٹ اور کبھی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا شکار ہوتے رہے۔ تاریخ نے نیا موڑ لیا اور سیاست کی بساط لپیٹنے کیلئے جوڈیشنل ایکٹوازم کی اصطلاح بھی اس کشمکش میں شامل ہو گئی۔

سول اسٹیبلشمنٹ نے پہلے وزیراعظم کو گولی مار کر جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا اور پانچ وزیر اعظم آئے۔ ان میں سے ایک آئین پاکستان بنانے کے جرم میں فارغ کر دیا گیا۔ پھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا دور شروع ہوا۔ اب تک چار مارشل لاءلگ چکے ہیں۔ ایوب، یحییٰ، ضیاءالحق اور پرویز مشرف۔ یحییٰ خان کو فوج نے ہی سقوط مشرقی پاکستان کے جرم میں برطرف کیا اور ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیئے گئے۔

انھوں نے آئین دیا، غربت کے خاتمہ کیلئے اورسیز پاکستانیوں کو مہمیز دی، توانائی کے منصوبوں کو شروع کرنے کے علاوہ ایٹمی ڈیٹرجنٹ حاصل کرنے کی ابتداءکی، اتحاد مسلم کیلئے کام کیا اور اس جرم میں انکی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔یحییٰ خان کے علاوہ تینوں جنرلز نے دس دس سال حکومت کی۔ ایوب خان اور مشرف کو عوامی تحریکوں کی وجہ سے اقتدار چھوڑنا پڑا۔

ضیاءالحق افغان جنگ میں مقصد پورا کرنے کے بعد امریکی سازش کا شکار بن کر ہوائی حادثہ میں چل بسے۔ برسراقتدار طبقہ کی 70 سالہ تاریخ کی وجہ سے سول، ملٹری اور سیاسی رویوں نے اختلافات کی ایسی فضا قائم کی کہ ہر کوئی دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور باامرمجبوری دوسرے کو قبول کرتا ہے۔ سول، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے جمہوری حکمرانوں کے درمیان بھی اختلاف فساد کی جڑ رہا ہے۔

ضیاءالحق کے بعد بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک دوسرے سے دست وگریباں رہے۔ اس میں بھی سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت اہم رہا۔ پاکستان کے ان دونوں قائدین کو سیاست سے باہر رکھنے کیلئے اقتدار کے حصول میں رال ٹپکانے والے سیاسی لیڈروں نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر آئین میں ترمیم کے ذریعے ان دونوں کو بالآخر تیسری دفعہ وزیر اعظم نہ بننے کی شرط لگا کر سیاست سے باہر کر دیا۔

ان دونوں بڑی سیاسی قوتوں نے دیگر سیاسی قائدین کے تعاون سے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تا کہ غیرجمہوری رویوں کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ بات کٹھ پتلیوں کا ناچ نچانے والی عالمی اسٹیبلشمنٹ کو گوارا نہ تھی۔ کیونکہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کی صورت میں ایسے لیڈر میسر آ گئے تھے جنھیں عوام کی بڑی تعداد قبول کرتی تھی اور جو قومی ترقی کے زینے میں تبدیلی لانے کا مظہر ہو سکتے تھے۔

چنانچہ بے نظیر بھٹو کو گولی مار کر اسی میدان میں شہید کر دیا گیا جہاں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ قرعہ فال مسٹر ٹین پرسنٹ سے ہنڈرڈ پرسنٹ بننے والے کا نام کے اور پھر قومی معیشت کی ناکامی کا دور شروع ہوا۔ یک لخت ڈیزل کی قیمت ڈبل کر دی گئی جس کی وجہ سے تیل کے بجلی گھر جو نصف سے زائد بجلی پیدا کرتے تھے کی پیداواری قیمت بھی دوگنا ہو گئی۔

روپے کی قیمت میں یکدم کمی نے بھی معیشت پر برا اثر ڈالا۔ تیل سے چلنے والی زرعی مشینری اور اس پر آنیوالے اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا تو زراعت کو بھی دھچکا لگا۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ سے صنعتوں کی پیداواری صلاحیت نے دم توڑ دیا۔ برآمدات کا گراف گرا اور درآمدات کے اضافہ سے ادائیگیوں میں اضافہ ہونے لگا۔بجلی کی قیمت کو کنٹرول رکھنے کیلئے عام صارفین کیلئے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہ کیا گیا مگر یہ بوجھ دوسرے معنوں میں قومی خزانہ پر ہی تھا۔

ملک میں نئے بجلی گھر لگانے کے بجائے مہنگے ترین رینٹل پاور کے ذریعے بجلی خریدی گئی جس کا بھاری بوجھ قومی خزانے پر پڑا۔ واپڈا کو تقسیم کار کمپنیوں میں تبدیل کرکے ایسا کھیل رچایا گیا جس سے پی پی آئیز کو بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں میں تاخیر ہونا شروع ہوئی۔ اس طرح سرکلر ڈیٹ کی اصطلاح سامنے آئی۔ ملک میں ایک ایسی فضا قائم ہوئی جس سے عوام میں نفرت بڑھتی گئی اور پی پی اپنی شہرت کھو بیٹھی۔

اس کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا اور میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہو گئے۔2013ءکے الیکشن میں تحریک انصاف تیسری بڑی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ خیبر پی کے میں بھی اسکی حکومت قائم ہوئی۔ الیکشن کے فوراً بعد عمران خان نے صوبہ خیبر پی کے میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے نواز حکومت کو گرانے پر پورا زور لگا دیا۔ جلوسوں اور دھرنوں کی شکل میں پورے پاکستان کی سیاست میں تلاطم پیدا کر دیا۔

اس طرح ایک مرتبہ پھر وہ کیفیت پیدا ہو گئی جو محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے سابقہ ادوار کا تسلسل رہا ہے۔ اس طرح جمہوری اداروں کی وہ تربیت اور پختگی جو جمہوریت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، پھر معدوم ہو گئی۔ایک دفعہ پھر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جمہوری اداروں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلیوں میں اہل افراد کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔

اسکی بڑی وجہ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی ہے۔ اپنا عرصہ انتخاب پورا نہ کرنے کے بعد مظلوم بن جانا، سیاستدانوں کا نعرہ بن جاتا ہے۔ اس طرح قومی ترقی کی سوچ رکھنے والے سیاستدانوں اور ملکی دولت لوٹنے والے سیاستدانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اگر عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ہو جو اپنی مدت انتخاب پوری کرے تو اگلے الیکشن میں قوم خود اپنے انتخاب پر نظر ثانی کرتی ہے۔

جس طرح 2013ءکے الیکشن میں قوم کی اکثریت نے پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دے کر ان کی قیادت کو آئینہ دکھایا اور اس طرح تحریک انصاف کو میدان میں آنے کا موقع ملا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے شاید یہ موقع گنوا دیا ہے۔اگر عمران خان اپنی اس کارکردگی کو مسلسل رکھتے جو انھوں نے شوکت خانم ہسپتال قائم کرکے قوم کو دکھائی تھی اور اپنی اس فائٹنگ سپرٹ کو بھی اپنے صوبہ خیبر پی کے کی ترقی کا زینہ بناتے جو انھوں نے ورلڈ کپ جیت کر قوم کا دل جیت لیا تھا تو آئندہ الیکشن میں قوم کو بہترین سلوگن دے سکتے تھے۔

مگر انھوں نے لڑو اور حکومت حاصل کرو کا وہ راستہ اختیار کیا جو میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا خاصا رہا تھا اور جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کا موقع ملتا تھا۔ آج جوڈیشنل ایکٹوازم کی وجہ سے میاں نواز شریف کو اس وجہ سے نااہل قرار دیا گیا ہے جس میں قوم کو ایک دھیلے کا بھی نقصان نہیںکہ قوم انہیں " امین" نہ سمجھے۔ بلاشبہ انھوںنے ایک معمولی بات کو نظر انداز کرکے نہ بتانے کا جرم کیا تھا جس کی بناءپر انہیں "جھوٹا" بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اب قوم کے سامنے وہ ایک معصوم کے طور پر ابھر کو سامنے آئیں گے!! کیا عمران خان ان کا مقابلہ کر پائیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Jamhoriyat Our Pakistan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 August 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.