انتخابی اتحاد کے لئے جوڑ توڑ شروع

مسلم لیگ ن کی حکومت کا ”کاﺅنٹ ڈاﺅن“ شروع ہو گیا ہے۔ ایک ماہ چار روز بعد مسلم لیگ ن کی حکومت خودبخود ختم ہو جائے گی

جمعرات 26 اپریل 2018

intikhabi ittehaad ke liye jor toar shuru
نواز رضا
مسلم لیگ ن کی حکومت کا ”کاﺅنٹ ڈاﺅن“ شروع ہو گیا ہے۔ ایک ماہ چار روز بعد مسلم لیگ ن کی حکومت خودبخود ختم ہو جائے گی۔ بےورو کرےسی پر دن بدن حکومت کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے گو کہ ملک میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان شاہد خاقان عباسی کے پاس ہے لیکن ملک میں عملاً سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان کا ہی حکم چل رہا ہے جس کے سامنے پوری حکومت ”بے بس“ دکھائی دیتی ہے۔

پوری حکومتی مشینری چیف جسٹس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف جو اپنی اہلےہ کی عےادت کے بعد وطن واپس آگئے ہےں احتساب کورٹ مےں پےشی کے بعد ان کی گفتگو مےں تلخی بڑھ گئی ہے انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ”ملک میں جمہوریت کے بجائے بدترین آمریت قا ئم ہے۔

(جاری ہے)

جو ہو رہا ہے وہ جوڈیشل مارشل لاءسے کم نہیں“۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ”چیف جسٹس اپنی بات کہہ دیتے ہیں، کوئی دوسرا بولے تو اسے روک دیتے ہیں۔

مجھ پر مارشل لاءمیں بھی اتنی پابندیاں عائد نہیں جتنی اب ہیں“۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت ان کی پارٹی کے متعدد رہنما نیب کیس بھگت رہے ہیں یا ان کے خلاف نیب تحقیقات کر رہی ہے۔ بظاہر چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ سب کا بلا تخصیص احتساب کیا جا رہا ہے لیکن جس طرح شریف خاندان کا احتساب ہو رہا ہے وہ ان کے دعوﺅں کی نفی کرتا ہے۔

اسے میاں نواز شریف نے” احتساب “کی بجائے ”انتقام“ قرار دیا ہے۔ کچھ دنوں سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف چیف جسٹس کے بارے میں ”ون ٹو ون“ ہو گئے ہیں۔ وہ ہر روز چےف جسٹس آف پاکستان پر سوالات اٹھاتے ہےں اور پھر اس کا جواب بھی آجاتا ہے میاں نواز شریف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ” انھیں معلوم تھا کہ نیب مارشل لاءدور کا قانون ہے،ان سے غلطی ہوئی کہ وہ اسے ختم نہیں کرسکے“۔

انھوں نے کہا ہے کہ میرے خلاف اربوں‘ کھربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ‘ اﷲ تعالی ہمیں تمام الزامات سے سرخرو کررہا ہے‘ 21 صدی میں کوئی سمجھتا ہے کہ وہ کسی کی زبان بند کرسکتا ہے تو اس کی خام خیالی ہے‘ انھوں نے بین السطور کہا کہ اگر آپ کچھ کہیں گے یا کریں گے تو 22کروڑ عوام اس کا جواب دے گی‘ آپ براہ مہربانی اپنا کام کریں اور دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت نہ کریں‘ آپ جا کر یہ بھی دیکھ لیں کہ عدالتوں میں غریب عوام کو کتنا انصاف مل رہا ہے۔

ےہ بات قابل ذکر ہے انہوں ےہ بات بھی کہی ہے کہ ”نےب کو اس بات کی بھی تحقےقات کرنی چاہےے کہ چےف جسٹس کو پہلے سےکرےٹری قانون اور پھر جج کےسے بناےا گےا ؟ میاں نواز شریف نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ یہ نعرہ نعرہ گلی گلی اور گاﺅں گاﺅں تک پھیل چکا ہے اب یہ معاملہ نہیں رکے گا۔مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف اور عدلیہ کے درمیان بظاہر تصادم نظر نہیں آتا مگر ایک دوسرے کو” طعنے “دینے کا سلسلہ جاری ہے جس سے وقتاً فوقتاً تناﺅ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

اس سے نظام کار بری طرح متاثر ہو رہا ہے گو کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ببانگ دہل کہا ہے کہ” ملک میں مارشل لا لگے گا اور نہ ہی جوڈیشل مارشل لاءکی کوئی گنجائش ہے۔ اگر مارشل لاءہو گا تو ہم 17 جج نہیں ہوں گے۔ مارشل لاءکو کسی صورت تحفظ نہیں دیا جائے گا۔
اگرچہ ابھی عام انتخابات کا طبل نہیں بجا لیکن سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات سے قبل انتخابی اتحاد بنانے کے لئے جوڑ توڑ شروع کر دیئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے جب سے پارٹی کو ٹیک اوور کیا ہے، انھوں نے ملک گیر دورے شروع کر دیئے ہیں۔ انھوں نے اب تک خےبر پختونخوااور کراچی کا دورہ کیا ہے۔ وہ جلد اندرون سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کا دورہ کریں گے۔ میاں شہباز شریف نے سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا ڈھانچہ مکمل کر دےا ہے جبکہ کے پی کے میں امیر مقام کو پارٹی کی سربراہی مےں ڈھانچہ برقرار رکھنے کا گرین سگنل دے دیا ہے تاہم آنے والے دنوں میں پنجاب میں بھی تنظیمی ڈھانچہ مکمل کر لیا جائے گا پنجاب مےں راجہ اشفاق سرور کو پارٹی مےں اہم ذمہ داری دی جا سکتی ہے ۔

پارٹی کا قومی سطح پر ڈھانچہ بھی جلد مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔ میاں شہباز شریف پارٹی کے قائد میاں نواز شریف سے مشاورت کے بعد اہم فیصلے کر رہے ہیں شنےد ہے سےنئر مسلم لےگی رہنما سردار مہتاب احمد خان کو پارٹی کا سےکرےٹری جنرل بنا ےا جا رہا ہے مےاں شہباز شرےف نے کراچی میں دو روزہ قیام کے دوران سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتیں کی ہےں ۔

انھوں نے ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت سے بھی بات چیت کی ہے۔ اسی طرح جب وہ بلوچستان اور کے پی کے کا دورہ کریں گے تو وہاں پر قوم پرست جماعتوں سے انتخابی اتحاد کے لئے بات چیت کریں گے۔ پاکستان مسلم لیگ ن بلوچستان میں نیشنل پارٹی، جمیعت علماءاسلام ف اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے مل کر انتخابی اتحاد بنانے کی کوشش کرے گی۔

اسی طرح سندھ میں ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ امکان ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال خیبر پختوانخواہ میں ہو گی جہاں مسلم لیگ ن تمام تحریک انصاف مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کا راستہ روکنے کی سعی کرے گی۔ متحدہ مجلس عمل کے قیام کے بعد جماعت اسلامی اور جمعیت علماءاسلام ف ایک” صفحے“ پر آ گئی ہیں۔

دینی جماعتوں کے بڑے اتحاد کی وجہ سے سیاسی توازن تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ جب سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے سینیٹ کے انتخاب میںوزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کے ”اوپر“ سے حکم آنے پر صادق سنجرانی کو چیئرمین کے لئے ووٹ دینے کا انکشاف کیا ہے، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں ٹھن گئی ہے۔ جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کی جانب سے نامناسب تنقید کا سخت نوٹس لیا ہے جس کے بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہےں جن کا تاحال باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا ۔

جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان ”رومانس “ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہے۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو صوبائی حکومت میں شمولےت کا طعنہ بھی دیا اور اسے حکومت چھوڑنے پر مشتعل کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن تاحال جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کیلئے کوئی مشکل صورتحال پیدا نہیں کی۔ ایک بات واضح ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے راستے الگ ہو چکے ہیں جس کا کسی وقت بھی اعلان ہو سکتا ہے۔

پنجاب جو کہ ”پاور بیس“ ہے میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف بہت کم جماعتوں سے انتخابی تعاون کریں گی۔ اصل لڑائی پنجاب میں لڑی جانی ہے۔ جو پارٹی پنجاب میں انتخابی معرکہ مارے گی ، وہی حکومت بنائے گی لہذا پنجاب کی حد تک انتخابی اتحاد بننے کے امکانات کم ہیں۔ ”نادیدہ قوتیں“ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو گھیر گھار کر ”الیکٹیبل“ فراہم کر رہی ہیں۔

عمران خان بھی اندھا دھند ان لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر رہے ہیں جو کبھی نہ کبھی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ اب ان کے لئے مسلم لیگ ن میں جگہ نہیں یا انھوں نے خود ہی ”کسی“ دباﺅ کے تحت مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ تاحال مسلم لیگ ن کا گراف بھی نہیں گرا۔ نواز شریف کا سیاسی بیانیہ مخالف قوتوں کے لئے” درد سر“ بن گیا ہے۔

نواز شریف کی جماعت کا گھیراﺅ کرنے کے لئے دن رات منصوبہ کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں تمام ہتھکنڈے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ لیکن میاں نواز شریف جیل جانے سے خوفزدہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی دباﺅ کو قبول کر رہے ہیں۔ وہ بعض اداروں کی طرف سے کیے جانے والے ”سلوک“ پر احتجاج کر رہے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ انھیں کسی طور پر بھی ڈرا دھمکا کر اپنے سیاسی مخالفین کے لئے انتخابی میدان خالی کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

بعض سیاسی و غیر سیاسی عناصر کی جانب سے میاں نواز شریف کو جیل بھجوائے جانے کے ”پیغامات“ موصول ہو رہے ہیں لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کیلئے برطانیہ گئے تو ان کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی گئیں۔ عمران خان نے ان کے بیرون ملک جانے کی مخالفت کی اور کہا کہ میاں نواز شریف کو بیرون ملک نہ جانے دیا جائے۔

لیکن وقت نے ثابت کیا کہ میاں نواز شریف آہنی اعصاب کے مالک ہیں۔ وہ نہ صرف احتساب عدالت میں مقررہ تاریخ پر پیش ہوگئے بلکہ ان کے لب و لہجے میں پہلے سے زیادہ سے زےادہ تلخی سے کشےدگی بڑھ رہی ۔ پہلی بار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو میاں نواز شریف کی” لائیو کوریج“ کے دوران سنسر شپ کا سہارا لینا پڑا مےاں نواز شرےف نے کہا ہے کہ وہ آخری حدوں تک جائےں گے اےسا دکھائی دےتا ہے کہ اب وہ آخری حدود کو چھو رہے ہےں جس کا کچھ بھی نتےجہ نکل سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

intikhabi ittehaad ke liye jor toar shuru is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 April 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.