حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حالیہ کشیدگی

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے گزشتہ روز منعقدہ پریس کانفرنسوں میں ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات سے ملکی سیاست ایک بار پھر مخاصمت کی راہ پر چلنے کے خدشات جنم لیتے دکھائی دے رہے ہیں

جمعرات 4 فروری 2016

Hakomat Or Peoples Party k Darmayan haalia Kasheedgi
ادیب جاودانی:
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے گزشتہ روز منعقدہ پریس کانفرنسوں میں ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات سے ملکی سیاست ایک بار پھر مخاصمت کی راہ پر چلنے کے خدشات جنم لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے الزام عائد کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے حکومت سے تمام آسائشیں لینے کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور کچھ فارغ سیاستدان تیل چھڑکنے جیسی باتیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک واقعے کو بنیاد بنا کر آسمان پر اٹھا لیا جاتا ہے اور ہم وہ کرتے ہیں جو دشمن چاہتا ہے۔ دہشتگردوں کی وجہ سے ہم اپنے سکول، ہسپتال بند نہیں کر سکتے۔ پنجاب میں تعلیمی ادارے بند کر کے دہشتگردوں کا کام آسان کیا گیا۔ ملک میں لاکھوں سکولوں کی حفاظت مشکل ضرور ہے مگر ہم نے کرنی ہے۔

(جاری ہے)

جواباً اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب وزیر اعظم کی موجودگی میں پارلیمنٹ میں دینگے۔

اور اگر وزیر اعظم نے کوئی موقع نہ دیا تو عدالت سے رجوع کروں گا۔ آج وہ لوگ بول رہے ہیں جو میرے ہاتھ چومتے تھے کہ ہماری حکومت بچائیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کے آستینوں میں سانپ چھپے ہوئے ہیں ڈستے کسی اور کو ہیں مرتا کوئی اور ہیں۔ ہم نے ماضی کی سیاست چھوڑ کر آگے بڑھنے کی بات کی ہم پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات لگائے گئے جمہوریت اور سسٹم بچانے کی خاطر ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین حالیہ کشیدگی کے ڈانڈے در حقیقت سندھ میں بعض ایسے افراد کے خلاف رینجرز کی کارروائی سے ملتے دکھائی دیتے ہیں جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنماوٴں کے فرنٹ مینوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سندھ میں رینجرز کے خصوصی اختیارات میں توسیع کے معاملے پر وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت کے مابین جو اختلافات پیدا ہوئے اور سندھ اسمبلی کے ذریعے رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کی جو کوشش کی گئی اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جب وفاقی حکومت کی جانب سے رینجرز کو خصوصی اختیارات کیلئے آئینی راستہ اختیار کرنا پڑا تو سندھ کی حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے اہم رہنماوٴں اور سابق صدر آصف علی زرداری کے لہجے میں تلخی آ گئی۔

اس کے بعد دونوں جماعتوں یعنی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین ایک سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ یوں وفاقی وزیر داخلہ اور قائد حزب اختلاف نے گزشتہ روز اپنے اپنے طور پر جس طرح ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات لگائے ہیں ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے پوتڑے بیچ چوراہے کے دھونے کی کوشش کر رہے ہیں جو ملک میں جاری حالیہ دہشت گردی کے تناظر میں منفی تاثر چھوڑیں گے۔


وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ذاتی طور پر کسی مفاد پرستی، سودے بازی یا سکینڈل میں ملوث نہیں رہے، جبکہ گزشتہ تین ہفتوں میں علالت یا کسی اور وجہ سے قومی اسمبلی میں انکی عدم موجودگی کے دوران خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کے دیگر ارکان ان پر بیان بازی کے گولے برسا کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماوٴں کو اندازہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں چودھری نثار علی خان اور انکے ساتھی دو، تین وزراء کی سوچ ہر قسم کے مفادات مصلحت پرستی اور سودے بازی سے بلند ہو کر خالصتاً ملک و قوم کے نقطہ نظر کی حامل ہے۔

پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت بالخصوص چودھری نثار علی خان کے انداز فکر سے اس وقت شکایات شروع ہوئیں، جب سندھ، بالخصوص کراچی میں قاتلوں، بھتہ خوروں اور قبضہ مافیا کیخلاف آپریشن کے بعد سیاسی دہشتگردوں کی باری آئی اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ذاتی دوست اور محسن ڈاکٹر عاصم حسین رینجرز کی تحویل میں آئے۔

وہ قومی لٹیروں کیخلاف تمام راز اگل چکے ہیں، اب جب کہ آرمی چیف بھی اپنی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد کراچی آپریشن میں تیزی لانے کا عندیہ دے چکے ہیں تو پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت شدید ہذیان میں مبتلا نظر آتی ہے۔ چودھری نثار علی خان کی یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کو شکایت کسی اور سے ہے، لیکن وہ میرے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئی ہے۔ گویا درد پیٹ میں ہے لیکن ذکر سردرد کا ہو رہا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کے خلاف بیان بازی کا آغاز خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کے بعض رہنماوٴں نے کیا تھا، جس کا جواب چودھری نثار علی خان نے دیا تو پارٹی کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر ان کیخلاف تیر و تفنگ لے کر میدان میں اتر گیا ہے۔ تاہم خورشید شاہ کی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چودھری نثار علی خان نے مک مکا کی بات کر کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی چیلنج (بے نقاب) کر دیا ہے۔

مصلحت کوشی یا مک مکا کے حوالے سے خورشید شاہ نے کہا کہ یہ الزام براہ راست میاں نواز شریف پر لگایا گیا ہے لہذا وہی بتائیں کہ انہوں نے اپوزیشن سے کیا مک مکا کیا ہے؟ اس دو طرفہ بیان بازی کا یہ پہلو قابل ذکر اور حیرت انگیز ہے کہ خورشید شاہ کی حمایت میں پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو، عبدالقیوم سومرو، نثار کھوڑو، شیری رحمن، لطیف کھوسہ، اعتزاز احسن، مراد علی شاہ، پیر مظہر الحق اور مشتاق اعوان جیسے چھوٹے بڑے رہنما میدان میں اترے ہوئے ہیں، لیکن مسلم لیگ ن کی طرف سے ایک آدھ رہنما کے سوا کوئی اور وفاقی وزیر داخلہ چودھرث نثار علی خان کا دفاع کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔

کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت اب بھی فرینڈلی میچ کھیلنے میں مصروف ہے اور مک مکا یعنی مل بانٹ کر کھانے اور کھلانے کی روایت بدستور قائم ہے، جس میں دونوں جماعتوں کے باری باری حکومت کرنے کا غیر اعلانیہ و غیر تحریری معاہدہ بھی شامل ہے۔کاش وزیر اعظم نواز شریف اپنے ایک نڈر سپاہی کی حمایت میں آکر ثابت کریں کہ انکی پارٹی چودھری نثار علی خان کی طرح کھری اور صاف ستھری سیاست کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت پر یقین رکھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Hakomat Or Peoples Party k Darmayan haalia Kasheedgi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 February 2016 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.