فوج اور عدلیہ کو ”قابو“ کرنے کا منصوبہ!!!

حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے سر جوڑ لئے ”جمہوری نظام“ بچانے کی گارنٹی پر امریکہ کو جماعةالدعوة اور جیش محمد پر پابندی کی یقین دہانی

پیر 9 اکتوبر 2017

Fooj or Adlia Ko Qaboo Karny Ka Mansoba
اسرار بخاری:
نہ تو وقت کی رفتار پر قابو پایا جا سکتا ہے نہ ہی مقدر کا لکھا ٹالا جا سکتا ہے البتہ اعمال میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے اچھے عمل کا اچھا اجر اور بُرے عمل بُرا نتیجہ ، جیسا کہ ذاتی لڑائی میں قتل کرنے والے کو دنیامیں سزائے موت، آخرت میں انجام بدکے امکانات اگر دربارِ خداوندی سے معافی کا پروانہ نہ مل جائے لیکن جہاد میں دین اسلام کے لئے دفاع وطن کی خاطر دوسرے انسان (دشمن)قتل کرنے واے کے لئے اعزازات وانعامات کی بارش ، کرپشن ناحق قتل سے بڑی بُرائی اس لئے ہے کہ اس سے ایک شخص یعنی مقتول یا اس کے لواحقین متاثر ہوتے ہیں جبکہ کرپشن سے لاتعداد انسان تباہی و بربادی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ، قومیں بدحال اور ممالک تباہ ہوجاتے ہیں اس لیے کرپشن جتنا سنگین اور گھناؤنا جرم ہے اسے نظر انداز کرنا یااس سلسلے میں احتساب سے اغماض برتنا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔

(جاری ہے)

وطن عزیز کو کرپشن کی دیمک کھوکھلا کررہی ہے کوئی ادارہ ایسا نہیں جو کرپشن سے پاک ہو تاہم بعض اداروں میں احتساب کا نظام ہے اس لئے کرپشن کا تناسب کم ہے مثلا فوج اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی حد تک کرپشن کے حوالے سے کڑا احتسابی نظام ہے ، فوج میں باقاعدہ عدالتیں ہیں جہاں کورٹ مارشل ہوکر سزاملتی ہے عدلیہ میں سپریم جوڈیشنل کونسل کا ادارہ ہے تاہم نچلی سطح پر کسی بھی طرح کی کرپشن نہ ہونے کی قسم نہیں کھائی جاسکتی کیونکہ یہ سب انسان اور اس معاشرہ سے تعلق رکھنے والے بشری کمزوریوں اور خامیوں کے حامل افراد ہیں۔

کرپٹ افراد کے احتساب کے لئے نیب کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا اس سے بہت توقعات وابستہ کی گئیں کرپشن میں ملوث افراد سخت خوفزدہ بھی ہوئے مگر پھر جو ہوا اسے اگر بالکل مایوسی کا نام نہ دیا جائے تو عدم اطمینان تو بہر صورت کہا جائے گا۔ سبکدوش ہونے والے چیئرمین چودھری قمرالزمان کے دعویٰ بھی عام لوگوں کے اطمینان کا باعث نہیں بن سکے اس لئے نیب کو موثر ادارہ اس کی کاروائیوں کو نتیجہ خیز بنانے کی ضرورت عوامی سطح پر محسوس کی جارہی ہے۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی زیر صدارت قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی احتساب بیوروکا اِن کیمرہ اجلاس ہوا جس میں نیب کے نئے قوانین کی تیاری پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں فوجی جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے کی تجاویز زیر بحث آئیں۔ نیب کا نام تبدیل کرنے اور چیئرمین کی مدت کم کرکے چار سال سے تین سال کرنے کے ساتھ ساتھ نئے قوانین میں بدعنوانی کی تعریف میں تبدیلیوں پر غوروخوص کیا گیا اسی طرح پلی بارگین اور لوٹی ہوئی رقم کی رضاکارانہ واپشی ختم کرنے جبکہ نیب کے تحت دائر مقدمات نیب عدالت کی بجائے سیشن کورٹ میں پیش اور سنے جائیں ، پر غوروخوص ہوا۔

وزیر قانون زاہد حامد کی زیر صدارت اجلاس میں تمام جماعتوں کے مابین اتفاق پایا گیا تاہم یہ طے ہونا باقی ہے کہ ان نئے قوامین کا اطلاق وفاق پر ہوگا یا صوبے بھی اس کے پابند ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس 4 اکتوبر کو طلب کیا گیا ہے جہاں تک تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق کا تعلق ہے اسے عوامی سطح پر ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کی کوشش سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اگر انہوں نے نئے قوانین پر اتفاق نہ کیا تو وہ آئندہ قوانین کی زد میں آکر کرپٹ ثابت ہوئے تو نااہل قرار پائیں گے اگرچہ نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کا راستہ پارلیمانی طریق کار کے مطابق پہلے ہی ہموار کرلیا گیا ہے۔

وزیر قانون نے اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی پیش کردہ تجاویز کا تو ذکر کیا مگر جماعت اسلامی کی تجاویز پر لب کشائی سے احتراز کیا ہے۔ جماعت اسلامی کی تجویز یہ ہے کہ چیئر مین نیب کی تقرری کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کو دیا جائے جبکہ حکومت اور اپوزیشن چیئرمین کی تقرری کا مروجہ طریقہ کار بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کے تحت چیئرمین نیب کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں۔

سیاسی منظر نامے میں (ن)لیگ اور پیپلز پارٹی بظاہر دست وگریبان نظر آتی ہیں لیکن واقعاتی شواہد کی رو سے اندر ایک ہیں اور میثاق جمہوریت کی آڑ میں اورجمہوریت کے تحفظ کے نام پر اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کا کھیل کھیل رہے ہیں ان کا مقصد احتساب کے نام کو حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز بنانا اور کرپشن کی لعنت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہے تو پھر حکمران جماعت،حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے اعمال وکردار سے عوامی سطح پر پھیلے اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ عوام کی بجائے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کا تحفظ کیا جارہا ہے بلکہ انہیں یہ تاثر دینا ہوگا کہ احتساب کے حوالے سے تمام تر قانون سازی کا مقصد کرپشن کے سوتے مکمل طور پر بند کرنا ، اداروں کی اصلاح ، انہیں مستحکم بنانا اور عوام کو درپیش مسائل سے نجات دلا کر جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے بہرہ ور کرنا ہے اور اس مقصد وحید کیلئے وہ اس طرح اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں گے جس طرح ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے وقت بے مثال رائے کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے شریف فیملی کے احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے پانامہ لیکس میں تو 336 دیگر افراد بھی تھے اب تک ان میں سے کسی ایک سے پوچھا تک نہیں گیا، چنانچہ عوام میں اگر یکطرفہ کاروائی اور سیاسی انتقام کا تاثر پیدا ہوا ہے تو یہ غیر فطری نہیں ہے بہتر ہوتا خصوصی عدالت یا بنچ بنا کر ان میں سے بھی کچھ افراد کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا جاتا۔

اب حکومت نیب کے نام اور قوانین تبدیلی کے ساتھ چیئرمین کی مدت ایک سال کم کرنے لئے جو اقدامات کررہی ہے وہ پارلیمانی طریق کار کے مطابق کئے جارہے ہیں جنہیں کسی صورت غیر قانونی یا غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا مگر یہ سب جس طرح کیا جارہا ہے اس نے بہرحال منفی تاثر کو جنم دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر حدیبیہ پیپر ملز کیس کے حوالے سے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب نے اپیل دائر کردی ہے اس کیس میں میاں نواز شریف،ان کی والدہ شمیم اختر ، میاں شہباز شریف،حمزہ شہباز ، حسین اور حسن نواز ، مریم نواز،سائرہ نواز اور دیگر پر منی لانڈرنگ کا الزام ہے اور اسحاق ڈار اعترافی بیان دے چکے ہیں کہ کس طرح منی لانڈرنگ کی گئی اور اس کیس میں اگر شریف فیملی کے خلاف آگیا تو پھر بیگم کلثوم نواز ہی سیاست کے لئے باقی بچیں گی ان کا نام اس میں نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یاب کرے، وزیراعظم تو وہ شاید نہ بنیں البتہ سیاست اور پارٹی میں ان کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ (ن)لیگ کی حکومت اپنے قائد میاں نواز شریف اور انکی فیملی کے خلاف مقدمات کے حوالے سے پریشان کن صورتحال کا شکار ہے اس کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں جماعة الدعوة کے امیر حافظ سعید ، حقانی نیٹ ورک اور جیش محمد تنظیم کے حوالے سے جو کچھ کہا اور انہیں پاکستان پر بوجھ قرار دیکر ختم کرنے کے لئے کچھ وقت کی مہلت طلب کی ہے اس پر حکومت کو سیاسی اور عوامی سطح پر مکمل حمائت وتائید حاصل نہیں ہے بلکہ خاصی حد تک مخالفانہ ردِ عمل کا سامنا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران کان نے اس بیان پر ردِ وعمل میں کہا کہ” جس ملک کا وزیر خارجہ خواجہ آصف ہوا سے دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔“ خواجہ آصف واشنگٹن میں ایشیا سوسائٹی میں خطاب کے دوران نہ جانے کس کیفیت میں تھے کہ حافظ سعید پر وائٹ ہاؤس میں شراب نوشی کا الزام لگا بیٹھے جس پر حافظ سعید کی جانب سے اسے کے ڈوگر ایڈووکیٹ کی وساطت سے انہیں دس کڑوڑ ہرجانے کا نوٹس دیا گیا ہے۔

ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی مطالبہ پر جماعة الدعوة اور جیش محمد کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے جس پر آئندہ چند روز میں عمل درآمد شروع ہوجائے گا۔ کہا جاتا ہے اس کریک ڈاؤن کے بدلے امریکہ سے جمہوری نظام کے تحفظ اور سول ملٹری کشمکش کم کرانے کی گارنٹی لی گئی ہے۔ کریک ڈاؤن کے دوران جماعة الدعوة کے دفاتر سیل۔ اس کے مراکز بند، رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔

فلاحی سرگرمیوں میں مصروف فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور ملی مسلم لیگ پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی پوری طرح (ن)لیگ کی حکومت کے ساتھ ہے اور حکومت کو اس مقصد میں تقویت پہنچانے کے لئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا ہے کہ بعض قومی ادارے دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایک کالعدم تنظیم کے تعاون سے این اے 120 میں الیکشن لڑنے کی اجازت کس نے دی اور الیکشن مہم کے دوران کالعدم تنظیم کے رہنماؤں کی تصاویر اور پوسٹرز کا وزارت داخلہ نے نوٹس کیوں نہیں لیا۔

حالانکہ جماعة الدعوة اور جیش محمد کے خلاف پاکستان میں کوئی کیس نہیں ہے نہ ان کی سرگرمیوں کا دائرہ پاکستان میں ہے سوائے فلاحی کاموں کے، جماعة الدعوة نے پاکستان میں منفی سرگرمیاں تو کیا امریکہ کے خلاف بھی کوئی کام نہیں کیا۔ لشکر طیبہ اور جیش محمد کشمیریوں کی آزادی اور انہیں بھارتی فوج کے تسلط وظلم وزیادتی سے بچانے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں ضرورسرگرم ہیں۔

بھارت مختلف نے کنٹرول لائن پر خاردار تاروں کی بازی لگالی ہے اور اس کی فوج مختلف مقامات سے پاکستانی حدود میں اور آزاد کشمیر کے علاقے پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس لئے پاکستان سے وہاں جاکر عسکری جدوجہد کا حصہ بننا ممکن ہی نہیں ہے۔ امریکہ نے بھارت کے ایما پر ان تنظیموں کے خلاف کاروائی پر مصر ہے جبکہ امریکی حکمرانوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی دہشت گردی نظر نہیں آرہی۔

بعض ذاتی مصلحتوں کی خاطر جماعة الدعوة اور حافظ سعید کے خلاف کاروائی عاقبت نااندیش ہوگی ملک بھر میں اس کے لاکھوں کارکنوں اور حامیوں کا ردعمل کیا صورتحال پیدا کرے گا کیا پرامن خدمات انجام دینے والوں کو منفی ردعمل کا شکار بناکر انہیں پی ٹی ٹی ، جماعت الاحرار اور ایسی دوسری تنظیموں کی راہ چلنے کا راستہ دکھایا جارہا ہے ایسے حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے امریکہ کو جتنا مرضی خوش کرلو پاکستان جب تک ایٹمی اثاثے کوڑے دان میں نہیں پھینک دیتا اور بھارت کا طفیلی ملک بننے پر آمادہ نہیں ہوجاتا امریکہ مطمئن اور خوش نہیں ہوگااور ڈومور کا راگ لاپتا رہے گا، ادھر مالیاتی شعبہ سے پریشان کن خبریں آرہی ہیں۔

نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سٹیٹ بنک نے نج بینکوں سے چالیس ارب کا قرضہ لیا ہے ماہرین معاشیات کے مطابق اپریل تک نجی بینکوں کی صورتحال بھی پتلی ہو جائے گی اور پھر آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر جانا پڑے گا تو آئی ایم ایف کون کون سر شرائط منوانے کی کوشش نہیں کرے گا یہ سمجھنے کے لئے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Fooj or Adlia Ko Qaboo Karny Ka Mansoba is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 October 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.