دہشت گردی کے خلاف جنگ

اگر دہشت گرد چرچ کی عمارت میں داخل ہوجاتے تو اس دعائیہ تقریب میں شریک چار سو کے قریب مرد و خواتین کے ساتھ بچے بھی موجود تھے۔

پیر 25 دسمبر 2017

Dehshatgardi K Khilaf Jang
خالد یزدانی:
سقوط ڈھاکہ 16 دسمبر 1971ء کو ہوا جب اغیار کی سازشوں کے نتیجہ اور عالمی طاقتوں کی بے حسی نے ہمارے مشرقی بازو کو ایک سازش کر کے ہم سے علیحدہ کردیا اور یوں مشرقی پاکستان‘ بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کے بعد ہر سال جب بھی 16 دسمبر کا دن آتا ہے وہ پاکستانی عوام کو سوگوار کردیتا ہے۔ اسی طرح 14 دسمبر 2014ء یعنی تین سال پہلے پشاور کے ایک سکول میں دہشت گردوں کی کارروائی کے نتیجہ میں ننھے طالب علموں کے ساتھ ساتھ اساتذہ نے بھی جام شہادت نوش کی۔

اس سانحے کی یاد میں ہر سال ملک بھر میں اس سانحہ میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ امسال بھی 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ اور سانحہ پشاور کے حوالے سے پاکستانیوں کے دل غم سے نڈھال تھے کہ اس سے اگلے روز 17 دسمبر 2017ء کو اتوار کے دن چار دہشت گردوں نے چرچ پر حملہ اس وقت کیا جب چرچ میں دعائیہ تقریب جاری تھی۔

(جاری ہے)

دہشت گردوں نے فائرنگ کرتے ہوئے اندر داخل ہونے کی کوشش کی جبکہ سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے جوابی کارروائی بھی کی جس سے ایک دہشت گرد حملہ آور مارا گیا تھا ، جبکہ دوسرے نے خود کودھماکے سے اڑا لیا اور دو افراد فرار ہوگئے۔

دہشت گردوں کی اس کارروائی میں 9 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے۔ اگر دہشت گرد چرچ کی عمارت میں داخل ہوجاتے تو اس دعائیہ تقریب میں شریک چار سو کے قریب مرد و خواتین کے ساتھ بچے بھی موجود تھے۔ سکیورٹی فورس کی بروقت کارروائی کی وجہ سے زیادہ انسانی جانیں بچ گئیں۔ معلوم ہوا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے چمن کے راستے آئے تھے۔ ان دہشت گردوں کی عمریں 16 سے 20 سال معلوم ہوئیں۔

اس سانحہ کے بعد کراچی، لاہور سمیت ملک بھر کے گرجا گھروں کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی تاکہ اس طرح کے اندوہناک واقعات نہ ہوسکیں۔کوئٹہ میں ہونے والے اس واقعہ کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے دہشت گردی کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کو مذاہب کے درمیان دراڑ ڈالنے کی مذموم کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے گھناؤنے حملوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کریں گے۔

دیکھا جائے تو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو دہشت گردوں نے رواں سال اس سے پہلے کئی بار دہشت گر دوں کی وجہ سے اس علاقہ کے امن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جن میں 23 جون کو شہداء چوک میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ تھا، دوسرا 13 جولائی کو کو کلی دیبا میں، تیسرا 12 اگست کو ہوا جب ایک سکیورٹی فورسز کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا، چوتھا واقعہ 13 اگست کو فقیر محمد روڈ، پانچواں 18 اکتوبر کو ہوا جب خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پولیس ٹرک سے ٹکرا دی تھی، چھٹا واقعہ 15 نومبر کو نواں کلی میں ہوا تھا جبکہ 9 نومبر کو ڈی آئی جی بلوچستان سمیت تین اہلکار شہید ہوگئے تھے۔

دراصل اس طرح کے واقعات کی کڑیاں ان عناصر سے بھی ملائی جارہی ہیں جن کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور جب سے سی پیک کا آغاز ہوا اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہی ہوا دراصل وہ سب سمجھتے ہیں کہ اگر سی پیک جیسا اہم منصوبہ بن گیا تو پاکستان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا ،اسی لئے اس پاک چین منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہونے لگیں تھیں جس کے نتیجے میں لا تعداد بے گناہوں کی جانیں چلی گئیں۔ اسی حالات میں پاک افواج نے وطن عزیز کو دہشت گردوں سے نجات کے لئے ان کے خلاف پہلے ’ آپریشن ضرب عضب “کرکے ان علاقوں کو تباہ برباد کیا جن کو دہشت گرد نے اپنی پناہ گاہوں کے طور پر بنایا ہوا تھا ، اب بھی پاک فوج کے جوان” آپریشن ردالفساد“ کے ذریعے وطن دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں اور اس میں اپنی جانوں کا بھی نذرانہ دے رہے ہیں۔ ضرورت آج اس بات کی ہے کہ قوم دشمن کے عزائم کو سمجھتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے، اس سے ہی ہم دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناپاک بناسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dehshatgardi K Khilaf Jang is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 December 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.