دہشت گردی کی روک تھام

ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے نیکٹا کو مئوثر بنایا جائے

منگل 28 فروری 2017

Dehshat Gardi Ki Rok THam
خالد جاوید مشہدی :
جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی ہمیشہ بات کی جاتی ہے اور وقتاََ انہیں نشانہ بنانے کی کارروائیاں بھی سامنے آتی ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ پنجاب کو محفوظ سمجھ کر آپریشن والے علاقوں سے دہشت گردیہاں منتقل ہوگئے ہوں۔ حکومت پنجاب کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ دہشت گردی کیخلاف پولیس کے ذریعہ یہی کارروائیوں پر اصرار کرتی ہے ۔

چھوٹو گینگ کیخلاف فوج کااستعمال مجبوری بن چکا تھا۔ عمران خان اور دوسرے اپوزیشن رہنما تسلسل سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ رینجرز پنجاب میں بھی کراچی کے طرز پرآپریشن کرے ۔ طویل دورانیہ کے بعد لاہورکو ایک بار پھر خون میں نہلاتے ہوئے دو اعلیٰ پولیس افسران کو دہشت گردی کی بھیمٹ چڑھادیا گیا ۔

(جاری ہے)

ایس ایس پی زاہد گوندل 2013 میں جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور میں ڈی پی اوتعینات رہے اور چھوٹوگینگ کیخلاف آپریشن کی قیادت بھی کی ۔

سانحہ لاہور ۔ کے بعد خبریں آئیں کہ ایک بڑے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا آغاز جنوبی پنجاب سے کیا جارہا ہے ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پنجاب حکومت حالات سے مجبور ہو کر آپریشن کے لئے بالآخر تیار ہوگئی ہے ، جس کی وہ مزاحمت کرتی رہی ہے ۔ اس سے اگلے ہی روز خانیوال کے نواحی گاؤں میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مقابلے کا واقعہ پیش آگیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس مقابلوں کے مخصوص انداز میں کارروائی کی گئی ، رات گیارہ بجے مبینہ طور پر انٹیلی جنس رپورٹ ملنے پر کہ 10-98آر میں ایک گھر میں 10دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں ۔

سی ٹی ڈی ، ایلیٹ فورس، پنجاب پولیس نے اس مکان کو گھیرے میں لے لیا ۔ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 6دہشت گرد جن کا تعلق جماعت الاحرار سے تھا ۔ اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں سے ہلاک ہوگئے جبکہ 4فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ پوسٹ مارٹم کے بغیر یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کانشانہ بنے اوران کا تعلق جماعت الاحرار سے ہے ۔ یاد رہے کہ لاہور حملے سے اگلے ہی روز پشاور اور مہمند ایجنسی میں ہونے والے خود کش حملوں کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان کے جماعت الاحرار گروپ نے قبول کی تھی ۔

دریں اثناء مظفر گڑھ کے نواحی قصبہ محمود کوٹ اور جہانیاں کے گردو نواح میں سرچ آپریشن میں کچھ مشکوک افراد کو پکڑنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ملتان کیلئے الرٹ بھی جاری کیاگیا کہ پولیس افسران اور سرکاری گاڑیوں کے ڈرائیور محتاط رہیں ۔ وہ دہشت گردوں کی براہ راست کارروائی کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔ دہشت گردی کیخلاف بہت سے اداروں کا قیام بھی شاید مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہو ۔

جب بھی دہشت گردی کی وار دات ہوتی ہے ، وجوہات میں کہا جاتا ہے کہ فلاں ادارہ فعال نہیں اس لئے نتائج حاصل نہیں ہورہے ۔ اب نیکٹا نیکٹا ہورہی ہے کہ اگر یہ ادارہ ہوتا تو دہشت گردی کی وار داتیں ختم ہوچکی ہوتیں ۔ کہاجارہا ہے کہ اس گریڈ 17 کے 87 افسر ہونا چاہئیں جبکہ اس وقت 33 افسر انکام کررہے ہیں ۔ مختلف گریڈز کی 700اسامیوں پر صرف 130 کام کررہے ہیں ۔

ہرادارے میں افسر بھرے پڑے ہیں۔ سنا ہے کہ وزیر داخلہ نیکٹا پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں جس پر اختلاف ہے ۔ جتنے افسر اتنی گاڑیاں ، جتنے دفاتر اتنی کاغذی کارروائیاں ، کیا ایک ادارے میں سب کچھ جمع نہیں کیا جاسکتا ۔
اللہ تعالیٰ نے شریف خاندان کو بہت عروج بخشا ۔ تاہم آج کل وہ بڑی آزمائشوں میں ہیں، میاں نواز شریف کی خوشی نصیبی ضرب المثل بن چکی ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے بہتر صورتحال سامنے آئے ۔ شوگر ملز کی منتقلی کا اُونٹ شائدان سطور کے شائع ہونے تک کسی کروٹ بیٹھ جائے ۔ تاہم بندش کے حکم سے کسان شدید پریشانی میں ہیں ۔ سپریم کورٹ نے کرشنگ پر پابندی جہانگیرترین کی رٹ پر لگائی جن کی اپنی شوگر مل بھی اس علاقے میں ہے ۔ رٹ میں مئوقف اختیار کیا گیا کہ رحیم خان ، بہاولپور اورمظفر گڑھ کے اضلاع کاٹن ایریا ہیں جہاں مزید شوگر ملز کے قیام اور منتقلی پر پابندی عائد ہے مگرچونکہ پنجاب میں شریف خاندان کی حکومت ہے ۔

اس لئے پابندی کی خلاف ورزی کر کے چوہدری شوگر ملز ، اتفاق اور وقاص حبیب شوگرملز کو اپرپنجاب سے زیریں پنجاب منتقل کیا گیا ۔ شوگر ملز علی الترتیب کوٹ سمابہ (ضلع رحیم یارخان ) اور چنی گوٹھ (ضلع بہاولپور ) میں لگائی گئیں ۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم امتناعی خارج کرتے ہوئے 7دن میں اس حوالے سے فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ۔ تینوں شوگر ملز میں کم وبیش 5ہزار افراد کام کرتے ہیں ۔

جو بندش کے حکم سے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ اس سال علاقے میں 7لاکھ ایکڑ پر گنا کاشت کیا گیا اور فصل بھی بھرپور ہے ۔ کرشنگ سیزن عروج پر ہے اور بندش کے حکم پر پریشان کسان سڑک پر احتجاج بھی کررہے ہیں ۔ لاکھوں ٹن گنا ابھی کھیتوں میں کھڑا ہے ۔ کسان ویلفیئر “ فاونڈیشن کے چیئر مین محمود الحق بخاری اور دیگر کاشتکار نمائندوں کا کہنا ہے کہ قانونی تفاضے اپنی جگہ مگر مسئلے کو انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے ۔ اگر منتقلی کے قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو سخت کارروائی کی جائے مگر کاشتکاروں کی جمع پونجی گنے کی فصل پر لگی ہوئی ۔ اسے پیش نظر رکھتے ہوئے کرشنگ سیزن کے درمیان کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جو کسانوں کو زندہ درگورکردے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Dehshat Gardi Ki Rok THam is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 February 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.